’’دل پھر طواف ِکوئے ملامت کو جائے ہے‘‘
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وزیر اعظم شہباز شریف نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک سرسری اور ایک باقاعدہ ملاقات کی تو یوں لگا کہ پاکستان کو ہفت اقلیم کی بادشاہی مل گئی ہو۔ ایکس سے سرکاری میڈیا تک یوں دھمالیں ڈالی گئیں کہ جیسے پہلی بار کسی پاکستانی حکمران کا وائٹ ہاؤس میں خیر مقدم کیا گیا ہو۔ پہلی بار امریکا اور پاکستان کے تعلقات اوجِ کمال کو پہنچے ہوں اور پہلی بار پاکستان کو امریکا کی مہربان چھاؤں میسر آئی ہو۔ حقیقت تو یہ ہے جس تعلق کی تجدید پر خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں اسے امریکا کے ہی ایک محقق اور مصنف نے اپنی کتاب ’’نو ایگزٹ فرام پاکستان‘‘ میں تکلیف دہ تعلق کا نام دیا ہے۔ ابھی پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر ہاہا کار مچی ہوئی تھی کہ ٹرمپ کے دربار میں حاضری نے ایک اور جشن منانے کا موقع فراہم کیا۔ ’’ایک تصویر کا سوال ہے بابا‘‘ کے انداز میں کھلونوں سے بہلنے والے پاکستانی حکمرانوں کی ساری کائنات ہی ایک فوٹو سیشن ہوتی ہے۔ یہ الگ بات کہ ایک تصویر کی یہ خواہش قوم کو بہت مہنگی پڑتی رہی ہے۔ لیاقت علی خان کے پہلے دورے ہی سے تصویروں اور ملاقاتوں کا یہ سلسلہ چل رہا ہے مگر اس تکلیف دہ تعلق نے پاکستان کو اب تک دیا ہی کیا ہے؟۔ ایسے دفاعی معاہدے اور دفاعی سودے جو اس ملک کو دولخت ہونے سے نہ بچا سکے۔ ایسے اسلحے اور ایسے معاہدوں کا کیا کرنا جو مشکل وقتوں میں کام نہ آسکے۔
برطانیہ نے ہمیں آزاد کر کے امریکا کے حوالے کیا اور تب سے پاکستان اسی کھونٹے سے بندھا چلا آرہا ہے۔ جنرل حمید گل کے بقول ہمیں ایک ملک تو دے دیا گیا مگر آزادی نہیں ملی۔ امریکا نے بھی اس وقت ہی سے ہمیں اتنا سینت سینت کر اور سینے سے لگائے رکھا ہے کہ ہمیں روس، چین، ایران، افغانستان سمیت بہت سے ملکوں سے ایک حد تک ہی تعلق بنائے اور نبھائے رکھنے کی آزادی ہے۔ ہمارا بجٹ تو باہر ہی سے بنتا ہے ہمارے خارجہ تعلقات کے پیرا میٹرز اور اوزان وپیمائش کے پیمانے بھی باہر سے بن کر آتے ہیں۔ شاید اسی کیفیت کو فیض احمد فیض نے داغ داغ اْجالا اور شب گزیدہ سحر کہا تھا۔ نوایگزٹ فرام پاکستان کے مصنف کے مطابق پاکستان اور امریکا کے تکلیف دہ تعلق میں امریکا پاکستان کے ناز نخرے نہیں اْٹھاتا بس ڈالر پھینکتا اور اس وقت کی اپنی ضرورت پوری اور مجبوری دور کرتا ہے۔ پاکستان کے حکمران بھی کچھ ادائیں اور ناز نخرے دکھا کر بصد ِ شوق اشرفیوں کی پوٹلی وصول کرکے بروئے کار آتے چلے جاتے ہیں۔
پچاس کی دہائی میں گندم سے لدے اونٹوں کے گلوں میں لٹکتے ہوئے ’’تھینک یو امریکا‘‘ کے کتبوں سے شروع ہونے والی کہانی سے اسی کی دہائی میں ضیاء الحق کی طرف سے امریکی امداد کی پیشکش کو پہلے مونگ پھلی کر کہہ کر مسترد کرنے اور اگلے ہی لمحے اسے من وسلویٰ سمجھ کر وصول کرنے کی داستان تک، امریکی امداد کے کیری لوگر بل کو قومی سلامتی اور خودمختاری پر وار قرر دینے اور لوکل میڈیا میں ہنگامہ برپا کرنے کے بعد اسے خاموشی سے نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر ہضم کرنے تک اس تعلق کی کہانی بہت متحیر کردینے والی ہے۔ جس میں ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ کے موڑ بھی آتے ہیں۔ اس کہانی میں میمو گیٹ، ڈان لیکس اور ابسلیوٹلی ناٹ کے ادوار بھی آتے ہیں۔ اطاعت اور وفا کی تمام داستانیں رقم کرنے کے بعد ایوب خان فرینڈز ناٹ ماسٹرز لکھ کر دل کے پھپھولے جلا نے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ضیاء الحق تو یہ سمجھتے ہیں کہ اب مونگ پھلی سے شروع ہونے والا تعلق اٹوٹ اور لازوال ہے مگر جب ان کا ستارہ گردش میں آنے لگتا ہے تو امریکی سفیر کو لائف سیونگ جیکٹ اور ہیومن شیلڈ کے طور پر اپنے ساتھ چپکائے رکھتے ہیں مگر ایک سہ پہر ان کا جہاز لڑکھڑانے لگتا ہے اور لائف سیونگ جیکٹ بھی کسی کام نہیں آتی اور سارے مسافر اگلے جہان سدھار جاتے ہیں۔ صدر ریگن کا ایک سطری بیان آتا ہے کہ ہم خطے میں اپنے ایک بہترین دوست سے محروم ہوگئے ہیں۔ آخر میں بس یہ ایک سطری بیان ہی وفاؤں کا ماحاصل ہوتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی کہانی تو اس سے بھی زیادہ دردناک ہے۔ فرینڈ ناٹ ماسٹرز کے مصنف کی طرح وہ بھی سب سے پہلے پاکستان میں امریکا کے لیے اپنی خدمات گنواتے ہیں۔ القاعدہ اور طالبان کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کرنے کی باتیں ضبط تحریر میں لائیں مگر جب مخالفین نے انہیں گھیر لیا تو جنرل پرویز مشرف نے پلٹ کر وائٹ ہائوس فون کیا۔ صدر اوباما کے نمبر سے جواب ملا۔ آپ کے نمبر پر مطلوبہ سہولت میسر نہیں۔ یہ وہی پرویز مشرف تھے جن کا شنگریلا میں بش دوم نے شاندار استقبال کیا تھا اور شنگریلا کے اسی جنت نما ماحول میں دونوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عہد وپیماں ہوئے تھے۔ یہ پاکستان کے طاقتور فوجی حکمرانوں کی امریکا کے ساتھ تعلق کی کہانی ہے۔ بے چارے سویلین حکمرانوں کی اوقات ہی کیا وہ امریکا سے قریب ہوں تو اپنے ناراض ہوتے ہیں اور اپنوں کے قریب ہوں تو امریکا ناراض ہوتا ہے گویا کہ وہ اس تکلیف دہ تعلق کے درمیان پنڈولم کی طرح جھولتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے جو تصویر شہباز شریف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں پاک امریکا تعلقات کی تاریخ اس سے زیادہ خوبصورت اور بامعنی تصویروں سے مزین اور عبارت ہے۔ اس سے زیادہ مضبوط کرداروں کے ساتھ اس سے زیادہ گرم جوش باڈی لینگوئج کے ساتھ موجود ہیں مگر ہر تصویر کے بعد پاکستان پہلے جیسا ہی رہتا تو اچھا تھا پہلے سے زیادہ بگاڑ کا شکار ہوتا رہا۔ بقول غالب۔
دل پھر طواف کْوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تکلیف دہ تعلق پاکستان کے امریکا کے سے زیادہ کے بعد تے ہیں
پڑھیں:
سعودی پاکستان معاہدہ
اسرائیل نے 9 ستمبر 2025کو دوحہ پر حملہ کر دیا‘ یہ 1981 میں بغداد کے ایٹمی ریکٹر جیسا حملہ تھا‘ اچانک کیا گیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی‘ دوحہ میں حماس کی لیڈر شپ کی رہائش گاہیں اسرائیل کا ٹارگٹ تھیں‘ اسرائیل کے اس آپریشن کے بارے میں دو معلومات ہیں‘ وال اسٹریٹ جنرل نے 10ستمبر کو نقشے کے ذریعے ثابت کیا اسرائیل نے ریڈسی سے میزائل داغے اور یہ انتہائی بلندی سے سعودی عرب کے اوپر سے گزر کر دوحہ میں گرے‘ دوسرا ورژن ترکی کا ہے اور یہ زیادہ مضبوط ہے۔
ترک انٹیلی جنس کے مطابق اسرائیلی ائیرفورس ایف 15 طیاروں کے ذریعے شام کے راستے عراق اور وہاں سے قطر میں داخل ہوئی اور براہ راست ہدف کو نشانہ بنایا‘ ایف 15ا سٹیلتھ طیارے ہیں جنھیں ریڈار ٹریس نہیں کر سکتے لیکن ترک انٹیلی جنس کو یہ نظر بھی آئے اور انھوں نے حماس کی لیڈر شپ کو بروقت اطلاع بھی دے دی جس کے بعد اسرائیل کا ہدف حماس کے پانچ سینئر رہنماخالد مشعل‘ خلیل الحیہ‘ زاہرجبارین‘ محمد درویش اور ابومرزوق وہاں سے نکل گئے تاہم خلیل الحیہ کا بیٹا ہمام خلیل الحیہ اور حماس دفتر کے منیجرجہاد لبد شہید ہو گئے‘ قطر میں سینیٹ کام کے سب سے بڑے بیس العبید میں دس ہزار امریکی فوجی ہیں اور ان کا سربراہ فور اسٹار جنرل ہوتا ہے‘ بیس پر دنیا کے جدید ترین سسٹم لگے ہیں‘ قطر کی سیکیورٹی امریکا کے پاس ہے اور قطر ہر سال امریکا کو اس کے بدلے کئی بلین ڈالر ادا کرتا ہے۔
قطری حکومت نے امریکا کی ہدایت پر دوحہ میں حماس سے دفتر بنوایا تھا اور یہ امریکا کی خواہش پر حماس لیڈرشپ سے مذاکرات کر رہی تھی لیکن پھر اسرائیل نے اچانک حماس کے آفیشل دفتر پر حملہ کر دیا جس کے بعد بے شمار سوال پیدا ہو گئے مثلاً پہلا سوال یہ تھا کیا امریکا کو اس حملے کا علم تھا؟ وائیٹ ہاؤس کے مطابق اسرائیل نے امریکا کو اس وقت بتایا جب جہاز روانہ ہو چکے تھے اور ٹرمپ کے پاس صرف دس منٹ تھے اور یہ اس محدود وقت میں کچھ نہیں کر سکے‘ دوسرا سوال‘کیا اسرائیل نے دوحہ میں امریکا کے تمام آلات جام کر دیے تھے؟ اگر نہیں تو پھر امریکا کو اس حملے کا علم تھا اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے امریکا عربوں کا اتحادی ہونے کے باوجود عربوں کی حفاظت نہیںکرنا چاہتا اوراسے جب بھی عرب اور اسرائیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو اس کا ووٹ اسرائیل کے حق میں ہو گا اور عرب بلاوجہ اپنا سرمایہ ضایع کر رہے ہیں اوراس کے برعکس اگر امریکا کو علم نہیں تھا تو اس کا مطلب ہے۔
اسرائیل کی نظر میں امریکا کی کوئی اہمیت نہیں اور یہ امریکا کے کسی بھی دوست کو کسی بھی وقت ٹارگٹ بنا سکتا ہے اور امریکا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘ یہ صورت حال پہلی سے کہیں زیادہ خطرناک اور الارمنگ ہے اور اگربالفرض محال اسرائیل نے امریکا کی ٹیکنالوجی بھی جام کر دی تھی اور امریکی سیٹلائیٹ اور ریڈار اپنے ہی بنائے ہوئے ایف 15 طیاروں کو فضا میں ٹریس نہیں کر سکے تو پھر یہ امریکا سمیت پوری دنیا کے لیے تشویش ناک ہے پھر اسرائیل ٹیکنالوجی میں امریکا کا باپ ہے اور اب اسے کوئی نہیں روک سکتا۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے اگر اسرائیل نے سعودی عرب کے اوپر سے قطر پر حملہ کیا اور اسے بھی امریکی آلات ٹریس نہیں کر سکے تو پھر کوئی عرب ملک اسرائیل سے محفوظ نہیں حتیٰ کہ امریکا بھی ان کی حفاظت نہیں کر سکتا یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے امریکا کو آج عربوں کی ضرورت نہیں رہی ‘ امریکا 2000تک تیل کا دنیا کا سب سے بڑا خریدار تھا لیکن پھر شیل ٹیکنالوجی آئی اور امریکا دنیا میں تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ بن گیا‘ یہ اب خود ایکسپورٹر ہے چناں چہ اب یہ عربوں کا محتاج نہیں رہا اور یہ گلف میں صرف روس اور چین کی وجہ سے بیٹھا ہے‘ یہ سمجھتا ہے اگر میں یہاں سے نکل گیا تو روس اور چین تیل کے اس دہانے پر آ بیٹھیں گے جس سے امریکا کو نقصان ہو گا لہٰذا یہ گلف کی ریت نہیں چھوڑ رہا۔
عرب تین وجوہات سے امریکا کے محتاج ہیں‘ پہلی مجبوری باشاہت ہے‘ عرب میں امریکا کی وجہ سے بادشاہت قائم ہے جس دن امریکا ہٹ گیا اس دن تخت ہلنے لگیں گے‘ دوسرا شاہی خاندانوں کی ساری دولت مغربی ملکوں میں پارک ہے‘ لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ‘ شانزے لیزے اور مین ہیٹن کی زیادہ تر کمرشل بلڈنگز شاہی خاندانوں کی ملکیت ہیں‘ یہ جانتے ہیں جس دن امریکا ناراض ہو گیا اس دن یہ جائیدادیں ضبط ہو جائیں گی اور یہ فٹ پاتھ پر آ جائیں گے اور تیسری وجہ امریکا کے جنگی آلات ہیں۔
عربوں کے پاس جنگی طیاروں سے لے کر رائفلوں تک امریکا اور یورپ کے آلات ہیں لیکن ان کے پاس انھیں چلانے کی اہلیت اور فورس دونوں نہیں‘ کھربوں ڈالر کے آلات ان کے بیسز میں موجود ہیں مگر چلانے والے نہیں ہیں لہٰذا یہ امریکا کو بھاری معاوضہ دے کر ماہرین منگواتے ہیں‘ امریکی ریت میں جانا پسند نہیں کرتے چناں چہ یہ کانٹریکٹ لے کر اسے ’’سب لیٹ‘‘ کر دیتے ہیں جس کے بعد عرب چھاؤنیوں میں مشرقی یورپ کے یہودی اور اسرائیلی آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے اسرائیلی طیارے عراق یا سعودی عرب کے اوپر سے گزرتے ہیں تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی‘ عربوں کے آلات بند ہو جاتے ہیں اور یہ حملہ آور کو ٹریس نہیں کر سکتے‘ عرب بھی اس حقیقت سے واقف ہیں‘ یہ جانتے ہیں ہم اگر امریکا کو ناراض کردیتے ہیں تو پھر ہمارے کھربوں ڈالر کے آلات بے کار ہو جائیں گے۔
آپ اب اس سیناریو کو ذہن میں رکھ کر صورت حال دیکھیں‘ عربوں نے امریکا کی دوستی کے لیے کھربوں ڈالر ضایع کر دیے لیکن امریکا جون 1981میں اسرائیل سے عراق کا ایٹمی ریکٹر نہیں بچا سکا اور یہ ریکٹر بھی امریکا کے اتحادی فرانس نے لگایا تھا اور حملے کے دن بھی وہاں سیکڑوں فرنچ شہری کام کر رہے تھے‘یہ تاریخ 9 ستمبر2025ء کو دوسری بار دہرائی گئی‘ قطرکے العبیدائیربیس پر موجود دس ہزار امریکی فوجی اور 100 ارب ڈالر کی ٹیکنالوجی دوحہ کو حملے سے نہیں بچا سکی‘ اسرائیل نے اکتوبر 2023میں غزہ پر حملہ شروع کیا‘ عرب دو برس سے امریکا سے جنگ بندی کی درخواست کر رہے ہیں‘ غزہ میں 70 ہزار لوگ مر گئے‘ پورا خطہ مٹی کا ڈھیر بن گیا لیکن امریکا جنگ نہیں رکوا سکا‘ یہ صورت حال بھی اگر یہاں تک رہتی تو شاید قابل فہم تھی جب کہ اسرائیل نے اپریل میں بھارت کو پاکستان پر حملے پر بھی رضا مند کر لیا‘ یہ اب ثابت ہو رہا ہے پہلگام کا واقعہ موساد یا را کا منصوبہ تھا اور اس کا مقصد پاکستان پر حملہ تھا‘ افغانستان اور ایران میں را اور موساد مدت سے سرگرم عمل ہیں۔
جون میں ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد ثابت ہو گیا‘ اسرائیلی اور بھارتی ایجنٹوں نے پہلے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے ذریعے پاکستان پر مغربی سائیڈ سے دباؤ بڑھایا پھر سوشل میڈیا کے ذریعے پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کیا پھر پی ٹی آئی کو فوج کے سامنے کھڑا کیا اور پھر پہلگام کا ڈرامہ رچا کر پاکستان پر حملہ کر دیا۔
اس حملے میں پہلی مرتبہ اسرائیل نے کھل کر بھارت کا ساتھ دیااور اسے ہاروپ ڈرونز‘ ماہرین اور سیٹلائیٹ کی مدد دی لیکن اللہ کا خاص فضل تھا پاکستان نہ صرف بچ گیا بلکہ دنیا میں اس کی عزت میں بھی اضافہ ہوا‘ اسرائیل نے اس کے بعد 13 جون کو ایران پر حملہ کر دیا لیکن ایران نے 8جرنیلوں‘ 17سائنس دانوں اورنطنزنیوکلیئر سائیٹ کی قربانی کے باوجود اسرائیل کی مت مار کر رکھ دی‘ اسرائیل پر پہلی مرتبہ میزائلوں کی بارش ہوئی اور نیتن یاہو کو جارحیت کا مزہ چکھنا پڑگیا اگر اس وقت امریکا اس کا ساتھ نہ دیتا تو ایران اب تک تل ابیب کو غزہ بنا چکا ہوتا‘ یہ اسرائیل کی دوسری ہزیمت تھی لہٰذا اسرائیل خفت مٹانے کے لیے دوحہ پر حملے پر مجبور ہو گیا اور اس حملے نے عربوں کی آنکھیں کھول دیں۔
عربوں کے پاس اس کے بعد تین آپشن تھے‘ یہ ترکی کے ساتھ مل جاتے‘ ترکی فوجی لحاظ سے مضبوط ملک ہے لیکن یہ مہنگا بھی ہے اور عرب 1919 تک اس کی کالونی بھی رہے ہیں‘ عرب 500 سال عثمانی سلطنت کے باج گزار رہے تھے اور انھوں نے لڑ کر ترکی سے آزادی حاصل کی لہٰذا سعودی عرب ترکی کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا تھا‘ ایران کی فوج اور میزائل سسٹم تگڑا بھی ہے لیکن یہ جدید ٹیکنالوجی میں بھی مار کھاتا ہے‘ دوسرا سعودی عرب اور ایران میں نظریاتی اختلاف بھی ہے‘ عرب رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد 632سے ایران کے مخالف ہیں چناں چہ یہ اسے اپنی سیکیورٹی نہیں دے سکتے‘ پیچھے رہ گیا پاکستان تو یہ سعودی عرب کو سوٹ کرتا ہے۔
کیوں؟ چار وجوہات ہیں‘ یہ دنیا کی واحد اسلامی نیوکلیئر پاور ہے‘ دوم فوج بے انتہا تگڑی‘ پروفیشل‘ نڈر اور مستقل ہے‘ کسی بھی دور میں سیاست دان اس پر اثر انداز نہیں ہو سکے حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسا عالمی لیڈر بھی فوج کو قابو نہیں کر سکا‘ سوم ہم سعودی عرب کو سستے پڑتے ہیں‘ سعودی عرب کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور ہم یہ خدمت مفت بھی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور آخری وجہ اسرائیل صرف پاکستان سے ڈرتا ہے چناں چہ سعودی عرب نے 17ستمبر کو پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر لیا اور آپ اس معاہدے کا پہلا کمال دیکھ لیجیے‘ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی پر رضا مند ہو گیا۔ اب سوال یہ ہے کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر رہا ہے؟ یہ میں اگلے کالم میں عرض کروں گا۔