WE News:
2025-07-09@12:49:30 GMT

مادرِ ملت فاطمہ جناح: وقار، وفا اور عزم کی تابندہ علامت

اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT

مادرِ ملت فاطمہ جناح: وقار، وفا اور عزم کی تابندہ علامت

محترمہ فاطمہ جناح، وہ نام جو محض قائداعظم کی ہمشیرہ ہی نہیں، بلکہ پاکستان کے سیاسی، فکری اور اخلاقی سفر کی روشن ترین مثال بن کر ابھرا۔ وہی فاطمہ جناح، جنہیں قوم نے مادرِ ملت کا عظیم لقب عطا کیا، جنہوں نے اپنی نجی زندگی کو قومی مفاد پر قربان کرکے تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے رقم کیا۔

31 جولائی 1893 کو کراچی میں پیدا ہونے والی فاطمہ جناح نے کم سنی میں ماں کی شفقت سے محروم ہوکر ایک مضبوط اور باوقار شخصیت کی بنیاد رکھی۔ قائداعظم محمد علی جناح اس وقت اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن میں تھے۔ بڑی بہن نے پرورش کی ذمہ داری سنبھالی، مگر جیسے ہی محمد علی واپس آئے، فاطمہ کے لیے زندگی ایک نئے سفر پر روانہ ہو گئی۔ ایک ایسا سفر جو اُنہیں محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک نظریے کی ساتھی اور مستقبل کی مادرِ ملت بنا گیا۔

ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی، پھر انگریزی تعلیم کے لیے داخلہ لیا تو خاندان کی مخالفت کا سامنا کیا، مگر بھائی کے حوصلے اور اپنی استقامت سے آگے بڑھتی گئیں۔ محمد علی جناح کی مدبرانہ تربیت نے فاطمہ جناح کی شخصیت کو نکھار دیا۔ وہ نظم و ضبط، سچائی، اخلاق اور علم دوستی میں نمایاں رہیں۔ 1913 میں سینئر کیمبرج کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور پھر کلکتہ کے ڈینٹل کالج سے 1922 میں دندان سازی کی تعلیم مکمل کی۔

مزید پڑھیں: فاطمہ جناح کی تقریر اور کتاب کس نے سنسر کی؟

محمد علی جناح کی زندگی میں فاطمہ جناح کی موجودگی محض خاندانی نہیں بلکہ انقلابی تھی۔ جب رتی جناح کا انتقال ہوا، فاطمہ بھائی کا سہارا بن گئیں۔ وہ صرف ان کی بہن نہ تھیں بلکہ روحانی طاقت، فکری ساتھی اور سیاسی مشیر بھی تھیں۔ قائداعظم نے انہیں جنرل کونسل کہا، کیونکہ ہر اہم فیصلہ اُن کی رائے کے بغیر مکمل نہ ہوتا۔

1935 میں قائداعظم کے ساتھ سیاسی عمل کا باقاعدہ آغاز کیا۔ مسلم خواتین کو جگانے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کے خطاب عوامی بیداری کے استعارے بن گئے۔ مسلم لیگ کے جلسوں میں پیش پیش رہیں۔ خواتین کو تعلیم، خود مختاری اور سیاسی شعور کے اسباق دیے۔ انھیں بتایا کہ قوموں کی تقدیر اُس وقت سنورتی ہے جب ان کی بیٹیاں بھی فکر، علم اور قیادت کے میدان میں قدم رکھتی ہیں۔

برصغیر کے طول و عرض میں قائداعظم کے ساتھ دورے کیے۔ مسلم خواتین کے ذہنوں میں امید، یقین اور مقصد کا چراغ روشن کیا۔ مسلم لیگ کی رکن رہیں، خواتین ونگ کو منظم کیا۔ ان کے خطابات، مینابازار کے افتتاح، طالبات کی رہنمائی اور سیاسی تنظیموں میں شرکت، یہ سب تحریکِ پاکستان کے اہم گوشے ہیں جن کے بغیر تاریخ ادھوری ہے۔

قائداعظم خود فرماتے تھے کہ فاطمہ نہ صرف میری حوصلہ افزائی کرتی ہے بلکہ میرے بیانات میں اس کی رائے ہمیشہ شامل ہوتی ہے۔ وہ اُن کی رازدار، ہمراز، مشیر اور مشن کی محافظ تھیں۔ وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی برادر کے ساتھ رہیں۔ ان کا اخلاص، استقامت اور ایثار ناقابلِ فراموش ہے۔

مزید پڑھیں: فاطمہ جناح کی وصیت کے مطابق موہٹہ پیلس کو  گرلز ڈینٹل کالج بنانا قرار پا گیا

فاطمہ جناح نے ہمیشہ خواتین کو باور کرایا کہ قوم کی تعمیر میں اُن کا کردار مردوں سے کم نہیں۔ وہ تعلیم نسواں، بالغ تعلیم، معاشی خود کفالت اور سیاسی شرکت کی داعی تھیں۔ ان کی تقاریر آج بھی ہمارے لیے نسخۂ کیمیا ہیں۔

محترمہ فاطمہ جناح 9 جولائی 1967 کو 73 برس کی عمر میں کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر مردہ حالت میں پائی گئیں۔ آپ کا مرقد قائداعظم کے مزار کے احاطے میں ہے، پاکستانی قوم ان کی لازوال خدمات پر انہیں آج بھی سلام پیش کرتی ہے۔

فاطمہ جناح صرف ایک فرد نہیں، ایک ادارہ تھیں۔ اُنہوں نے تاریخ کے ہر دور میں خواتین کو آواز، حیثیت اور وقار دیا۔ آج جب ہم سیاسی اضطراب، اخلاقی زوال اور فکری پسماندگی کے دور میں ہیں، تو مادرِ ملت کی زندگی ایک عہدِ نو کی نوید دے سکتی ہے شرط صرف یہ ہے کہ ہم اُن کے جذبے کو اپنائیں، اُن کی جدوجہد کو اپنی راہ کا چراغ بنائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

9 جولائی قائداعظم مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 9 جولائی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح فاطمہ جناح کی اور سیاسی خواتین کو محمد علی کے لیے

پڑھیں:

بلوچستان یونیورسٹی: مادری زبانوں کے شعبے ضم کرنے کا فیصلہ، اساتذہ، طلبہ اور سیاسی حلقوں میں شدید اضطراب

بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کی سطح پر مادری زبانوں کے تحفظ اور ترویج سے متعلق شدید خدشات نے سر اٹھا لیا ہے۔ حکومت بلوچستان کی جانب سے یونیورسٹی آف بلوچستان کے پشتو، بلوچی اور براہوی شعبوں کو یکجا کر کے ’انسٹیٹیوٹ آف لینگویجز اینڈ لٹریچر‘ میں ضم کرنے کے مجوزہ منصوبے پر صوبے بھر میں تشویش اور مخالفت کی لہر دوڑ گئی ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی میں دنیا کا واحد براہوی شعبہ بھی قائم ہے، جس کی ممکنہ بندش یا انضمام پر نہ صرف اساتذہ اور طلبہ پریشان ہیں بلکہ علمی اور ادبی حلقے بھی اسے مادری زبانوں کی شناخت اور ان کے علمی فروغ کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے طلبہ کا کہنا ہے کہ ان شعبوں کو یکجا کرنا ان کی زبانوں کی شناخت مٹانے کے مترادف ہے اور اس سے مقامی زبانوں میں تحقیق اور تعلیم کا عمل متاثر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: شمالی علاقہ جات کی زبانوں کے تحفظ اور فروغ کے لیے تقریب کا انعقاد

جامعہ بلوچستان کے اساتذہ، پروفیسرز اور تعلیم دوست حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان زبانوں کے شعبے ختم کرنے یا ضم کرنے کے بجائے انہیں مزید فروغ دیا جائے تاکہ مادری زبانوں کے ذریعے صوبے کی تہذیب، ثقافت اور تاریخ کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔

اس تنازع پر نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی شدید ردعمل دیا ہے۔ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت بلوچستان نے یونیورسٹی آف بلوچستان کے وائس چانسلر کو تحریری طور پر ہدایت دی ہے کہ پشتو، بلوچی اور براہوی شعبوں کو ملا کر ایک ادارے میں ضم کیا جائے۔ انہوں نے اس فیصلے کو مقامی زبانوں اور قوموں کے خلاف سازش قرار دیا اور کہاکہ محض مالی نقصان کے نام پر اگر یہ شعبے ختم کیے جا رہے ہیں تو پورا ملک خسارے میں ہے، اس کا کیا کیا جائے گا؟

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ جب بلوچی زبان سویڈن میں پڑھائی جا رہی ہے تو بلوچستان میں اسے بند کرنا ناقابل فہم ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو مادری زبانوں کے قتل سے تعبیر کیا اور واضح کیاکہ ان کی جماعت اس حکومتی اقدام کے خلاف ہر ممکن جمہوری جدوجہد کرے گی۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پشتونخوا نیشنل پارٹی نے بھی اس حکومتی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس اقدام کو فی الفور واپس لیا جائے۔

دوسری جانب گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل نے یونیورسٹی آف بلوچستان کے گیارہویں سینیٹ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اس مسئلے پر بھی گفتگو کی۔ گورنر نے اس بات کا اعتراف کیاکہ یونیورسٹی کے بعض ڈیپارٹمنٹس خاص طور پر زبانوں کے شعبوں میں اساتذہ کی تعداد طلبہ سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے مالی بوجھ بڑھ رہا ہے اور اس کے لیے ایک پائیدار حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہاکہ منصوبہ ایسا ہونا چاہیے جو غیر ضروری اخراجات کم کرنے کے ساتھ ساتھ قومی زبانوں کی ترقی اور ترویج کو بھی یقینی بنائے۔

گورنر بلوچستان نے مزید کہا کہ صوبے کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ محض تعلیم دینے کے بجائے جدید تحقیق کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے وائس چانسلرز کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اداروں کے لیے واضح ریسرچ ایجنڈا تشکیل دیں، تحقیق کے لیے فنڈ مختص کریں اور اس کی رپورٹ چانسلر آفس میں جمع کرائیں تاکہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں تحقیق اور علم کی نئی راہیں کھلیں۔

یہ بھی پڑھیں: میری مادری زبان اردو نہیں انگریزی ہے، اداکارہ سلمیٰ حسن کا انکشاف

بلوچستان میں مقامی زبانوں کے تحفظ اور ترویج کے حوالے سے یہ معاملہ صوبے میں اعلیٰ تعلیم کی پالیسی، ثقافتی شناخت اور سماجی ہم آہنگی سے جڑا ہوا حساس موضوع بنتا جا رہا ہے، جس پر سیاسی اور سماجی حلقوں کی گہری نظر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بلوچستان یونیورسٹی شدید تشویش شعبوں کا انضمام مادری زبانیں وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • فاطمہ جناح پاکستانی خواتین کیلئے ہمت، کردار اور وقار کی علامت ہیں: وزیراعلی پنجاب مریم نواز
  • مادرِ ملت فاطمہ جناح: شخصیت اور جدوجہد کے چند انوکھے پہلو
  • وزیراعلیٰ پنجاب کا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو 58ویں برسی پر خراج عقیدت
  • مادرِ ملت کی آج 85ویں برسی عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے
  • جیکب آباد ،سرکاری ملازمین کی بیگمات نے مستحق خواتین امداد ہڑپ کرلی
  • مادر ملت فاطمہ جناح کی 58 ویں برسی
  • بلوچستان یونیورسٹی: مادری زبانوں کے شعبے ضم کرنے کا فیصلہ، اساتذہ، طلبہ اور سیاسی حلقوں میں شدید اضطراب
  • منہدم ہو رہے ہیں اندر سے
  • ملتان: گھروں سے بےدخل فاطمہ جناح ٹاؤن کے رہائشیوں کا وزیراعلیٰ پنجاب سے انصاف کا مطالبہ