غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کا آغاز!
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے کمشنر نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور قتلِ عام کا رکنا ایک اچھا موقع ہے۔اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے کمشنر وولکر ترک نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اقدام غزہ میں خون خرابہ روکنے کے اعتبار سے بہت اچھا ہے۔ وولکر ترک نے امید کا اظہار کیا ہے کہ امن معاہدہ اپنا تسلسل برقرار رکھے گا اور اس موقع پر ایک دوسرے سے دشمنی کی سوچ کا مستقل خاتمہ ہوگا۔انہوں نے معاملے سے جڑے با اثر فریقوں پر زور دیا کہ وہ نیک نیتی سے آگے بڑھیں اور غزہ کی پٹی میں بنیادی امداد فراہم کرنے اور اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیل میں قید فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے اقدامات کریں۔فلسطینی تنظیم حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کو بڑی حد تک تسلیم کرلیا ہے تاہم بعض نکات پر تحفظات رکھتے ہوئے برطانوی سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کا کردار مسترد کر دیا ہے۔
حماس کے رکن نے عرب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل مسلسل بمباری اور تباہی سے ٹرمپ کے امن منصوبے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ امن منصوبے پر مذاکرات تیز رفتار اور جامع ہوں گے جسے جلد از جلد مکمل کرنا ہمارے مفاد میں ہے۔ اسرائیل بخوبی جانتا ہے کہ ہمارے پاس کتنے یرغمالی اور لاشیں موجود ہیں جبکہ امن منصوبے کے ثالثوں کو یرغمالیوں اور لاشوں کی فہرست اسرائیل کے لیے فراہم کر دی ہے۔ حماس قیادت کا غزہ سے انخلا ان کے اپنے فیصلے پر منحصر ہوگا، غیر مسلح ہونے پر اتفاق کی باضابطہ اطلاع واشنگٹن کو دے دی ہے۔حماس رکن کا مزید کہنا تھا کہ اسلحہ بین الاقوامی نگرانی میں منتقل کیا جائے گا۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے غزہ میں امن کیلئے حماس کے ردعمل کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاہے کہ حماس کا ردعمل جنگ بندی کا موقع ہے، اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے، الحمدللہ، ہم جنگ بندی کے قریب ہیں، شہباز شریف نے پیغام میں لکھا کہ حماس کے جاری کردہ بیان نے جنگ بندی اور امن کے قیام کیلئے ایک موقع فراہم کیا ہے، جسے ہمیں کسی صورت ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان شا اللہ، پاکستان اپنے تمام شراکت داروں اور برادر ممالک کے ساتھ مل کر فلسطین میں دائمی امن کیلئے کوششیں جاری رکھے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی خبردار کیا ہے کہ حماس فوری فیصلہ کرے بصورت دیگر تمام شرائط ختم کر دی جائیں گی۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے اعلان اور حماس کی مشروط آمادگی کے باوجود اسرائیل کی غزہ پر بمباری اور فائرنگ بدستور جاری ہے، جس کے نتیجے میں صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 66 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ المواسی، نصیرات اور تُّفّاح میں خواتین و بچے نشانہ، سیکڑوں زخمی، خوراک ادویات ناپید، اسپتال تباہ، بے گھر فلسطینی ملبے پر خیمے گاڑنے پر مجبور، امیدیں روشن، مگر اسرائیلی بمباری جاری ہے، اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے میں شرکت کیلئے قاہرہ میں بساط بچھائی جاچکی ہے اور مذاکرات میں شرکت کیلئے بیشتر وفود قاہرہ پہنچ چکے ہیں جہاں پہلے مرحلے میں تکنیکی نوعیت کے مذاکرات ہوں گے۔
الجزیرہ کے مطابق ایک باخبر سفارتی ذریعے نے بتایا کہ مذاکرات کے لیے حماس کا وفدبھی پہنچ چکاہے، ایک قطری وفد بھی امن منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے شریک ہوگا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی 20 نکاتی جنگ بندی تجویز کے مطابق پہلے مرحلے میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے بدلے تقریباً 2 ہزار فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی تصدیق کی ہے کہ ایک اسرائیلی وفد بھی قاہرہ پہنچ چکاہے قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی اور عملدرآمد کی ٹائم لائن طے کی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے، جو یا تو امن منصوبے کے ذریعے یا فوجی کارروائی سے مکمل کیا جائے گا۔قبل ازیں، امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ حماس نے ان کے امن منصوبے پر زیادہ تر مثبت ردعمل دیا ہے اور امن کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ٹرمپ نے اسرائیل سے غزہ پر بمباری فوری بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ ان کے مطابق، یہ منصوبہ غزہ میں جنگ کے خاتمے، قیدیوں کی رہائی، اور علاقے میں ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کی سمت ایک اہم قدم ہے۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ حماس کے پاس اس معاہدے کو قبول کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اگر حماس نے جنگ بندی معاہدے کو قبول نہ کیا تو غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مزید تیز کر دی جائیں گی۔حماس کو غیر مسلح کیا جانا ناگزیر ہے چاہے یہ عمل سفارتی راستے سے ہو یا پھر فوجی طاقت کے ذریعے اور اس بارے میں امریکہ کو بھی واضح پیغام دیا جا چکا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کو جنگ بندی معاہدہ قبول کرنیکے لئے ڈیڈ لائن دی تھی اور دھمکی دی تھی ا کہ حماس کے پاس معاہدے کا یہ آخری وقت ہے۔انہوں نے حماس کو براہ راست دھمکی دی کہ اس نے معاہدے پر دستخط نہ کئے تو اسے سخت نتائج بھگتنا پڑیں گے جبکہ معاہدہ کرنے سے حماس کے جنگجوؤں کی جان بھی بچ جائے گی ورنہ سب مارے جائیں گے۔ ٹرمپ کے بقول حماس امن منصوبے پر رضا مند نہ ہوئی تو اسے جہنم کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس کئی برسوں سے ایک بے رحم اور پر تشدد خطرہ بن چکی ہے۔ اس کے 25 ہزار جنگجو مارے جا چکے ہیں۔ باقی گھیرے میں ہیں اور عسکری طور پر پھنسے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول بہت ساری افواج میرے اجازت نامے کی منتظر ہیں کہ وہ جائیں اور حماس کے جنگجوؤں کو ختم کریں، ہم جانتے ہیں کہ وہ کون اور کہاں پر ہیں۔ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو بھی خبردار کیا کہ وہ غزہ شہر کو خالی کر کے محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں۔ انہوں نے حماس سے تمام یرغمالیوں کو فوری رہا کرنے اور مردہ افراد کی لاشیں حوالے کرنے کا تقاضہ کیا اور کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں ہر حال میں امن قائم کیا جائے گا۔ ٹرمپ کے بقول غزہ میں مکمل امن قائم کرنا ایک حیرت انگیز کامیابی ہو گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے ایک اشارے پر حماس کے ارکان کی زندگیاں ختم کر دی جائیں گی۔ دوسری جانب حماس نے غیر مسلح ہونے سے انکار کرتے ہوئے اس امر کا تقاضہ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کو غزہ سے نکالا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلا قبول نہیں۔
اس میں تو کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ غزہ میں گذشتہ دو سال سے زائد عرصہ سے جاری اسرائیلی بربریت میں امریکی ہاتھ ہی کارفرما ہے اور واشنگٹن انتظامیہ نے اس کے لئے ہر طرح کی سہولت کاری کی ہے۔ امریکہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی ہر قرار داد کو ویٹو کرتا رہا ہے اور اسرائیل کا ایران پر حملہ بھی درحقیقت امریکی ایما پر ہی ہوا جس کا امریکی صدر ٹرمپ نے اعتراف بھی کیا اور پھر انہوں نے اسرائیل ایران کے مابین جنگ بندی کا کریڈٹ بھی لیا۔ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کا منصوبہ بھی دراصل امریکہ ہی کا منصوبہ ہے اور اس کے لئے ٹرمپ کا دھمکی آمیز لہجہ آج بھی برقرار ہے۔ اس تناظر میں امریکہ سے بھلا کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ حماس کی غزہ میں موجودگی کے ساتھ کوئی امن فارمولہ وضح کر سکتا ہے۔ ٹرمپ نے درحقیقت مسلم دنیا کے اتحاد کی فضا مستحکم ہوتی دیکھ کر مسلم قیادتوں کو ٹریپ میں لانے کی کوشش کی اور آٹھ مسلم ممالک کے امن منصوبے کے تیار کردہ ڈرافٹ کو نیتن یاہو کے تیار کردہ ڈرافٹ میں تبدیل کرکے یہ تاثر دیتے ہوئے اس کے فائینل ہونے کا اعلان کر دیا کہ اس معاہدے پر پاکستان، سعودی عرب اور قطر سمیت تمام ممالک متفق ہیں۔ اور پاکستان کے زیرک رہنماؤں نے اس کی تائید کرنے سے پہلے اسے پڑھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی ، دوسرے ممالک کی جانب سے بھی یہ سمجھ کر اس کی تائید کی گئی کہ یہ وہی ڈرافٹ ہے جو 8 مسلم ممالک نے تیار کرکے صدر ٹرمپ کو پیش کیا تھا۔ اب جب پاکستان، قطر، سعودی عرب اور حماس کی قیادتوں کی جانب سے ٹرمپ کے پیش کردہ امن منصوبے پر تحفظات کا اظہار سامنے آیا ہے تو وہ حماس اور فلسطینیوں کو الٹی میٹم دینے پر اتر آئے ہیں جس سے اس بات کا واضح عندیہ ملتا ہے کہ ٹرمپ غزہ کا اپنی اور نیتن یاہو کی مرضی کا ہی حل چاہتے ہیں اور اپنی طاقت کے زعم میں غزہ ہی نہیں دوسرے مسلم ممالک کو بھی تہس نہس کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔حماس کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کو مشروط طور پر قبول کرنے کے بعد جس میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کی انتظامیہ کو ایک تکنیکی فلسطینی ادارے کے حوالے کرنا شامل ہے اور اسرائیل کی جانب سے اس کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کی آمادگی سے ایک معمولی سی امید کی کرن پیدا ہوتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ ایک ایسی آبادی کے لیے جو بڑے پیمانے پر بے گھر ہونے، تباہ شدہ انفراسٹرکچر، اور 66,000 سے زائد جانوں کے ضیاع کے درمیان جی رہی ہے، تشدد میں وقفہ بھی معنی رکھتا ہے۔ لیکن تاریخ یہ سکھاتی ہے کہ اس طرح کے جنگ بندی کے معاہدے اکثر اسرائیلی ہٹ دھرمی کے باعث ٹوٹ جاتے ہیں۔ اسرائیل بدنام ہے کہ وہ بین الاقوامی توجہ ہٹتے ہی اپنے وعدوں سے مکر جاتا ہے۔ اس بار ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جنگ بندی کے ضامن ، واشنگٹن، عرب دارالحکومت، اور اقوامِ متحدہ کو یقینی بنانا ہوگا کہ کیے گئے وعدے خاموشی سے ترک نہ کر دیے جائیں، اور اگر خلاف ورزی ہو تو اس کے نتائج سامنے آئیں۔ اگر مستقل دباؤ برقرار نہ رہا تو تل ابیب کے پاس قیدیوں کے تبادلے کے علاوہ معاہدے پر عمل کرنے کی کوئی ترغیب نہیں ہوگی۔اس ضمن میں تمام مسلم ممالک کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ کسی بھی سہولت کے لیے انصاف کی قربانی نہیں دی جا سکتی اگر غزہ کے ہزاروں بچوں،خواتین ،بوڑھوں اور جوانوں کے قتل ِ عام پر اسرائیل کی کوئی جوابدہی نہیں کی جاتی تواس طرح قائم ہونے والا امن ریت پر قائم ہوگا، اور بے سزائی دوبارہ تباہی کی راہ ہموار کرے گی۔ اسی طرح غزہ کا مستقبل بھی مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ محاصرہ جو تقریباً 2 دہائیوں سے اس پٹی کا گلا گھونٹ رہا ہے، ہمیشہ کے لیے ختم ہونا چاہیے۔ امدادی قافلے فلسطینیوں کے آزادانہ نقل و حرکت، گھروں کی تعمیرِ نو، اور معیشت کی بحالی کے حق کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ نقل و حرکت کی آزادی کے بغیر، غزہ ایک کھلے آسمان کے نیچے قید خانہ ہی رہے گا۔یہ بات واضح ہے کہ کوئی ‘‘تکنیکی کمیٹی’’ یا عبوری بورڈ اصل مسئلے کا حل نہیں دے سکتا۔ صرف دو ریاستی حل جسے اسرائیلی آبادکاری کے پھیلاؤ نے طویل عرصے سے سبوتاژ کیا ہے ہی عزت اور تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن اسرائیلی قیادت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرے گی اور اس نے سیکورٹی کنٹرول برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، جبکہ فلسطینیوں کو خودمختاری سے محروم رکھا جائے گا۔جبکہ یہ بات واضح ہے کہ جب تک فلسطینیوں کو ایک قابلِ عمل ریاست بنانے کے وسائل نہیں دیے جاتے، تشدد کا سلسلہ رک نہیں سکے گا۔ یہ نازک وقفہ شاید ایک موقع فراہم کرے، لیکن اگر اسے جوابدہی، آزادی، اور خودارادیت کی بنیاد پر استوار نہ کیا گیا تو یہ صرف ایک اور تباہ کن دور سے پہلے کا وقفہ ثابت ہوگا اس صورت حال میں مسلم قیادتوں کو بہر صورت مسلم دنیا کے اتحاد کا لائحہ عمل ہی طے کرنا ہوگا جس کے لئے پاک سعودی مشترکہ دفاعی معاہدہ نے ٹھوس اور مضبوط بنیاد فراہم کر دی ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ الحادی طاغوتی قوتیں مسلم دنیا کا اتحاد توڑنے کے ہی درپے ہیں جبکہ مسلم امہ کا اتحاد ہی اس کی بقا کی ضمانت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کے امن منصوبے امن منصوبے کے فلسطینیوں کو اور اسرائیل جنگ بندی کے مسلم ممالک پہلے مرحلے کی جانب سے قیدیوں کی نیتن یاہو کے مطابق فراہم کر کی رہائی انہوں نے نہیں ہو جائے گا حماس کی حماس کے کہ حماس حماس کو کیا ہے اور اس کے لئے نے کہا ہے اور کے لیے کہا کہ تھا کہ کہ غزہ
پڑھیں:
مصر کے شہر شرم الشیخ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز
مصر کے شہر شرم الشیخ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز WhatsAppFacebookTwitter 0 6 October, 2025 سب نیوز
قاہرہ(آئی پی ایس )مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں غزہ میں تقریبا دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے کیلئے حماس اور اسرائیل کے وفود کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوگیا۔المونیٹر نے مصری ذرائع ابلاغ کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ریاستی انٹیلی جنس سے منسلک القاہرہ نیوز کے مطابق وفود زیرِ حراست افراد اور قیدیوں کی رہائی کے لیے زمینی حالات کی تیاری پر بات چیت کر رہے ہیں، جو کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی کی تجویز کے مطابق ہے۔
رپورٹ کے مطابق مصری اور قطری ثالث دونوں فریقوں کے ساتھ مل کر ایک طریقہ کار قائم کرنے پر کام کر رہے ہیں تاکہ غزہ میں زیرِ حراست یرغمالیوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ کیا جا سکے۔انتہائی سخت سیکیورٹی میں بند کمروں کے اندر مذاکرات ہو رہے ہیں، جہاں ثالث دونوں فریقوں کے درمیان پیغامات پہنچا رہے ہیں، یہ مذاکرات قطر میں اسرائیل کی جانب سے حماس کے اہم مذاکرات کاروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کے صرف چند ہفتے بعد ہو رہے ہیں۔
حماس کے وفد کی قیادت سینئر مذاکرات کار خلیل الحیہ کر رہے ہیں، جو دوحہ میں ہونے والے اس حملے سے بچ گئے تھے، ایک مصری سیکیورٹی ذریعے کے مطابق مذاکرات سے قبل حماس کے وفد نے مصری انٹیلی جنس حکام سے ملاقات کی۔ایک فلسطینی ذریعے نے بتایا کہ یہ مذاکرات کئی دن جاری رہ سکتے ہیں، مزید کہنا تھا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ مذاکرات مشکل اور پیچیدہ ہوں گے، کیونکہ قابض قوت کی نیت اپنی جارحیت جاری رکھنے کی ہے۔
ٹرمپ نے مذاکرات کاروں پر زور دیا ہے کہ وہ تیزی سے آگے بڑھیں تاکہ غزہ کی جنگ ختم کی جا سکے، جہاں آج بھی اسرائیلی حملے جاری رہے، جبکہ امریکی صدر کے ایلچی اسٹیو وٹکوف اور داماد جیرڈ کشنر کے مصر پہنچنے کی توقع ہے۔غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بصل کے مطابق تازہ ترین اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 7 فلسطینی شہید ہوئے۔اے ایف پی کی ویڈیوز میں غزہ کی پٹی میں دھماکوں اور بلند ہوتے ہوئے دھوئیں کے بادلوں کے مناظر دکھائے گئے، حالانکہ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا تھا کہ اسرائیل کو بمباری روکنی چاہیے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربگرام ائیر بیس کسی صورت امریکا کے حوالے نہیں کریں گے: ذبیح اللہ مجاہد بگرام ائیر بیس کسی صورت امریکا کے حوالے نہیں کریں گے: ذبیح اللہ مجاہد چین کے 6 جنریشن اسٹیلتھ لڑاکا طیارے کی نئی تصاویر میں کیا خاص ہے؟ سعودی حکومت کی آئندہ خطبہ جمعہ لالچ اور گھروں کیکرایوں میں اضافے کے خطرات پر دینے کی ہدایت عمران خان کیخلاف 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس کا جیل ٹرائل بحال کر دیا گیا ایران افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ فریم ورک میں ترامیم کی تفصیلات سینیٹ قائمہ کمیٹی میں پیش اسرا ئیل کو تسلیم نہیں کرینگے،ایسی باتیں بے بنیاد ہیں، اختیار ولی خانCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم