26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست پر نمبر لگانے کی ہدایت،لائیو سٹریمنگ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان ان لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست پر نمبر لگانے کی ہدایت کر دی جبکہ لائیو سٹریمنگ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی،مصطفیٰ نواز کھوکھر کے وکیل شاہد جمیل کے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ فل کورٹ کی تشکیل کے حوالے سے ہماری درخواست پر اعتراضات لگے،اعتراضات کیخلاف چیمبر اپیل دائر کی ہے،استدعا ہے پہلے چیمبر اپیل پر فیصلہ کیا جائے۔
عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈ نیب کیس میں سزا سنانے والے جج کی تعیناتی چیلنج
آئینی بنچ نے مشاورت کے بعد درخواست پر نمبر لگانے کی ہدایت کردی۔
خواجہ حسین احمد نے کہاکہ ہماری بھی لائیو سٹریمنگ کی درخواست ہے،جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ دونوں درخواستوں پر نوٹسز جاری کر چکے ہیں،ہم نے ترتیب رکھی ہے بنچ پر اعتراض لگتا ہے تو دوسرا بنچ ان کو سنے گا،اگر اعتراض نہیں ہوتا تو لائیو سٹریمنگ کی درخواست کو یہی بنچ سنے گا،عدالت نے لائیو سٹریمنگ کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: لائیو سٹریمنگ درخواستوں پر درخواست پر پر فیصلہ
پڑھیں:
ایجنسیوں کا ججز تقرر یا تبادلے میں آئینی کردار نہیں، جسٹس شکیل
اسلام آباد:سپریم کورٹ کے جسٹس شکیل احمد نے ججز ٹرانسفر کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں کے ساتھ اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ججوں کی تقرری یا تبادلے سے متعلق معاملات میں کوئی آئینی کردار نہیں ہے۔
23 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں انہوں نے کہا کہ پانچ درخواست گزار ججوں کے وکیل کا دعویٰ متاثر کن نہیں کہ ججز کے تبادلے پانچ موجودہ ججوں کی طرف سے دی گئی تحریری شکایت کی وجہ سے ہوئے جو انھوں نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان کو، بطور چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل دیئے تھے اور جن میں عدالتی امور میں مداخلت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مبینہ دھمکیوں کا ذکر تھا۔
سپریم کورٹ آئینی بنچ نے 3 کے مقابلے 2 کی اکثریت سے مختلف ہائی کورٹس سے تین ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کی توثیق کی ہے۔
جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں جج کا مستقل تبادلہ دوسری عدالت کے ججز کی سنیارٹی کو متاثر کرتا ہے، یہ نہ صرف اس کورٹ کے ججوں کے لیے ذاتی نقصان کا باعث بنتا ہے بلکہ عدالتی آزادی کے لیے بھی خطرہ ہے۔
اختلافی نوٹ کے مطابق وزارت قانون کی سمری میں ججز کی سنیارٹی اور ٹرانسفر ہونے والے ججوں کے نئے حلف سمیت متعدد مضمرات کو نظرانداز کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان، متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز اور ٹرانسفر ہونے والے ججوں کے سامنے مکمل اور درست معلومات پیش نہیں کی گئیں۔
یہ اقدامٔ بدنیتی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ممکنہ طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین ججوں کو غیراہم، اس کے ادارتی ڈھانچے کو متاثر کرنے یا اس کے چیف جسٹس کی تقرری کے عمل پر اثرانداز ہونے کیلئے کیا گیا۔
اس تبادلے کا براہ راست اثر سنیارٹی لسٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی ایڈمنسٹریٹو کمیٹی کی تشکیل پر پڑا، جو عدالتی سالمیت کو برقرار رکھنے میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس طرح کی معلومات کو جان بوجھ کر روکنا انصاف کے اصول کی خلاف ورزی، شفافیت اور عدالتی آزادی کے اصولوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔