Islam Times:
2025-11-27@20:42:55 GMT

غزہ امن معاہدہ، جنگ بندی یا اسرائیل کی نئی چال؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT

غزہ امن معاہدہ، جنگ بندی یا اسرائیل کی نئی چال؟

اسلام ٹائمز: اگر زمینی حقیقت پر نظر ڈالیں تو اس معاہدے کے ذریعے حماس نے ایک علامتی مگر سیاسی کامیابی حاصل کی ہے، اسرائیل جو ہمیشہ یہ کہتا رہا کہ وہ دہشتگرد تنظیم سے بات نہیں کرتا، آج اسی حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر مجبور ہوا، یہ فلسطینی مزاحمت کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے، اسی طرح قیدیوں کے تبادلے کی شق میں حماس نے انسانی بنیادوں پر اپنی شرائط منوائیں اور غزہ میں انسانی امداد کے داخلے کی منظوری بھی لی، یعنی حماس نے اپنی عسکری پوزیشن سے زیادہ سفارتی حیثیت منوائی۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی

غزہ کی سرزمین ایک بار پھر عالمی سیاست کے مرکز میں ہے، دو سال سے زائد کی تباہ کن جنگ، ہزاروں شہادتوں اور انسانی المیوں کے بعد بالآخر اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر دستخط ہوگئے، مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والے اس معاہدے میں قطر، ترکیہ اور مصر نے ثالثی کا کردار ادا کیا جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کو اپنی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی امن کا آغاز ہے یا اسرائیل کی ایک نئی حکمت عملی؟ ظاہری طور پر یہ خبر پوری دنیا میں امن کی جیت کے طور پر پیش کی گئی، اسرائیل نے کہا کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پائیدار امن چاہتا ہے۔

ٹرمپ نے اسے عربوں، مسلمانوں اور اسرائیل کے لیے عظیم دن کہا اور قطر نے تصدیق کی کہ پہلے مرحلے کے تمام نکات طے پا گئے ہیں، مگر بین الاقوامی مبصرین کے نزدیک یہ ایک سیاسی وقفہ ضرور ہے، لیکن امن نہیں۔ اگر زمینی حقیقت پر نظر ڈالیں تو اس معاہدے کے ذریعے حماس نے ایک علامتی مگر سیاسی کامیابی حاصل کی ہے، اسرائیل جو ہمیشہ یہ کہتا رہا کہ وہ دہشتگرد تنظیم سے بات نہیں کرتا، آج اسی حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر مجبور ہوا، یہ فلسطینی مزاحمت کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔

اسی طرح قیدیوں کے تبادلے کی شق میں حماس نے انسانی بنیادوں پر اپنی شرائط منوائیں اور غزہ میں انسانی امداد کے داخلے کی منظوری بھی لی، یعنی حماس نے اپنی عسکری پوزیشن سے زیادہ سفارتی حیثیت منوائی۔ دوسری طرف اسرائیل کے لیے یہ معاہدہ ایک سیاسی ریلیف بن کر آیا ہے، طویل جنگ، عالمی دباؤ اور اندرونی احتجاج کے بعد اسرائیلی حکومت پر شدید عوامی تنقید تھی کہ وہ اپنے مغویوں کو واپس نہیں لا پا رہی، اب بیس اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی خبر نیتن یاہو کے لیے وقتی سکون کا باعث بنے گی۔ ساتھ ہی اسرائیل نے اپنے عالمی تشخص کو امن پسند ریاست کے طور پر پیش کیا تاکہ بین الاقوامی دباؤ میں نرمی آسکے۔

تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق اسرائیل اس معاہدے کو صرف ایک وقتی حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہا ہے، یہ ممکن ہے کہ وہ اس وقفے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی فوجی پوزیشن کو مضبوط، عالمی دباؤ کو کم، اور حماس کو سیاسی مذاکرات میں الجھانے کی کوشش کرے، یعنی اسرائیل کے لیے یہ سیاسی جنگ کا نیا مرحلہ ہے جس میں وہ بندوق کی بجائے سفارت کاری کو ہتھیار بنا رہا ہے۔ حماس کے لیے اب سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ اس جنگ بندی کو مزاحمتی فتح کے طور پر برقرار رکھے

اگر حماس عوامی حمایت، داخلی نظم اور مزاحمتی اتحاد کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی، تو یہ معاہدہ اس کے لیے ایک سیاسی احیاء ثابت ہوگا، بصورت دیگر اسرائیل اسے اپنے مفاد میں بدل دے گا اور غزہ ایک بار پھر نازک صورتحال میں داخل ہوجائے گا۔ اصل میں یہ معاہدہ کسی کی مکمل جیت نہیں، بلکہ سیاسی سانس لینے کا وقفہ ہے، فلسطینی عوام کو عارضی امن اور انسانی امداد ضرور ملے گی لیکن دیرپا خودمختاری یا آزادی کی راہ ابھی بہت دور ہے، اسرائیل وقتی طور پر کامیاب ہوا ہے، مگر اخلاقی میدان میں اب بھی ناکام ہے اور حماس نے اگرچہ جنگ روکی ہے، مگر اس نے اپنے وجود کو ایک حقیقت کے طور پر منوا لیا ہے، یہی اس کی اصل کامیابی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اس معاہدے کے طور پر حماس کے کے لیے

پڑھیں:

مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال سنگین ہے، سلامتی کونسل میں پاکستان کا اظہارِ تشویش

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل کو بریفنگ میں بتایا کہ سیاسی پیش رفت کے باوجود مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال اب بھی نہایت تشویشناک ہے اور جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں تباہ کن جنگ نے دو برسوں میں 70 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جان لی ہے جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ پورا سماجی و معاشی ڈھانچہ تقریباً ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود 300 سے زائد فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ زمینی صورتحال پرامن نہیں ہوئی۔
پاکستانی مندوب نے بتایا کہ حالیہ سیاسی کوششوں میں اعلیٰ سطح کے اجلاس، نیویارک اعلامیہ اور شرم الشیخ امن سربراہی اجلاس اہم سنگِ میل ہیں، جن کا مقصد جنگ بندی کو برقرار رکھنا، انسانی بحران کا ازالہ کرنا اور دو ریاستی حل کی طرف عملی پیش رفت کرنا ہے۔ انہوں نے سلامتی کونسل کی قرارداد 2803 کو مثبت اقدام قرار دیا۔
عاصم افتخار نے امن عمل کی کامیابی کے لیے چند اہم نکات پر زور دیا:
جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد
انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی
غزہ کی تعمیرِ نو کا فوری آغاز
غیر قانونی بستیوں اور جبری بے دخلی کا خاتمہ
بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر احتساب
1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام
انہوں نے واضح کیا کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد اصولی ہے، اور پاکستان ان کے حقِ خود ارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کی حمایت جاری رکھے گا۔

متعلقہ مضامین

  • رفح میں فلسطینی مجاہدین کے خلاف صہیونی درندگی کا مقصد جنگ بندی کو سبوتاژ کرنا ہے، حماس
  • سوڈان نے ریپڈ سپورٹ فورسز کا جنگ بندی کا اعلان سیاسی چال قرار دیدیا
  • اسرائیل کو مزید یرغمالی کی لاش سونپ دی گئی، حماس کو 15 فلسطینی کی میتیں موصول
  • ایک اور یرغمالی کی لاش اسرائیل کے حوالے؛ حماس کو 15 فلسطینی کی میتیں موصول
  • سیاسی پیش رفت کے باوجود مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال بدستور سنگین ہے، پاکستان
  • غزہ جنگ بندی کے بعد امارات اور اسرائیل کے امن ریلوے منصوبے پر کام تیز
  • ملبے سے اسرائیلی یرغمالی کی لاش برآمد، آج حوالے کی جائے گی، حماس
  • مصر مذاکرات؛ غزہ میں ٹیکنوکریٹ حکومت کا قیام اور حماس کے ہتھیار پھینکنے پر پیشرفت
  • مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال سنگین ہے، سلامتی کونسل میں پاکستان کا اظہارِ تشویش
  • غزہ میں اسرائیل کی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، پاکستان