سینئر صحافی طارق سمیر نے ایک نجی ٹی وی چینل (ایم ٹی وی) کو دیے گئے انٹرویو میں ملک میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات، سرحدی خطرات اور اندرونی سیکیورٹی کے چیلنجز پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
انہوں نے زور دیا کہ نیشنل ایکشن پلان (NAP) پر مکمل اور سنجیدہ عملدرآمد ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب اس پلان پر سنجیدگی سے کام ہوا تو دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی، مگر سیاسی عدم استحکام، حکومتی تبدیلیوں اور پالیسی کے تسلسل کی کمی نے اس عمل کو متاثر کیا۔
طارق سمیر نے افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد خطے میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا۔چھوڑا گیا جدید اسلحہ، گاڑیاں اور دیگر فوجی ساز و سامان غیر ریاستی عناصر کے قبضے میں چلا گیا، جسے اب پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردافغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں گھس کر کارروائیاں کر رہے ہیں، اور پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں کے لیے یہ ایک مسلسل اور سنجیدہ خطرہ ہے۔
انٹرویو کے دوران طارق سمیر نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ افغانستان میں موجودہ حکومت اوربھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط پاکستان کی سلامتی کے لیےسفارتی اور سیکیورٹی سطح پر بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑنے کے لیے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کر سکتا ہے۔
حل کیا ہے؟
طارق سمیر نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کوچند بنیادی اقدامات فوری طور پر اٹھانے کا مشورہ دیا:
1۔نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد
2۔انٹیلی جنس شیئرنگ کو مؤثر بنانا
3۔سرحدی نگرانی کو مضبوط کرنا
4۔افغان حکومت سے دوٹوک سفارتی بات چیت
5۔عوام کو دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیے میں شامل کرنا
ان کا کہنا تھا کہ اگر ریاستی ادارے، سیاسی قیادت اور عوام متحد ہو کر ان نکات پر عمل کریں تو دہشت گردوں کو شکست دینا ممکن ہے۔ بصورت دیگر، صرف مذمتی بیانات اور وقتی ردعمل سے بات نہیں بنے گی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

افغانستان پرحملہ نہیں کیا، پاکستان کارروائی کا باقاعدہ اعلان کرتا ہے: آئی ایس پی آر

 

راولپنڈی (نیوزڈیسک) ڈی جی آئی ایس پی آر نے سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغانستان پر حملہ نہیں کیا، پاکستان جب بھی کارروائی کرتا ہے اس کا باقاعدہ اعلان کرتا ہے، ہماری پالیسی دہشتگردی کیخلاف ہے، ہماری پالیسی افغان عوام کے خلاف نہیں ہے۔

تفصیلا ت کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ کورٹ مارشل کے معاملے پر قیاس آرائی سے گریز کیا جائے، فیض حمید کا کورٹ مارشل ایک قانونی اور عدالتی عمل ہے جیسے ہی عملدرآمد ہو گا،کوئی فیصلہ آئے گا توبتائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سرحد پار سے دہشتگردی کی معاونت سب سے بڑا مسئلہ ہے، پاک افغان بارڈر پر اسمگلنگ اور پولیٹیکل کرائم کا گٹھ جوڑ توڑنے کی ضرورت ہے، بیرون ممالک سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ریاست کے خلاف بیانیہ بنا رہے ہیں، ہمارا مسئلہ افغان عبوری حکومت سے ہے، افغانستان کے لوگوں سے نہیں۔

دہشتگردی کیخلاف مربوط جنگ لڑنے کیلئے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا، دہشتگردوں کے خلاف قابل تصدیق کارروائی تک بات چیت نہیں ہو گی، پاکستان کے عوام اور افواج دہشتگردوں کے خلاف متحد ہیں، دہشتگردوں کا آخری دم تک پیچھا کیا جائے گا، افغان رجیم دہشتگردوں کے ٹھکانوں کے خلاف قابل تصدیق کارروائی کرے۔

ہماری نظر میں کوئی گڈ اور بیڈ طالبان نہیں ، دہشتگردوں میں کوئی تفریق نہیں ، 2021 سے 2025 تک ہم نے افغان حکومت کو باربار انگیج کیا، خوارج دہشتگردی کیلئے افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ استعمال کرتے ہیں، طالبان حکومت کب تک عبوری رہےگی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہناتھا کہ 4نومبر کے بعد سے اب تک 206 دہشتگرد مارے گئے، خودکش حملے کرنے والے سب افغان ہیں، خیبرپختونخوا،بلوچستان میں 4910آپریشن کیے گئے۔

ان کا کہناتھا کہ پاکستان کبھی بھی شہری آبادی پر حملہ نہیں کرتا، افغان عبوری حکومت کے الزامات بے بنیاد ہیں،بلوچستان حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل کررہی ہے، جنوری سے اب تک 67623 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کئیے گئے ہیں، خیبر پختونخواہ میں 12,857 جبکہ بلوچستان میں 53,309 اور باقی پورے ملک میں 857 ہوئے ہیں۔

افغان اس وقت پاکستان میں مہمانوں کا کردار نہیں ادا کر رہے، کون سا مہمان کسی کے گھر کلاشنکوف لے کر جاتا ہے، کون سا مہمان دہشتگردی پھیلاتا ہے میزبان کے گھر ؟ افغانستان کے ترجمان وزرات خارجہ کا ایکس اکاؤنٹ بھارت سے آپریٹ ہوتا ہے، اس سے بڑا چشم کشا انکشاف کیا ہو گا۔

پاکستان نے خطے میں اپنا کردار پر امن ملک کے طور پر بخوبی نبھایا، مگر بد معاشی کا جواب دینا جانتے ہیں، دوحہ مذاکرات میں پاکستان کی پوزیشن واضح تھی اور جو دہشت گردوں کے خلاف پاکستان نے ثبوت دیے انہیں افغان حکام جھٹلا نہیں سکے، سوال یہ ہے دہشت گرد امریکی ساختہ اسلحہ استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں ہونے والے گزشتہ چند سالوں میں کے واقعات میں امریکی ساختہ ہتھیار استعمال ہوئے، پاکستان نے امریکی حکام سے یہ معاملہ اٹھایا ہے، ایف سی ہیڈ کوارٹر حملے پر ملوث دہشت گرد تیرہ سے آئے تھے، تیرہ میں دہشت گردوں کا گڑھ بن رہا ہے، تیرہ میں دہشت گردوں کی سیاسی سرپرستی ہو رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی تاجکستان میں چینی شہریوں کے قتل کی مذمت
  • پاکستان اور سعودی عرب کی مشترکہ عسکری مشق کامیابی سے مکمل
  • 4 اکتوبر کیس: عمر ایوب اشتہاری قرار، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم
  • دہشت گردوں کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی
  • خیبرپختونخوا حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
  • ایف سی ہیڈکوارٹر پر خودکش حملے کی تحقیقات میں پیش رفت، اہم انکشافات
  • افغانستان پرحملہ نہیں کیا، پاکستان کارروائی کا باقاعدہ اعلان کرتا ہے: آئی ایس پی آر
  • ہم شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے، پاکستان ہمیشہ اعلانیہ حملہ کرتا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • بی بی سی کے چیئرمین سمیر شاہ کے مبینہ ’بھارتی رابطوں‘ پر سوالات اٹھ کھڑے ہوئے
  • خیبرپختونخوا: بنوں میں فورسز کے آپریشن میں بھارتی حمایت یافتہ 22 دہشتگرد ہلاک