شمالی شام میں شامی فوج اور کرد جنگجوؤں کے درمیان جھڑپوں کے بعد جنگ بندی
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
شمالی شام کے شہر حلب میں شامی فوج اور کرد جنگجوؤں کے درمیان شدید جھڑپوں کے بعد فریقین کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
یہ جھڑپیں پیر اور منگل کی درمیانی شب ہوئیں جن میں فائرنگ اور مارٹر حملوں کے نتیجے میں ہلاکتوں اور زخمیوں کی اطلاعات ملی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب دمشق حکومت اور شمال مشرقی شام کی کرد انتظامیہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ شامی خبر رساں ادارے سانا کے مطابق کرد قیادت کی شامی ڈیموکریٹک فورسز (SDF) نے سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا، جس میں ایک اہلکار جاں بحق اور چار زخمی ہوئے۔
سانا نے دعویٰ کیا کہ ایس ڈی ایف نے حلب کے شیخ مقصود اور اشرفیہ کے علاقوں میں مارٹر گولے داغے اور بھاری فائرنگ کی، جس سے شہری بھی متاثر ہوئے۔ تاہم ایس ڈی ایف نے ان حملوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جنگجو اس علاقے سے پہلے ہی واپس جا چکے ہیں۔
شامی سرکاری ٹی وی نے منگل کی صبح اطلاع دی کہ دونوں فریقوں نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے، تاہم مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
واضح رہے کہ دمشق حکومت اور امریکا کی حمایت یافتہ ایس ڈی ایف کے درمیان مارچ میں ایک معاہدہ ہوا تھا، جس کے تحت کرد فورسز کو شامی فوج میں ضم ہونا تھا، لیکن اس پر عمل درآمد تاحال معطل ہے۔
دوسری جانب ایس ڈی ایف نے الزام لگایا ہے کہ شامی فوج نے عام شہریوں پر بار بار حملے کیے اور کرد علاقوں کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ ان کے مطابق سرکاری فورسز نے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ پیش قدمی کی کوشش کی اور ڈرون حملے کیے، جس سے شہری ہلاکتیں اور املاک کو نقصان پہنچا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایس ڈی ایف کے درمیان شامی فوج
پڑھیں:
قطب شمالی کی برف پگھلنے سے چین نے تجارتی راستہ بنا ڈالا، نئی تاریخ رقم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قطب شمالی کی پگھلتی برف جہاں دنیا کے لیے ماحولیاتی خطرات بڑھا رہی ہے، وہیں چین نے اسی تبدیلی کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے عالمی تجارت میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق بیجنگ نے ’’قطبی شاہراہِ ریشم‘‘ (Polar Silk Road) کے نام سے ایک نیا بحری راستہ فعال کر دیا ہے، جس کے ذریعے اب چینی سامان یورپ تک پہلے سے کہیں تیز رفتاری سے پہنچ سکے گا۔
یہ منصوبہ گزشتہ کئی برسوں سے چین کی ’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘‘ کا حصہ تھا، مگر 25 ستمبر کو یہ خواب حقیقت میں بدل گیا، جب ننگبو بندرگاہ سے ’’استنبول برج‘‘ نامی بحری جہاز یورپ کے لیے روانہ ہوا۔
یہ جہاز ’’نارتھرن سی روٹ‘‘ سے گزرتے ہوئے 12 اکتوبر کو برطانوی بندرگاہ فیلکس اسٹو پہنچے گا۔ اس طرح چین نے پہلی بار عملی طور پر قطبی بحری راستے کے ذریعے اپنا تجارتی سامان یورپ بھجوانا ممکن بنا دیا ہے۔
چین کے لیے اس نئے راستے کا سب سے بڑا فائدہ وقت اور لاگت کی بچت ہے۔ ماضی میں چینی جہازوں کو نہرِ سوئز کے ذریعے یورپ پہنچنے میں تقریباً 40 دن لگتے تھے، جب کہ ’’قطبی شاہراہِ ریشم‘‘ کے ذریعے یہی سفر صرف 18 سے 20 دن میں مکمل ہو جائے گا۔ یہ فرق عالمی تجارت کے لیے ایک بڑی پیشرفت ہے، جو لاگت میں نمایاں کمی اور ترسیل کی رفتار میں دوگنا اضافہ کرے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس راستے کا ایک اہم چیلنج بھی ہے کہ سردیوں کے دوران قطب شمالی میں برف دوبارہ جم جانے کے باعث یہ روٹ سال بھر کھلا نہیں رہ سکتا۔ اس کے باوجود ماہرین کے مطابق موسمی تبدیلیوں کے تسلسل سے مستقبل میں یہ راستہ مستقل طور پر قابلِ استعمال ہو سکتا ہے۔
چینی میڈیا کے مطابق ’’قطبی شاہراہِ ریشم‘‘ نہ صرف چین اور یورپ کے درمیان تجارتی وقت کم کرے گی بلکہ روس، اسکینڈے نیویا اور شمالی بحرِ اوقیانوس کے ممالک کے لیے بھی نئی اقتصادی راہیں کھول دے گی۔
بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ روٹ مستحکم ہو گیا تو عالمی تجارت کا توازن بدل جائے گا اور نہرِ سوئز پر انحصار کم ہو جائے گا، جس کا اثر مشرقِ وسطیٰ کی معیشت پر بھی پڑ سکتا ہے۔