غزہ امن منصوبے پر عملدرآمد کیلئے حماس، اسرائیل اور امریکا کے درمیان مذاکرات
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
قاہرہ(نیوز ڈیسک) فلسطینی تنظیم حماس، اسرائیل اور امریکا کے وفود غزہ منصوبے پر عملدرآمد کے لیے مصر میں مذاکرات کے لیے آج جمع ہو رہے ہیں، تینوں فریقین کے نمائندے شرم الشیخ میں بات کریں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کاروں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ پٹی میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ ختم کرنے کے لیے جلدی کریں۔
حماس اور اسرائیل دونوں نے لڑائی ختم کرنے اور غزہ میں قیدیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی سے متعلق ٹرمپ کے روڈ میپ پر مثبت ردِعمل دیا ہے، اگرچہ تفصیلات طے ہونا باقی ہیں۔
ایک سینئر حماس عہدے دار نے بتایا کہ تنظیم جنگ ختم کرنے کے معاہدے تک پہنچنے اور زمینی حالات کے مطابق قیدیوں کے فوری تبادلے کے عمل کے آغاز کے لیے بہت پرعزم ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ انہیں امید ہے قیدیوں کی رہائی چند دنوں میں ممکن ہو جائے گی۔
ٹروتھ سوشل پر پوسٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے حوالے سے حماس اور دیگر فریقوں کے ساتھ بہت مثبت بات چیت ہوئی ہے، مذاکرات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور مزید بتایا کہ پہلا مرحلہ اسی ہفتے مکمل ہو جانا چاہئے اور میں سب سے کہہ رہا ہوں کہ تیزی دکھائیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ہماری کچھ بہت اچھی ملاقاتیں ہوئی ہیں، دنیا کے ممالک، اسرائیل کے ارد گرد بہت سے ممالک واضح طور پر مسلم، عرب اور بہت سے دوسرے حماس کے ساتھ بہت اچھی ملاقاتیں کر چکے ہیں اور لگتا ہے کہ یہ طریقہ کام کر رہا ہے۔
ٹرمپ نے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مدد کے لیے دو نمائندے بھیجے ہیں جن میں ان کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر شامل ہیں۔
حماس نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ اس کے مرکزی مذاکرات کار خلیل الحیہ اتوار کی شب وفد کی قیادت میں مصر پہنچے، نیتن یاہو کے مطابق اسرائیلی وفد آج مصر روانہ ہو گا۔
امریکہ، مصر اور قطر کی مہینوں کی ثالثی کی ناکام کوششوں کے بعد متعدد ممالک کے وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ بیان میں تازہ سفارتی پیش رفت پر امید ظاہر کرتے ہوئے مذاکرات کو ایک ’حقیقی موقع‘ قرار دیا ہے تاکہ پائیدار جنگ بندی ممکن ہو سکے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے مذاکرات سے قبل اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ پر بمباری روک دے، آپ فضائی حملوں کے دوران یرغمالیوں کو رہا نہیں کرا سکتے۔
ایک فلسطینی ذریعے جو حماس کے قریب ہے، کے مطابق عسکریت پسند اپنی عسکری کارروائیاں روکنے کے لیے تیار ہیں جب اسرائیل اپنی کارروائیاں روک دے گا۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ جب قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہو جائے گا تو ہم اگلے مرحلے یعنی اسرائیلی فوج کے انخلا کے لیے حالات پیدا کریں گے، امریکی منصوبے کے تحت نہ صرف لڑائی روکنے کی بات گئی ہے، اس میں 72 گھنٹے کے اندر زندہ قیدیوں اور مردہ قیدیوں کی لاشوں کی حوالگی شامل ہے۔
فلسطینی حریت پسندوں نے اپنے سات اکتوبر کے حملے میں 251 اسرائیلیوں کا قیدی بنایا جن میں سے 47 اب بھی غزہ میں ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان میں سے 25 جان سے جا چکے ہیں۔
قیدیوں کے بدلے اسرائیل سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ عمر قید پانے والے 250 فلسطینی قیدیوں اور جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے غزہ کے 1700 سے زیادہ قیدیوں کو رہا کرے گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کی رہائی نے کہا کے لیے
پڑھیں:
ہم قیدیوں کی رہائی کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کی تیاری کر رہے ہیں، اسرائیل
اسرائیلی ریڈیو نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حکومت کی سیاسی سطحوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ میں کارروائیاں بند کر دیں اور اپنی سرگرمیوں کو "کم سے کم" کر دیں اور صرف پٹی میں دفاعی کارروائیاں کریں۔ اسلام ٹائمز۔ صیہونی وزیراعظم کے دفتر نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کروانے کے لئے ٹرمپ کے منصوبے کے پہلے مرحلے پر "فوری طور پر عمل درآمد" کی تیاری کر رہا ہے۔بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیاہے کہ ہم ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے "اسرائیل کے طے کردہ اصولوں کی بنیاد پر" مکمل تعاون کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔ اسرائیلی ریڈیو نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حکومت کی سیاسی سطحوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ میں کارروائیاں بند کر دیں اور اپنی سرگرمیوں کو "کم سے کم" کر دیں اور صرف پٹی میں دفاعی کارروائیاں کریں۔
ایک اسرائیلی اہلکار کے حوالے سے مغربی ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو غزہ میں جنگ روکنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر حماس کے ردعمل سے حیران ہیں۔اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ نیتن یاہو نے ٹرمپ کے منصوبے کا اعلان کرنے سے قبل مشاورت کے دوران حماس کے ردعمل کو منفی طور پر متوقع تصورکیا تھا۔اسرائیلی اہلکار کے مطابق نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ اس تاثر سے بچنے کے لیے امریکیوں کے ساتھ ہم آہنگی کی جانی چاہیے کہ حماس نے اس منصوبے پر مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔