ہم اعلان کر چکے ہیں کہ ٹرمپ کی تجویز کو قبول کر لیا ہے اور اس میں بہت سی تفصیلات ہیں جن پر بات کرنا ہے، لیکن ان میں سے بہت سے نکات موجودہ مراحلے سے تعلق نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر ہم عام اصطلاحات میں سیاسی مسائل کی حتمی اور تزویراتی تفہیم بیان کر رہے ہیں۔ ہم نے عمومیات کو قبول کیا اور خوش آمدید کہا۔ عرب اور اسلامی ممالک نے ان کا استقبال کیا اور مزاحمتی محور نے بھی ان کا استقبال کیا۔ اب ہمیں تفصیلات میں داخل ہونا چاہیے۔ ان تفصیلات میں، وقت، مقدار اور معیار کا مسئلہ مستقبل کے مذاکرات کے فریم ورک میں ہو گا۔ ہم کل سے ان مذاکرات میں سنجیدگی سے داخل ہونے اور کسی ایسے نتیجے پر پہنچنے کے لیے تیار ہیں جو جنگ کے خاتمے اور ہمارے بچوں کی زندگیوں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہو۔ اسلام ٹائمز۔ تسنیم نیوز ایجنسی نے تہران میں حماس کے نمائندے خالد قدومی سے غزہ میں حالیہ جنگ بندی معاہدے کے بارے میں انٹرویو کیا ہے جس میں انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی منصوبے کے خدوخال اور حماس کی جانب سے اسے قبول کرنے کی نوعیت کے بارے میں وضاحت پیش کی ہے۔ اسلام ٹائمز اردو کے قارئین کے لیے اس انٹرویو کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:

سوال: حماس کی جانب سے ٹرمپ منصوبے کو قبول کیے جانے کی نوعیت کیا ہے؟ کچھ اسے ڈھکے چھپے انداز میں مسترد کرنا جبکہ کچھ اور اسے حماس کی پسپائی قرار دے رہے ہیں، ان میں سے کس کی بات صحیح ہے؟
خالد قدومی: جو چیز ہمارے مدنظر ہے وہ قومی مفادات غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے آج تک جاری رہنے والی نسل کشی، خونریزی اور قتل و غارت ہے۔ اگرچہ ہم نے ٹرمپ کی پیشکش قبول کی ہے اور اسے عملی شکل دینے کی جانب گامزن ہیں لیکن صیہونی رژیم نے کل رات سے اب تک دھماکہ خیز مواد کے حامل روبوٹس کے ذریعے جارحانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح یہودی آبادکاروں کی جانب سے بھی فلسطینیوں کے گھروں پر حملے جاری ہیں۔ لہذا ہمارا ردعمل ایک قومی اور ذمہ دارانہ ردعمل ہے جو تمام فلسطینی گروہوں کے موقف کا ترجمان بھی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر اس کا پرتپاک خیرمقدم کیا گیا ہے۔ لہذا موجودہ حالات میں یہ کہنا کہ حماس نے پسپائی اختیار کی ہے انتہائی نامعقول اور حقیقت سے عاری بات ہے۔ آج حماس نے اپنے بیانیے میں اصولی موقف اختیار کیا اور اپنی ریڈلائنز بھی واضح کر دی ہیں۔ حماس نے فلسطینی تشخص کی حفاظت، غزہ سے صیہونی فوج کے مکمل انخلا، مکمل جنگ بندی، سرحدی راہداریوں کے کھلنے، انسانی امداد کی غزہ منتقلی، غزہ کی تعمیر نو اور سیاسی راہ حل کی جانب حرکت پر زور دیا ہے۔ حماس کا یہ جواب نیا نہیں ہے بلکہ ہم نے وائٹ ہاوس یا مجرمانہ اقدامات انجام دینے والی قوتوں کے ہر بہانے کا خاتمہ کیا ہے۔ اعدادوشمار 66 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی شہادت ظاہر کرتے ہیں جبکہ غزہ میں بچے اور خواتین شدید ترین بحرانی حالات سے روبرو ہیں۔ حماس بارہا اپنا مثبت موقف بیان کر چکا ہے لیکن عالمی برادری کو جگانے کے لیے شاید اس حد تک قربانیاں دینا ضروری تھا۔
 
سوال: کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس ردعمل نے حماس کو "مکمل مزاحمت" کی پوزیشن سے "سیاسی بحران کے انتظام" کی پوزیشن پر پہنچا دیا ہے۔ کیا آپ اس تشخیص سے اتفاق کرتے ہیں؟
خالد قدومی: حماس کے اندر مزاحمت کا مسئلہ ہمارے لیے ایک مکمل اور جامع تصور ہے۔ اس مزاحمت کا بنیادی ستون فوجی مزاحمت ہے۔ سیاسی مزاحمت، سفارت کاری اور غزہ کی موجودہ بحرانی صورت حال کا انتظام جو صیہونی رژیم کے بے شمار جرائم کی وجہ سے آج تک جاری ہے، بھی اسی تصور میں آتے ہیں۔ یہ تصور ہماری مزاحمت کے افسانوں کا حصہ ہے اور کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اب سیاسی نظم و نسق کی بحث میں جس کا آپ نے ذکر کیا، کیا ہم موجودہ فلسطینی حکومت کا حصہ نہیں ہیں؟ ہمارے وزیراعظم وہی شہید اسماعیل ہنیہ تھے۔ ہم کابینہ کے ارکان اور فلسطینی مشاورتی اسمبلی کے ارکان ہیں۔ صیہونی رژیم کے خلاف سنجیدہ اور موثر مزاحمت کا مسئلہ، فلسطین میں اپنے اور اپنے حقیقی حقوق کے دفاع کا ہمارا حق ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر تجزیہ نگار اور ماہرین حماس کے بیان پر توجہ دیں تو بھی انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ حماس اور فلسطین کے سیاسی اور اصولی موقف اس بیانیے میں واضح کر دیے گئے ہیں۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا، جنگ کا مکمل خاتمہ، صیہونی رژیم کی افواج کا انخلاء، کراسنگ کھولنا، انسانی امداد کا داخلہ، غزہ کی تعمیر نو اور پھر تبادلے کی طرف بڑھنا۔ ہم پہلے دن سے تبادلے کے لیے مکمل طور پر تیار تھے، خاص طور پر بچوں کی قاتل صیہونی رژیم کے کرپٹ، انتہا پسند اور رجعت پسند رہنماوں کے تناظر میں۔
 
سوال: "قیدیوں کے تبادلے" والے حصے میں حماس نے ٹرمپ کے تجویز کردہ فارمولے کا خیر مقدم کیا ہے۔ کیا حماس تمام قیدیوں کی بیک وقت رہائی پر راضی ہے؟ کیا یہ حماس کے ہاتھ خالی کرنے کا باعث نہیں بنتا؟
جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا، بیانیے میں اصولی موقف واضح کر دیا گیا ہے۔ اگر ٹرمپ واقعی سنجیدگی سے جنگ روکنے کا ارادہ رکھتا ہے اور سچ بول رہا ہے تو اسے عمل میں اس کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یقیناً ہر چیز کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ تفصیلات کو مذاکرات کی میز پر زیر بحث لایا جانا چاہیے۔ لہذا، یہ سوالات وہی ہیں جو ہم نے بیانیے میں واضح کر دیے ہیں۔ آئیے ان مسائل کو بات چیت اور حل کرنے کے لیے مذاکرات کی طرف بڑھیں۔ ہم نے پہلے دن سے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہیں۔ ہم شروع سے تیار تھے لیکن تل ابیب کے کرپٹ لیڈر تیار نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ اس وقت بھی جب ہم نیتن یاہو کے خلاف صیہونیوں کی زبردست ریلیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے لیے فوجیوں کی جانیں بے اہمیت ہیں۔ ہمارے پاس قیدیوں کے تبادلے کا ایک مکمل اور واضح فارمولا ہے: سب کے مقابلے میں سب۔ اب تفصیلات کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہمارے پاس تبادلے کے لیے 72 گھنٹے ہیں، جبکہ اس حوالے سے تفصیلی جانچ میں وقت درکار ہے، کیونکہ مثال کے طور پر کچھ قیدی برسوں سے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے اہل خانہ کہاں ہیں۔ لہٰذا، منطق کو غالب ہونا چاہیے اور ہمیں کھلے ذہن اور کھلے دل سے مذاکرات کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم مذاکرات کی میز پر جائیں اور دیکھیں کہ اگلے دن اسرائیل نے غزہ کے رہنماؤں اور عوام کے خلاف اپنے بزدلانہ حملے دوبارہ شروع کر دیے ہیں۔ وہ دی گئی ضمانتوں کا احترام نہیں کرتے۔ ہم ضمانتوں کے بغیر تبادلے میں داخل نہیں ہو سکتے۔ حتی گذشتہ سمجھوتے میں، جو جنگ کا ابتدائی خاتمہ تھا، دوسری مفاہمت کے 40 یا اس سے زیادہ دنوں کے اندر انہوں نے فوجی حملے شروع کر دیے۔ وائٹ ہاؤس کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے۔ ثالثوں کو بھی جوابدہ ہونا چاہیے۔ اس مفاہمت کو عملی جامہ پہنانے اور اس کے نفاذ کے لیے عرب، اسلامی اور بین الاقوامی تعاون کے ساتھ سنجیدہ ضمانتیں اور طریقے فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
 
سوال: بیانیے میں "عرب اور اسلامی حمایت" کا ذکر کیے جانے کے پیش نظر، آپ اس حمایتی عمل میں مزاحمتی محاذ بالخصوص ایران اور حزب اللہ لبنان کا کیا کردار دیکھتے ہیں؟
خالد قدومی: ایران اور حزب اللہ لبنان میں ہمارے عزیز اور گرانقدر بھائی نیز وہ دوست جو خطے میں مزاحمتی بلاک میں موجود ہیں اور ہمارے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ مزاحمت خطے میں ہمارے قومی مفادات کے تحفظ اور اس سرزمین کے باشندوں کی عزت اور انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے ایک اہم نظریہ ہے۔ مزاحمت نے ثابت کر دیا ہے کہ اس طوفان کے بغیر ہم اس تاریخی موڑ تک نہیں پہنچ سکتے۔ ایک ایسا مقام جہاں آج پوری دنیا مزاحمت کے جواب کی منتظر ہے۔ ایران، حزب اللہ لبنان اور یمن میں ہمارے بھائی اور دوست ہمارے ساتھ ہیں اور ایک موثر کردار ادا کر رہے ہیں، کیونکہ وہ عرب اور اسلامی قوم کا لازمی حصہ ہیں۔ اس لیے ہم جو بھی قدم اٹھاتے ہیں وہ مزاحمتی محاذ میں موجود تمام دوستوں کے ساتھ، عرب اور اسلامی ممالک میں، خطے میں، قومی اتفاق رائے کے ساتھ اور حتیٰ کہ عرب اور اسلامی اشرافیہ اور بین الاقوامی لبرل کے ساتھ پوری مشاورت، غور و فکر اور ہم آہنگی کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے۔ صمود فلوٹیلا پر ہمارے بھائی اور بہنیں، اور یورپ اور امریکہ کی سڑکوں پر موجود مظاہرین نے حماس کی تجویز اور مزاحمت کے نسخے پر اپنی خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے ہم بھی ایک ساتھ ہیں اور انشاء اللہ اس مزاحمت اور ان قربانیوں کا ثمر فلسطینی عوام کے لیے آزادی اور امن کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
 
سوال: کیا حماس بحران کے اس مرحلے پر بھی کسی بھی سیاسی معاہدے کی بنیادی حمایت کے طور پر مسلح مزاحمت کے آپشن پر زور دیتی ہے؟
خالد قدومی: ہمارے پاس ایک عمومی اور جامع تصور ہے جس کا بنیادی ستون فوجی مزاحمت رہا ہے اور ہے۔ مزاحمت نے ہم پر ثابت کیا ہے کہ دشمن کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرنے کا واحد راستہ یہی راستہ ہے۔ کیا جس نے مزاحمت ترک کر دی ہے اس نے کچھ حاصل کیا ہے؟ جو دوست سمجھوتے کے ساتھ آگے بڑھے ہیں، 1991 سے لے کر آج تک، انہوں نے فلسطین کے مسئلے کو بھولنے اور رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔ لہٰذا، مزاحمت ہمارے قومی مفادات، ہمارے عوام، غزہ اور فلسطین کے عوام کے لیے ان مثبت، اہم اور فائدہ مند نتائج کے حصول کا اصلی اور بنیادی راستہ ہے۔
 
سوال: بعض صہیونی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ "حماس نے عملی طور پر ٹرمپ منصوبے کو قبول کرلیا ہے"، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
خالد قدومی: ہم اعلان کر چکے ہیں کہ ٹرمپ کی تجویز کو قبول کر لیا ہے اور اس میں بہت سی تفصیلات ہیں جن پر بات کرنا ہے، لیکن ان میں سے بہت سے نکات موجودہ مراحلے سے تعلق نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر ہم عام اصطلاحات میں سیاسی مسائل کی حتمی اور تزویراتی تفہیم بیان کر رہے ہیں۔ ہم نے عمومیات کو قبول کیا اور خوش آمدید کہا۔ عرب اور اسلامی ممالک نے ان کا استقبال کیا اور مزاحمتی محور نے بھی ان کا استقبال کیا۔ اب ہمیں تفصیلات میں داخل ہونا چاہیے۔ ان تفصیلات میں، وقت، مقدار اور معیار کا مسئلہ مستقبل کے مذاکرات کے فریم ورک میں ہو گا۔ ہم کل سے ان مذاکرات میں سنجیدگی سے داخل ہونے اور کسی ایسے نتیجے پر پہنچنے کے لیے تیار ہیں جو جنگ کے خاتمے اور ہمارے بچوں کی زندگیوں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہو۔
 
سوال: اگر حماس کے قبول کرنے کے باوجود اسرائیل نے بمباری جاری رکھی تو کیا اسے امریکی منصوبے کی قانونی حیثیت کے مکمل خاتمے کے طور پر دیکھا جائے گا؟
خالد قدومی: آپ کی تشویش وہی ہے جو میرے ذہن میں بھی ہے اور خطے کے دوستوں میں بھی ہے۔ امریکہ واقعی قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ ہم آج اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہم گلاس کو آدھا بھرا ہوا دیکھتے ہیں اور آدھا خالی ایک طرف رکھ دیتے ہیں، لیکن ہمارے ذہنوں میں ہمیشہ یہ بات رہتی ہے کہ یہ دشمن قابل اعتبار نہیں ہے۔ امریکیوں نے بدقسمتی سے آج تک ثابت کیا ہے کہ آپ کو ان کے اقدامات کے نتائج کے بارے میں کئی بار سوچنا ہو گا۔ تاہم ہم دنیا کے سامنے کھلے عام اعلان کرتے ہیں کہ اس مفاہمت کی کامیابی کی ذمہ داری ٹرمپ، ثالثوں اور عرب اور اسلامی ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ اب ہمیں جنگ کو روکنا چاہیے، صیہونی رژیم کی افواج کو نکالنا چاہیے اور اپنے لوگوں کے لیے انسانی امداد لانی چاہیے تاکہ ہمارے بچے پانی پی سکیں، دودھ پی سکیں اور دنیا کے دوسرے لوگوں کی طرح امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عرب اور اسلامی ممالک ان کا استقبال کیا مذاکرات کی میز پر صیہونی رژیم تفصیلات میں ہونا چاہیے خالد قدومی بیانیے میں کر رہے ہیں کی جانب سے مزاحمت کے کے طور پر کرتے ہیں کا مسئلہ قبول کر حماس کے قبول کی کے تحفظ نہیں ہے حماس کی ٹرمپ کی کے ساتھ کیا اور ہیں اور واضح کر کو قبول کر دیے اور ہم ہیں کہ دیا ہے کیا ہے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

عمران خان اپنی منصوبہ بندی پارٹی کو دے چکے،اب پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے؛ علیمہ خان

سٹی 42: بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ  عمران خان اپنی منصوبہ بندی پارٹی کو دے چکے،اب پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے، 27ویں ترمیم کے ذریعے آپ سے انصاف کا حق لے لیاگیا،صرف پی ٹی آئی نہیں پوری پاکستانی عوام پر ظلم ہے۔

 اولپنڈی فیکٹری ناکے کے قریب گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان کا کہنا تھاکہ ہم احتجاج بانی پی ٹی آئی کے حقوق کے لیے کر رہے ہیں،بانی پی ٹی آئی کا حق ہے فیملی اور وکلا سے ملاقات کریں۔  ان کا کہنا تھا کہ دو ہفتوں سے نورین خانم کی ملاقات ہورہی،میری ملاقات نہیں ہونے دی جارہی،یہ لوگ ڈرے ہیں،بانی کا پیغام نہ باہر آجائے۔ 

صوبہ بھر میں ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء کا سلسلہ تیزی سے جاری

 27 ترمیم کے بعد حالات بدل گئے  لگتا ہے 28 ترمیم کے بعد بلڈنگ ختم ہو جائے گئی،جہاں سے فیصلہ آنا ہوگا آجائے گا۔بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان کا کہنا ہے پاکستان میں ایک ظالم نظام رائج کیا جارہا ہے  عوام کی آواز کو بند کیا جارہا ہے، 27ویں ترمیم جس کے ذریعے آپ سے انصاف کا حق لے لیا جائے صرف پی ٹی آئی نہیں پوری پاکستانی عوام پر ظلم ہے  اگر اس کے خلاف قوم کھڑی نہ ہوئی تو پھر بھیڑ بکریاں بنا دی جائے گی،عمران خان نے یہ بارہا کہا ہے کہ اپنے حقوق کے لیے آپ کو کھڑے ہونا پڑے گا آپ مانگے گے تو ہی حق ملے گا۔

دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے پر عزم ہیں،پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہے:وزیراعظم

 اگر پچھلا دور ہوتا اور کورٹ کے حکم عدولی ہوتی تو یہاں پولیس اور آئی جی کی لائن لگی ہوتی،پہلے توہین عدالت کا ایک ڈر ہوا کرتا تھا، آج کل لوگ مذاق سمجھتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے لوگ قانون کے مطابق چلے ہیں،اسی امید میں پی ٹی آئی ہائیکورٹ اور اب سپریم کورٹ میں بھی پٹیشن داخل کر رہی ہے ۔

 علیمہ خان کا مزید کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اپنی منصوبہ بندی پارٹی کو دے چکے اب پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے ،بانی پی ٹی آئی اس وقت قید میں ہیں ہم نے انہیں رہا کروانا ہے انہوں نے ہمیں نہیں بتانا کس طرح کرنا ہے،انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آج اگر ہماری جکہ پی پی پی یا ن لیگ کے لوگ ہوتے تو کیا ان کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوتا؟؟اور ان کو روکا جاتا 
علیمہ خان  نے دعویٰ کیاکہ بانی پی ٹی آئی کی جماعت پر امن ہے ہم یہاں آتے ہیں اور انتظارِ کرتے اور واپس چلے جاتے ہیں،آج ہم نے کہا ہے کہ بے شک پرچے دو یا ہم سب کو جیل میں ڈال دو ہم نہیں گھبراتے آج ہم کو اگر ملاقات کی اجازت نہ ملی تو یہاں سے نہیں اٹھیں گے،عمران خان کو قید تنہائی میں رکھنا غیر قانونی ہے۔

 مودی سرکار کو بڑا دھچکا,بھارتی شہریوں پر بغیر ویزا ایران میں داخلے پر پابندی عائد

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی فوج نےجنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتےہوئے مزید23فلسطینی شہیدکردیئے
  • استنبول میں غزہ جنگ بندی پر بات چیت: اسٹیو وٹکوف کی حماس رہنما سے ایک اور ملاقات طے
  • اسرائیل نے جنگ بندی معاہدےکی دھجیاں اڑادیں، آج پھر لبنان پر حملہ کردیا، 13 افراد جاں بحق
  • عالمی فوجی طاقت کی نئی درجہ بندی: 2025ء کا منظرنامہ
  • ہمارے بھاجی… جج صاحب
  • اسرائیل کی جنگ معاہدے کی خلاف پرعالمی طاقتوں کی خاموشی افسوسنا ک ہے
  • حماس نے سلامتی کونسل میں غزہ سے متعلق منظور قرارداد کو یکسر مسترد کردیا ہے
  • ’اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو جائز سمجھتے ہیں‘، حماس نے غزہ سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد مسترد کردی
  • عمران خان اپنی منصوبہ بندی پارٹی کو دے چکے،اب پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے؛ علیمہ خان
  • دہشت گردی کی حالیہ لہر …نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!