پاکستان کے بہترین تشخص کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، چودھری شجاعت
اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT
پاکستان کے بہترین تشخص کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، چودھری شجاعت WhatsAppFacebookTwitter 0 5 October, 2025 سب نیوز
لاہور(سب نیوز)پاکستان مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں، پاکستان کا جو بہترین تشخص ابھرا ہے، اسے ذاتی مفادات اور سیاست کے بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔پاکستان مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین سے پارٹی کے سینئر رہنماوں نے ملاقات کی جس میں پارٹی کے تنظیمی امور اور ملک کی مجموعی صورتحال پر بات چیت کی گئی، پارٹی ترجمان مصطفی ملک نے موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی۔ملاقات کرنے والے سینئر رہنماں میں چودھری شافع حسین، چودھری سالک حسین، ڈاکٹر محمد امجد، طارق حسن اور مسز فرخ خان شامل تھے، رضوان صادق، مہرین ملک، ڈاکٹر رحیم اعوان، انیلہ چودھری، چودھری جہانگیر، تلبیہ بخاری، عاطف مغل اور یاسر عرفات بھی اس موقع پر موجود تھے۔
مسلم لیگی رہنماوں نے پارٹی سیکرٹری جنرل طارق حسن کی وزیراعلی سندھ کے بطور معاون خصوصی تقرری پر قیادت کو مبارکباد پیش کی، چودھری شجاعت حسین نے پارٹی امور اور تنظیم سازی پر اطمینان کا اظہار کیا۔صدر پاکستان مسلم لیگ چودھری شجاعت حسین نے سابق وزیراعلی بلوچستان میر نصیر مینگل سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا اور بلوچستان کی صورتحال پر بات چیت کی۔چودھری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں، عسکری و سیاسی قیادت نے مل کر اپنی مثبت شناخت کا مرحلہ جیت لیا، پاکستان کا جو بہترین تشخص ابھرا ہے، اسے ذاتی مفادات اور سیاست کے بھینٹ نہ چڑھایا جائے، سب کو ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا، سفارتی محاذ پر کامیابی بہت بڑا چیلنج تھا، جسے سپہ سالار اور حکومت نے ملکر عبور کیا، اب اندرونی مسائل اور سیاسی نفرت سے نمٹنا بھی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات لمحہ فکریہ ہیں، بلوچستان کے مسائل ہر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے، قومی قیادت مسائل کا حل ڈھونڈے، بلوچستان میں دہشت گردی کا خاتمہ اولین ترجیح ہونی چاہئے، بھارت بلوچستان میں نفرت پھیلا رہا اور دہشت گردی میں ملوث ہے۔چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ بلوچستان میں فورسز کے جوانوں، عام شہریوں کی شہادتوں پر غمزدہ ہوں، بلوچستان میں پائیدار امن ہی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہو سکتا ہے، آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر بلوچستان کے معاملات کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے دور میں بلوچستان کی محرومیوں کے خاتمے کیلئے ترجیحی اقدامات کئے، بلوچستان پر پارلیمانی کمیٹی نے جامع سفارشات مرتب کی تھیں، ان سے رہنمائی لے کر بلوچستان مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔صدر پاکستان مسلم لیگ نے مزید کہا کہ ماضی کی طرح بلوچستان میں قیام امن اور اس کی ترقی کے لئے کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمحکمہ موسمیات کا سمندری طوفان شکتی کے حوالے سے 9واں الرٹ جاری، ساحلی علاقوں میں ہلکی بارش کا امکان محکمہ موسمیات کا سمندری طوفان شکتی کے حوالے سے 9واں الرٹ جاری، ساحلی علاقوں میں ہلکی بارش کا امکان بھارت میں ہندو مسلم فسادات، گودی میڈیا کا ایجنڈا بھارتی نشریاتی ادارے کے ہاتھوں بے نقاب ہو گیا حماس نے جنگ بندی نہ مانی تو غزہ پر حملے مزید بڑھیں گے، نیتن یاہو کی دھمکی پاکستان کی جانب سے پسنی پورٹ کی کوئی پیشکش نہیں کی گئی، سیکیورٹی ذرائع کی وضاحت ایمل ولی خان سے وفاق کے بعد کے پی پولیس کی سیکیورٹی بھی واپس لے لی گئی پنجاب حکومت ہماری آڑ میں وزیراعظم کو نشانہ بنارہی ، یہ سازش کامیاب نہیں ہوگی، پیپلز پارٹیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: چودھری شجاعت حسین نے پاکستان مسلم لیگ بلوچستان میں بہترین تشخص ذاتی مفادات
پڑھیں:
اتحاد کی ہانڈی، بار بار چوراہے میں کیوں پھوٹتی ہے؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی 2 بڑی جماعتیں ہیں، جنہیں کبھی ایک دوسرے کی سخت ترین حریف تو کبھی اتحادی کے طور پر دیکھا گیا۔
لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ جب بھی یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار میں شریک ہوتی ہیں، کچھ ہی عرصے بعد اختلافات اور کشیدگی جنم لے لیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان پیدا ہونے والی تلخیوں نے ایک بار پھر ماضی کی یاد تازہ کر دی ہے۔
حالیہ اختلافات کی ابتدا2024 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر اقتدار کے لئے ہاتھ ملایا۔ مرکز میں اتحادی حکومت قائم ہوئی جبکہ پنجاب میں مریم نواز وزیر اعلیٰ بنیں۔ ابتدا میں دونوں جماعتوں نے مفاہمت اور تعاون کا عندیہ دیا مگر وقت کے ساتھ ساتھ شکوک و شبہات بڑھنے لگے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کا مؤقف ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے وعدے کے باوجود پنجاب میں انہیں خاطر خواہ نمائندگی نہیں دی۔ کئی اہم فیصلے، مثلاً ترقیاتی منصوبوں کی تقسیم اور بیوروکریسی میں تقرریاں، پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لیے بغیر کیے گئے۔
2025 کے آغاز میں یہ اختلافات اس وقت شدت اختیار کر گئے جب پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے کھلے عام مسلم لیگ (ن) پر معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مریم نواز اور آصف علی زرداری کے درمیان رابطوں کے باوجود یہ کشیدگی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے ایوان میں بھی مسلم لیگ ن اور وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے بیان پرسخت رد عمل سامنے آیا اور نوید قمر نے اس کا برملا اظہار بھی کیا۔ پیپلز پارٹی نے ایوان سے واک آوٹ بھی کیا۔ مسلم لیگ ن کے سلجھے وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے معذرت کی اور انہیں منانے کی بھی کوشش کی۔
معاملہ یہاں رکا نہیں، دونوں صوبوں کے وزرا اطلاعات اور دیگر وزرا اور رہنماوں کی جانب سے ایک دوسرے پر سخت تنقید کا سلسلہ چلتا رہا پریس کانفرنسز بھی ہوئے۔
پیپلز پارٹی نے پنجاب کے اپنے جیالے حسن مرتضیٰ، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف سمیت مختلف جیالوں کو میدان میں اتارا اور بھر پور جواب بھی دئیے۔ جب مسلم لیگ ن کی جانب سے مزید بیانات کا سلسلہ جاری رہا تو پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر قمر زمان کائرہ کو میدان میں اتارنا پڑا۔ انہوں نے بھی اپنے پریس کانفرنس میں مسلم لیگ اور وزیر اعلی پنجاب کو خوب جوابات دئیے۔
تاریخی تناظر: 2008 کا بُربن معاہدہیہ پہلا موقع نہیں کہ دونوں جماعتیں اتحادی بننے کے بعد اختلافات کا شکار ہوئیں۔ 2008 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بُربن میں ایک معاہدہ کیا جس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ مشرف دور میں برطرف کیے گئے ججز کو بحال کیا جائے گا۔
تاہم، پیپلز پارٹی نے اس معاملے پر تاخیری حربے اختیار کیے، جس پر مسلم لیگ (ن) نے سخت ردِعمل دیا اور بالآخر مرکز میں اتحادی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اعتماد کی کمی ہمیشہ ایک بنیادی مسئلہ رہی ہے۔
اتحادی حکومت (2008-2013) اور مستقل کشمکشپیپلز پارٹی کے دورِ حکومت (2008-2013) میں مسلم لیگ (ن) نے ابتدا میں حکومت کا حصہ بننے کے بعد جلد ہی علیحدگی اختیار کی اور اپوزیشن میں بیٹھ گئی۔
اس دوران دونوں جماعتوں کے درمیان بارہا کشیدگیاں سامنے آئیں، مثلاً این آر او، عدلیہ کی بحالی، گورنر راج اور بدعنوانی کے الزامات۔ ان اختلافات نے اس تاثر کو مضبوط کیا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد وقتی مجبوری ہوتا ہے، دیرپا تعلق نہیں۔
2022-2023: پی ڈی ایم کا تجربہعمران خان کی حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر ایک ہی صف میں نظر آئیں اور تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں کامیاب ہو گئیں۔
تاہم، جیسے ہی عبوری حکومت اور انتخابات کی بحث شروع ہوئی، اختلافات نے سر اٹھا لیا۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) پر یہ الزام لگایا کہ وہ مرکز اور پنجاب میں اختیارات پر اجارہ داری چاہتی ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ آخر ہر 2 سے 3 سال بعد ان دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کیوں جنم لیتے ہیں؟ اس کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
سیاسی مفادات کا ٹکراؤ: دونوں جماعتیں ایک ہی ووٹ بینک کو ٹارگٹ کرتی ہیں، بالخصوص پنجاب میں۔ اس لیے دیرپا شراکت داری مشکل ہو جاتی ہے۔
اعتماد کی کمی: ماضی کے تجربات نے یہ واضح کیا ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے وعدوں پر مکمل بھروسہ نہیں کرتیں۔
طاقت کی تقسیم کا مسئلہ: وزارتوں، ترقیاتی منصوبوں اور بیوروکریسی میں اثرورسوخ کی تقسیم ہمیشہ تنازع کا باعث بنتی ہے۔
ذاتی اور خاندانی سیاست: نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو اور اب مریم نواز کے ذاتی بیانیے اور اندازِ سیاست بھی کشیدگی بڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
2025 میں جاری اختلافات نے ایک بار پھر سوال کھڑا کر دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا یہ اتحاد کتنی دیرپا ثابت ہوگا؟ اگرچہ دونوں جماعتوں کو تحریک انصاف کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا سامنا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ باہمی بداعتمادی ان کے اتحاد کو غیر مستحکم کر رہی ہے۔
ماہرین سیاست کہتے ہیں کہ اگر دونوں جماعتیں اقتدار کی بجائے جمہوری تسلسل اور ادارہ جاتی اصلاحات کو ترجیح دیں تو ان کا اتحاد کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر طاقت کی کشمکش جاری رہی تو تاریخ خود کو ایک بار پھر دہرا سکتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں