اقوام متحدہ اجلاس کے دوران اسحاق ڈار کی ہنگری، جی سی سی اور کینیڈین وزرائے خارجہ سے اہم ملاقاتیں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر ہنگری، جی سی سی اور کینیڈا کے وزرائے خارجہ سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں، جن میں باہمی دلچسپی کے امور اور دوطرفہ تعلقات کو مزید وسعت دینے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر سیجارٹو سے ملاقات کی، جو جنرل اسمبلی اجلاس کے سائیڈ لائنز پر ہوئی۔
دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور ہنگری کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔
ملاقات میں تجارت، سرمایہ کاری اور اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ دونوں وزرائے خارجہ نے تعلقات کو نئی جہت دینے اور دوطرفہ روابط کو وسعت دینے پر زور دیا۔
اس موقع پر اسحاق ڈار نے جی سی سی کے سیکریٹری جنرل جاسم محمد البُدایوی سے بھی ملاقات کی۔
انہوں نے پاکستان اور خلیجی ریاستوں کے درمیان گہرے تعلقات کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، جی سی سی کے رکن ممالک کے ساتھ تعاون کو مزید وسعت دینے کے لیے پُرعزم ہے۔
انہوں نے مشترکہ اقدامات کے ذریعے ادارہ جاتی روابط کو مستحکم کرنے اور کثیر الجہتی تعاون بڑھانے پر زور دیا۔
اسحاق ڈار نے کینیڈا کی وزیر خارجہ انیتا آنند سے بھی ملاقات کی، جس میں پاکستان اور کینیڈا کے درمیان تعلقات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تجارت اور اقتصادی تعاون کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسحاق ڈار نے کو مزید
پڑھیں:
دوحہ معاہد ے کی خلاورزی ‘ افغانستان پھر دہشتگر د تنظیموں کی پناہ گاہ بن چکا : اقوام متحدہ
اسلام آباد (این این آئی) اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان حکومت کے زیر اقتدار افغانستان ایک بار پھر عالمی دہشتگرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جو پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے خلاف سرگرم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق طالبان نے دوحہ امن معاہدے کے تحت یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین دہشتگردی اور سرحد پار حملوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی تاہم حالیہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ القاعدہ اور طالبان کے روابط بدستور قائم ہیں بلکہ یہ تعلقات پہلے سے زیادہ فعال ہو چکے ہیں۔ رپورٹ میں ایمن الظواہری کی کابل میں ہلاکت کو اس بات کا ثبوت قرار دیا گیا کہ القاعدہ کے نیٹ ورک اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ دہشتگرد تنظیمیں زابل، وردک، قندھار، پکتیا اور ہلمند کے راستوں سے بلوچستان میں داخل ہوتی ہیں۔ طالبان حکومت کی سرپرستی میں فتنہ الخوارج کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں جبکہ اس کے سربراہ نور ولی محسود کو ہر ماہ 50 ہزار 500 امریکی ڈالر فراہم کیے جاتے ہیں۔ محسود کے قبضے میں امریکی افواج کے چھوڑے گئے جدید ہتھیار بھی موجود ہیں۔ جعفر ایکسپریس دھماکے اور ژوب کنٹونمنٹ حملوں میں افغانستان سے منسلک ناقابلِ تردید شواہد سامنے آئے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے مطابق حالیہ مہینوں میں پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس سے خطے کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ ماہرین کے مطابق اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی طاقتیں دوحہ معاہدہ کے تحت افغان طالبان پر سخت پابندیاں عائد کریں تاکہ دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی کا خاتمہ ممکن ہو۔