اسلام آباد (خبر نگار) ایوان بالا اور زیریں میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر بیانات پر معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجا واک آؤٹ کیا۔ شیری رحمٰن نے کہاکہ اس وقت وفاق کو استحکام کی شدید ضرورت ہے۔ ملک میں سیلاب سے 65لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر پنجاب سے ہیں۔ اس وقت بھی بہت سے لوگ پانی سے متاثر ہیں اور ہمیں یہ اچھا نہیں لگ رہا ہے کہ ایسے وقت میں جب ملک میں آفت ہے تو ہم لوگوں کو مدد فراہم کرنے کی بجائے الفاظ کی جنگ میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مشکل وقت میں متحد رہیں مگر جب پنجاب کارڈ کھیلا جائے اور یہ کہا جائے کہ پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری اور اس کی بہن آصفہ بھٹو نے خارجہ پالیسی میں کوئی کام نہیں کیا ہے۔ پنجاب میں ہماری نمائندگی ہے، بلاول بھٹو نے صرف یہ کہا تھا کہ بی آئی ایس پی کو استعمال کیا جائے تاکہ بے یا رو مدد گار لوگوں کو امداد فراہم کی جائے مگر اس کو پنجاب میں مداخلت سمجھی گئی۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے کبھی بھی دوسروں کی تذلیل کرکے اتحاد نہیں چلایا ہے۔ معافی مانگنے سے کسی کی تذلیل نہیں ہوتی ہے۔ پاکستان پر 80 ٹریلین قرضہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہمیں کسی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ سیلاب سے جنوبی پنجاب شدید طور پر متاثر ہے۔ فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ جب آپ کی ریڈ لائن کراس ہو جائے اور ہماری لیڈر شپ پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں تو اس موقع پر پنجاب کارڈ کھیلا جا رہا ہے انہوں نے کہاکہ کوئی صوبہ کسی کی جاگیر نہیں ہے ہم سب پاکستانی ہیں، اس وقت ملک مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور ہر شخص امداد کا مستحق ہے۔ اگر بلاول بھٹو سے معافی نہیں مانگی جاتی ہے تو ہم ایوان بالا میں کسی قسم کی سپورٹ فراہم نہیں کریں گے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی نے ایوان سے احتجاجا واک آئوٹ کیا۔ وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور حکومت کے مابین گرما گرمی پر اپویشن کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے اور حالات دوبارہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ جمہوریت میں اونچ نیچ ہوتی ہے اور یہ سیاست کا اصول ہے۔ دو صوبوں کے عہدیداروں کے بیانات سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اور اگر کسی کو دل آزاری ہوئی ہے تو اس پر مجھے بھی تکلیف ہے۔ رانا ثناء اللہ نے بھی اس کی وضاحت کی ہے، پانی کی تقسیم ارسا کے تحت ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور صدر نے بھی نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کر لیں گے۔ سینیٹر علی ظفر نے سیلاب سے متاثرہ افراد کی فوری امداد اور آبیانہ معافی کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے کو سیاسی تسلط سے آزاد کیا جائے اور اہم اداروں کو بحال کیا جائے۔ ہمیں تاریخی مقابلے دیکھنے میں آ رہے ہیں اور یہ کوئی کرکٹ کا میچ نہیں بلکہ دو اتحادی جماعتوں کے مابین مقابلہ ہے اور یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہے کہ کس نے سیلاب میں عوام کی زیادہ خدمت کی ہے۔ پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ ہم نے سندھ کو سیلاب سے بچایا ہے مگر یہ صرف کتابوں میں ہے حقیقت میں نہیں ہے۔ اسی طرح پی ایم ایل این بھی کہتی ہے کہ ہم نے ٹرکوں اور کشتیوں کے ذریعے امداد دی ہے مگر یہ عجیب و غریب امداد ہے جو سیلاب زدگان کی بجائے ان کی جیبوں میں پہنچی ہے۔ اس وقت سکورنگ یہ ہورہی ہے کہ کس نے زیادہ پریس کانفرنسز کی ہیں انہوں نے کہاکہ پاسکو کو ختم کر دیا گیا ہے اس کی وجہ سے سیلابی موسم شروع ہونے سے پہلے ہی گندم کے ذخیرے صفر ہوگئے۔ حکومت تمام مرحلوں پر ناکام رہی ہے۔ بی آئی ایس پی کی رقوم میں توسیع کی جائے، بندوں کی فوری مرمت کی جائے، صاف پانی عوام تک پہنچائیں۔ سینٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ اپوزیشن کی دال کسی صورت نہیں گلے گی اور ان کی خواہشیں دل میں ہی رہیں گی۔ اپوزیشن حکومت کے مشورے دینے کی بجائے خیبر پی کے میں جو ہوا ہے اس کو دیکھیں، انہوں نے کہاکہ ہم کیوں اس طرح کی سیاست کرتے ہیں اور اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ پوری دنیا ہماری معیشت کو بہتر بتا رہی ہے مگر اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ معیشت وینٹی لیٹر پر ہے۔ ایوان بالا میں وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری کے ریمارکس پر اے این پی کے سینیٹر ارباب عمر فاروق کاسی نے کہاکہ جس طرح وزیر مملکت برائے داخلہ نے باتیں کی ہیں یہ ایک سیاسی کارکن کا طریقہ کار نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے تین سینیٹر ہیں اور انہوں نے کہاکہ کونسلر بننے کی بھی اہلیت نہیں ہے۔ ہم ثابت کریں گے کہ ملک کی خدمت جمہوریت کیلئے قربانیاں ہم نے دی ہیں۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بلوچستان کے ضلع خاران میں دہشت گردوں کی جانب سے قاضی کی عدالت کو جلانے اور پریذائیڈنگ آفیسر کو اغوا کرنے کے واقعے کا نوٹس لینے کامطالبہ کیا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ سیدال ناصر اور پی ٹی آئی کے سینیٹر ہمایون مہمند کے مابین شدید تلخ کلامی ہوئی، ڈپٹی چیئرمین نے پی ٹی آئی رکن کو شٹ اپ کال دیدی، اجلاس جمعرات تک 9اکتوبر ملتوی کردیا گیا۔ کورم کی نشاندھی کے موقع پر بات کرنے کی اجازت دینے پر پی ٹی آئی کے رکن سینیٹر ہمایون مہمند اور ڈپٹی چیرمین سیدال ناصر کے مابین شدید تلخ کلامی ہوئی، پی ٹی آئی کے سینیٹر ہمایوں مہمند بولنے کی اجازت مانگتے رہے مگر ڈپٹی چیرمین نے اجازت نہیں دی اور کہا کہ کافی دیر سے آپ کو برداشت کر رہا ہوں۔ پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر قومی اسمبلی سے بھی واک آؤٹ کیا اور اس کے ارکان ایوان میں واپس نہیں آئے۔ وقفہ سوالات کے دوران راجا پرویز اشرف نے نکتہ اعتراض پر وقت مانگ لیا جس پر سپیکر نے کہا کہ یہ طے ہے کہ وقفہ سوالات کے دوران پوائنٹ آف آرڈر نہیں ہو سکتا، تاہم ارکان کے اصرار پر سپیکر نے پرویز اشرف کو فلور دے دیا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں جانتا ہوں وقفہ سوالات میں بات نہیں ہو سکتی، تاہم اس وقت ایک اہم مسئلہ ہے جس سے ہمارے لوگ دوچار ہیں، ہم حکومت کے اتحادی ہیں اور صرف وفاق پاکستان کے لیے ہم نے حکومت سے اتحاد کیا۔ سیلاب سے بہت سے لوگ متاثر ہوئے، بلاول بھٹو تمام متاثرہ علاقوں میں گئے اور مجھے دکھ ہوا ہے کیوں کہ بلاول بھٹو تو حکومت پنجاب اور وزیر اعلیٰ کی تعریف کر رہے تھے جب کہ معرکہ حق میں بھی انہوں نے ملک کی نمائندگی کی اور بے نظیر کا بیٹا، بھٹو کا نواسہ ہونے کا حق ادا کیا۔ ہم بھی الجھنا نہیں چاہتے اور نہ ہم وفاق کو کمزور کرنا اور صوبائیت پھیلانا نہیں چاہتے، ہم وفاق کمزور کرنے والے نہیں، پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والے لوگ ہیں، ہم صوبوں اور ملک کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں اور آپ کے علم میں تمام معاملہ ہے۔ کشمیر کا معاملہ ہوا تو میں بھی وفد کا حصہ بن کر گیا، جو غیر ذمہ دارانہ بیانات آ رہے ہیں اس سے صرف پیپلزپارٹی کارکنان نہیں پورے ملک میں پریشانی ہے۔ ایسے میں ہمارے خلاف جو زبان استعمال ہوئی میں دہرا بھی نہیں سکتا، اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ جب تک پنجاب سے کوئی بات نہیں ہوتی اور کوئی ذمہ دار یہاں یقین دہانی نہیں کروائے گا، ہمارا ایوان میں بیٹھنا ممکن نہیں، جب تک ہمیں کوئی مطمئن نہیں کرتا ہم واک آؤٹ کریں گے۔ پنجاب اسمبلی میں ہمارے پارلیمانی لیڈر کی سکیورٹی واپس لے لی گئی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے باتیں کی گئیں، ہمارے چہرے پر خراشیں ڈالی جا رہی ہیں ہم جوابا ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری ایسی سیاسی تربیت نہیں۔ اس دوران اسد قیصر نے پیپلزپارٹی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے فرینڈلی فائر کو خوش آمدید کہتے ہیں، اگر یہ سنجیدہ ہیں تو عدم اعتماد لائیں ہم ساتھ دیں گے۔ بعد ازاں پی ٹی آئی کے ارکان بھی باہر چلے گئے اور کورم کی نشاندہی کی۔  پیپلز پارٹی نے کہا کہ  بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خلاف بیانات جاری رہنے پر کسی قانون سازی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ پیپلز پارٹی نے واک آؤٹ کے ساتھ ساتھ کورم کی بھی نشاندہی کردی کہ کورم پورا نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعد پی ٹی آئی نے بھی کورم کی نشاندہی کر دی جس پر ڈپٹی سپیکر نے گنتی کی ہدایت کر دی، ارکان پورے نہ ہونے پر قومی اسمبلی کورم ٹوٹ گیا۔ ڈپٹی سپیکر نے اجلاس کی کارروائی معطل کر دی۔ اجلاس کچھ دیر بعد دوبارہ شروع ہوا تو ڈپٹی سپیکر نے اراکین کی دوبارہ گنتی کی ہدایت کی تاہم کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کی کارروائی جمعرات 5 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی نے انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی کے کہ پیپلز پارٹی انہوں نے کہا بلاول بھٹو پی ٹی آئی نے کہا کہ سیلاب سے سپیکر نے کے مابین نہیں ہو نہیں کر کورم کی نہیں ہے ہیں اور ہے مگر اور یہ ہے اور رہی ہے

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کا سینیٹ اور قومی اسمبلی میں شدید احتجاج، واک آؤٹ

سٹی 42 : پیپلز پارٹی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے واک آؤٹ کرتے ہوئے ن لیگی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہماری قیادت کے خلاف بیان بازی پر معافی مانگے۔

سینیٹ کا اسمبلی کا اجلاس چیئرمین کی زیر صدارت شروع ہوا۔ ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے شیریں رحمان نے کہا کہ ملک میں سیلاب اور آفت آئی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب کے لاکھوں لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، پی پی پی کی قیادت کی طرف سے کہنا چاہوں گی کہ ہم لوگوں کو تقویت دینے کے بجائے  کمزور کررہے ہیں۔

لاٹری جیت کر کروڑ پتی بننے والا شخص ہسپتال پہنچ گیا

شیریں رحمان نے کہا کہ پنجاب حکومت اور سندھ حکومت میں الفاظ کی جنگ کا اثر وفاقی حکومت پر پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کے بارے میں باتیں کرنا نامناسب ہے، پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کی نمائندگی ہے۔

  بلاول بھٹو نے بس اتنا کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو استعمال کرکے سیلاب متاثرین کی مدد کی جائے۔ مگر لوگوں کی تذلیل کرکے حکومتی اتحاد نہیں چلایا کرتے، معافی مانگ کر کسی کی عزت نفس میں کمی نہیں ہوتی۔ 

لیسکو میں سنگل فیز میٹرز کا بحران؛ صارفین کو مارکیٹ سے میٹرز خریدنے کی اجازت

 شیری رحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کلائمیٹ جسٹس کی بات کی ہے، جنوبی پنجاب سیلاب سے تباہ ہوا ہے، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں مگر جو الفاظ ادا کیے گئے مجھے انہیں دہراتے ہوئے شرم آرہی ہے، اگر ہماری قیادت سے معافی نہیں مانگی گئی تو ہمیں گرانٹڈ نہیں لیا جائے۔ ان الفاظ کے بعد پیپلز پارٹی کے سینیٹر ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے۔

 وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر کسی کے الفاظ سے دل آزاری ہوئی ہے تو بطور سیاسی کارکن مجھے دکھ ہے، صدر زرداری بزرگ سیاست دان ہیں وہ صلح جوئی کا کردار ادا کریں گے، اپوزیشن خوش نہ ہو تو کوشش کریں کے کہ دوستوں کو منا کر واپس لے آئیں۔ قائم مقام چیئرمین سینیٹ نے ہدایت دی کہ سینیٹر خلیل طاہر سندھو، سینیٹر افنان اللہ، سینیٹر انوشہ رحمان جائیں اپوزیشن کو منا کر لے آئیں۔

بھارت نے پہلے جوایڈونچر کیا اس کے بعد پوری دنیا میں ذلت اٹھائی؛ خواجہ آصف

 تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں مقابلہ چل رہا ہے، امداد متاثرین تک تو نہیں پہنچی، شاید ان کی اپنی جیبوں تک پہنچی ہے، مقابلہ چل رہا ہے کس نے کتنی پریس کانفرنسز کیں، کتنی تصویریں بنوائیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اس ملک میں سب سے زیادہ حکمرانی کی، یہ لوگ ڈھٹائی سے مقابلہ کررہے ہیں کہ کس نے قوم کو کم دھوکا دیا اور قوم تکلیف میں تڑپ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے بچے آج بھی کھلے آسمان تلے بھوکے سو رہے ہیں اس کے باوجود دونوں جماعتیں بضد ہیں کہ انہیں ٹرافی دی جائے، میں پی ٹی آئی کی طرف سے انہیں، بے حسی، نااہلی، لالچ کی ٹرافی دیتا ہوں، پنجاب میں 5700 گاؤں آج بھی زیر آب ہیں، ان دیہات میں کسانوں کی فصلیں تباہ ہوگئیں، مویشی مرگئے۔

دارالحکومت میں رواں سال 2025 کے  ڈینگی کیسز کی تفصیلات جاری

انہوں نے کہا کہ  لوگ بے یقینی کا شکار ہیں اور 1 کروڑ 80 لاکھ لوگ بری طرح متاثر ہیں، 22 ہزار مربع کلومیٹر کی زمین متاثر ہوئی ہے، 60فیصد چاول، 30فیصد کپاس کی فصل تباہ ہوچکی ہے، اس نقصان کے باعث 3ارب ڈالرکی درآمدات کرنا پڑے گی، حالات دیکھیں اور یہ لوگ ایوان سے واک آؤٹ کررہے ہیں۔

 سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ کپاس کی کمی کا اثر ٹیکسٹائل اور اس سے ملحقہ صنعتوں کو بھی پڑے گا، حکومت کا ردعمل صرف دکھاوا ہے، جتنی بھی امداد دی جارہی ہے وہ کرپشن کی نذر ہورہی ہے، حکومت اور اتحادی جماعتیں آپس میں کھیل رہی ہیں۔  انہوں نے کہا کہ سیلاب قدرتی ہے لیکن تباہی کے ذمہ دار حکومت اور ان کے اتحادی ہیں، پاسکو ختم کردیا گیا اس کی وجہ سے سیلابی موسم شروع ہونے سے پہلے ہی گندم کے ذخیرے ختم ہوگئے۔ پی ڈی ایم ایز کو فنڈز نہیں دئیے گئے۔

 ان جملوں کے ساتھ ہی ایوان میں پی ٹی آئی اور ن لیگی سینیٹرز کے مابین نوک جھونک شروع ہوگئی۔ پی ٹی آئی سینیٹرز چیئرمین ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے۔ پی ٹی آئی سینیٹرز نے کہا کہ جب تک ہمارے پارلیمانی لیڈر کو بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہم بھی کسی کو نہیں بولنے نہیں دیں گے، آپ کے پارلیمانی لیڈر کو 15 منٹ بولنے دیا گیا۔

 وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بلیک میلنگ نہیں چلنے دیں گے ایک تو آپ غلط بات کریں، غلط اعداد و شمار دیں تو ایسے نہیں چلے گا۔ پی ٹی آئی سینیٹرز نے کہا کہ جب تک ہمارے پارلیمانی لیڈر کو بولنے نہیں دیا جاتا ہم نہیں جائیں گے۔

 ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ جب تک آپ نشستوں پر نہیں بیٹھیں گے میں ان کو بولنے نہیں دوں گا، پی ٹی آئی سینیٹرز کے احتجاج پر علی ظفر کو بولنے کا دوبارہ موقع دے دیا گیا سینیٹر علی ظفر نے دوبارہ بولنا شروع کردیا۔

 سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو سیاست سے پاک کیا جائے، راوی کے کنارے پر روڈا بنایا گیا جس کی اجازت پنجاب حکومت نے دی، ہماری معیشت وینٹی لینٹر پر ہے اور حکومت تصویریں بنانے میں مصروف ہے۔

 ڈپٹی چئیرمین سینیٹ نے کہا کہ تو کیا کرے حکومت، بتائیں ناں! سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ہماری معیشت وینٹی لیٹر پر ہے۔ اس پر قائم مقام چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اس کے لیے کیا شوکت ترین کو دوبارہ لائیں؟

 وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیلاب قدرتی آفت تھی اور قدرتی آفت کے سامنے انسانی تدبیریں نہیں چلتیں، آج دنیا میں ہماری سنی جارہی ہے، آج امریکا ہماری بات سن رہا ہے، آپ کا تو فون بھی کوئی نہیں اٹھاتا تھا، ایمل ولی کی وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی ہے ۔

 وزیراعظم نے انھیں اپنے دوروں سے متعلق سارا بتایا ہے، پی ایم نے سعودی عرب امریکا اور اقوام متحدہ کے دورے کا انھیں بتایا، ایمل ولی نے کہا مجھے ان حقائق کا نہیں علم تھا اگر علم ہوتا تو یہ بات نہ کرتا، ایمل ولی آجائیں ایوان میں تو ان کو موجودگی میں بات کریں گے تو مناسب ہوگا۔

 سینیٹر عمر فاروق نے کہا کہ وزیر مملکت نے جس زبان میں بات کی وہ ایک وزیر کو زیب نہیں دیتی، ایمل ولی خان کو جو لاج ایلوکیٹ کیا گیا وہ سب کو پتا ہے، شہباز شریف صاحب سے پوچھیں انہوں نے ایمل ولی خان کو کس طرح لاج میں رہنے کی اجازت دی ہے۔ 

 سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ بلوچستان کے ڈسٹرکٹ خاران میں قاضی کی عدالت کو آگ لگائی گئی ہے، پریزائیڈنگ افسر کو ان کی گاڑی سمیت اٹھایا گیا ہے یہ ریاست کا ایک ستون ہے اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہورہا ہے۔

 اس دوران سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کورم کی نشاندہی کردی۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور سینٹر سیف اللہ ابڑو میں شدید تلخ کلامی ہوئی اور دونوں جانب سے سخت جملوں کا تبادلہ کیا گیا۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آپ جب سے ایوان میں آئے ہیں یہی کررہے ہیں، آپ بیٹھ جائیں اس پر سیف اللہ ابڑو بھڑک گئے اور کہا کہ آپ انگلی نیچے کرکے بات کریں۔ پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے دوبارہ کورم کی نشاندہی اس دوران پی ٹی آئی ارکان بھی ایوان سے واک آوٹ کرگئے۔

 ڈپٹی چئیرمین سینیٹ نے کہا کہ سینیٹر خلیل طاہر سندھو اور سینٹر بشری انجم بٹ پی ٹی آئی والوں کو مناکر لائیں۔ ایوان میں پانچ منٹ کیلئے گھنٹیاں بجائی جاتی رہی بعدازاں اجلاس جمعرات 9 اکتوبر شام پانچ بجے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں شروع ہوا۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت چاہی۔

 اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پی پی پی کو نکتہ اعتراض پر بولنے کی اجازت دینے سے گریز کی کوشش کی اور کہا کہ پہلے سے طے ہوچکا ہے کہ وقفہ سوالات میں نکتہ اعتراض پر بات نہیں ہوگی، تاہم اپوزیشن اور حکومت کے مطالبے پر اسپیکر نے راجہ پرویز اشرف کو بولنے کی اجازت دے دی۔

 راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ہم پاکستان کو کمزور کرنے والے نہیں، ہم پاکستان کپھے کا نعرہ لگانے والے لوگ ہیں ہم صوبائی تعصب کی بات نہیں کرتے ، بلاول بھٹو زرداری نے کوئی بات پنجاب حکومت کے خلاف نہیں کی حکومتی جماعت سے غیر ذمہ دارانہ بیانات آرہے ہیں ہم مثبت بات کرتے ہیں۔

 بعدازاں پیپلز پارٹی نے اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور ارکان واک آؤٹ کرگئے۔ پیپلز پارٹی نے واک آؤٹ کے ساتھ ساتھ کورم کی بھی نشاندہی کردی کہ کورم پورا نہیں ہے۔ پی ٹی آئی رکن اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ پیپلز پارٹی فرینڈلی فائر نہ کرے جرأت کرے آئے ہمارے ساتھ مل کر تحریک عدم اعتماد پیش کرے، نورا کشتی نہ کریں آئیں تحریک عدم اعتماد پیش کریں۔

 پیپلز پارٹی کے بعد پی ٹی آئی نے بھی کورم کی نشاندہی کر دی جس پر ڈپٹی اسپیکر نے گنتی کی ہدایت کر دی، ارکان پورے نہ ہونے پر قومی اسمبلی کورم ٹوٹ گیا ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کی کاروائی معطل کردی۔

 اجلاس کچھ دیر بعد دوبارہ شروع ہوا تو ڈپٹی اسپیکر نے اراکین کی دوبارہ گنتی کی ہدایت کی تاہم کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کی کاروائی جمعرات 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • محمود اچکزئی قومی اسمبلی، علامہ ناصر عباس سینٹ میں اپوزیشن لیڈر مقرر
  • ن لیگ اور پی پی میں تناﺅ، تحریک انصاف کی پیپلز پارٹی کو بڑی پیشکش
  • پی ٹی آئی کے 15 سے 18 اراکین قومی اسمبلی ہمارے ساتھ ہیں، حذیفہ رحمان کا دعویٰ
  • پیپلز پارٹی کا سینیٹ اور قومی اسمبلی میں شدید احتجاج، واک آؤٹ
  • پیپلز پارٹی کا سینیٹ اور قومی اسمبلی سے واک آؤٹ، ن لیگ سے معافی کا مطالبہ
  • سیاسی بیان بازی : پیپلز پارٹی کا سینیٹ اور قومی اسمبلی سے واک آؤٹ، ن لیگی قیادت سے معافی کا مطالبہ
  • سیاسی بیان بازی: ن لیگ اور پی پی وفود کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم
  • مریم نواز کے بیانات پر پیپلز پارٹی کا سینیٹ سے واک آؤٹ، پھر معافی مانگنے کا مطالبہ
  • سیاسی بیان بازی : پیپلز پارٹی کا سینیٹ سے واک آ ئوٹ ، لیگی قیادت سے معافی کا مطالبہ