بھارت و پاکستان کی ایک اور ممکنہ جنگ ؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT
کیا بھارت اور پاکستان کی ایک اور جنگ ہونے جا رہی ہے؟ اس سوال کا تعلق مستقبل سے ہے اور غیب کا علم تو صرف اللہ تعالٰی کی ذات کو ہے۔ عام طور پر اگرکسی دو ممالک میں جنگ ہونے والی ہوتی ہے تو اس کا علم یا تو ان دونوں ممالک کی قیادت اور افواج کے پاس ہوتا ہے یا پھر جنگ رکوانے والے ملک کے پاس ہوتا ہے کہ جس کو آپ جنگ کروانے والا ملک بھی کہہ سکتے ہیں۔
جنگ رکوانے والے ملک کے پاس اس لیے کہ اس کو جنگ لڑنے والے ممالک سے زیادہ تیاری کرنی پڑتی ہے تاکہ صحیح وقت پر جنگ کو روکا جاسکے کہ جس کا مظاہرہ ہم تمام حالیہ جنگوں میں دیکھ بھی چکے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں۔
کچھ تجزیہ نگاروں کے حساب سے تو یہ جنگ ستمبر میں ہی شروع ہوجانی چاہیے تھی۔ اب ہم اس بات پر آتے ہیں کہ یہ جنگ ممکنہ کیوں ہے؟ یہ بات اب کھل کر سامنے آرہی ہے کہ پہلگام والا واقعہ بھارتی اور اسرائیلی خفیہ اداروں کی کارروائی تھی اور اس کو جواز بنا کر ہندوستان پاکستان پر حملہ آور ہوا۔
پہلگام والے واقعے سے پہلے ہندوستان نے خود کو خطے کا ’’چوہدری‘‘ سمجھنا شروع کردیا تھا اور چین کو بھی پیغام دے رہا تھا کہ اب حالات 1962 والے نہیں ہے کہ جس میں چین اور ہندوستان کی جنگ ہوئی تھی اور آج کا ہندوستان اس وقت کے ہندوستان سے بہت مختلف ہے۔
سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی کرسی ان کو اپنی دسترس میں نظر آرہی تھی۔ پشت پر امریکا کھڑا تھا اور پورا یورپ اس کے گرد ہالہ کیے ہوا تھا۔ روسی تیل کے کاروبار سے چاروں طرف سے ہن برس رہا تھا، گویا پانچوں انگلیاں گھی میں اور سرکڑاہی میں تھا۔
اسی زعم میں آکر ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کردیا لیکن پاکستان کے جواب نے اس کے چودہ طبق روشن کر دیے،گویا کسی نے کڑاہی کے نیچے آگ جلا کر اس میں ہندوستان کا سر دے دیا۔ ہندوستان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان ایسا جواب دے گا۔
اپنے حملے کے بعد اس نے تمام سفارتی ذرایع سے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس حملے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے اور جواب نہ دے۔ ہمارے اپنے برادر ملکوں نے ہمیں جواب نہ دینے کا مشورہ دیا لیکن ہماری بہادر افواج نے اس حملے کا وہ دندان شکن جواب دیا، آپریشن بنیان مرصوص کے ذریعے کہ ہندوستان آج تک نہ صرف وہ زخم چاٹ رہا ہے بلکہ مستقل بلبلا بھی رہا ہے۔
اس جنگ میں چونکہ اسرائیل اور ہندوستان اتحادی تھے تو اسرائیل نے تو قطر میں حماس پر حملہ کر کے اپنی جنگی ساکھ بحال کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور اب ہندوستان بھی اپنی ساکھ بحال کرنے کا موقعہ تلاش کر رہا ہے۔
ہندوستان اس حد تک پاگل ہوچکا ہے کہ وہ اس جنگ کو کھیل کے میدانوں تک لے گیا ہے اور وہ کھیل جو کبھی جنٹلمین یا شرفاء کا کھیل سمجھا جاتا تھا، اب کھیل نہیں بلکہ جنگ بن چکا ہے اور یہ میں نہیں بلکہ ہندوستان کا وزیر اعظم کہہ رہا ہے کہ ہم آپریشن سندور کوکھیل کے میدانوں تک لے گئے ہیں۔
مجھے مودی کی تقریر کا ایک کلپ سننے کا اتفاق ہوا ہے جو سماجی ذرایع ابلاغ پر ہے کہ جس میں مودی پاکستان کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہے کہ ’’ آپ کے جنرل کا مجھ پر ایسا قرض ہے جو میں نے ہر قیمت پر چکتا کرنا ہے۔
آپ کے جنرل نے جو کانڈ کیا ہے مودی کی آتما اب تک بدلے کی آگ میں جل رہی ہے۔‘‘ میرے خیال سے تو اس کی آتما اس وقت جلتی رہے گی جب تک کہ اس کا جسم کہ جس کو یہ لوگ شریرکہتے ہیں، آگ میں نہیں جل جاتا۔ اس نے مزید یہ کہا ہے کہ ’’ وہ اب بدلہ لیے بغیر رکنے والا نہیں ہے اور جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور ابھی جاری ہے اور اب ہم پوری تیاری کے ساتھ پاکستانی فوج پر حملہ کریں گے۔‘‘
ہندوستانی وزیراعظم کے اس بیان کو اور ان کی فوج کے سربراہ کے حالیہ بیان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور ہماری فوج کے ترجمان اور ہمارے وزیر دفاع نے اس کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ اس دفعہ مختصر جنگ نہیں ہوگی۔ جنگ مختصر ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہندوستان کوئی کارروائی کرے اور ہم اسے برداشت کر جائے۔ فوج کے ترجمان اور وزیر دفاع کہہ چکے ہیں کہ اس دفعہ کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا جواب پہلے سے بھی زیادہ شدید اور سخت ہوگا۔
گویا یہ تو طے ہوگیا کہ جنگ طویل ہوگی۔ اس جنگ میں ہمیں دنیا کا بالعموم اور چین کا بالخصوص تعاون درکار ہوگا۔ دنیا کے تعاون کے لیے ابھی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سیر سپاٹے نہیں بلکہ سنجیدہ کام کی ضرورت ہے۔ مغربی دنیا لگا تار ایسی کوششیں کر رہی ہے کہ ہمارے اور چین کے درمیان اعتماد کی فضا متزلزل ہوجائے۔
امریکا کو اڈا دینے کی افواہ اس کی کڑی ہے کہ جس پر چین کی جانب سے شدید رد عمل آیا۔ یہ وقت ہماری قیادت سے انتہائی اعلیٰ درجے کی سفارت کاری، دانش مندی اور برد باری کا متقاضی ہے لیکن جب ہم اپنے سیاستدانوں کی جانب دیکھتے ہیں اور ان کی آپس کی چپقلش اتنے اہم وقت پر قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دے رہی ہے۔ اس وقت ان کی صفوں میں اتحاد ہونا چاہیے اور دشمن کے خلاف ہمیں بنیان مرصوص بننے کی ضرورت ہے۔
آخر میں تھوڑی سی بات جنگ کے حوالے سے اور اختتام۔ جنگ کے عام طور پر تین میدان ہوتے ہیں۔ سمندر، فضا اور زمینی جنگ۔ حالیہ معرکے کے بعد میرا نہیں خیال کہ ہندوستان دوبارہ فضا سے اس کا آغاز کرے گا۔
پتہ نہیں کیوں مجھے یہ لگ رہا ہے کہ اس دفعہ اس کا آغاز سمندر اور زمین سے ہوگا اور ہندوستان میزائل پر زیادہ انحصارکرے گا،کیونکہ پچھلی دفعہ وہ ڈرون کا انجام دیکھ چکے ہیں۔ فضائیہ کا کردار دفاعی ہوگا اور وہ اپنے زمینی اور سمندری اثاثوں کی حفاظت پر زیادہ مامور ہوں گے۔
مودی نے یہ بھی دھمکی دی ہے کہ اس دفعہ یہ لوگ بھرپور تیاری کے ساتھ حملہ کریں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری بہادر افواج کی بھی تیاریاں مکمل ہوں گی لیکن خیال رہے کہ یہ ایک اور دس کا مقابلہ ہے۔ ہمارا دفاعی بجٹ ساٹھ یا باسٹھ ارب ڈالرز ہے اور ہندوستان کا دفاعی بجٹ چھ سو سے زائد ارب ڈالرزکا ہے۔
ایسا ہی تناسب ان کے اور ہمارے کل بجٹ میں ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں تو یہ تناسب اور بھی زیادہ ہے۔ جنگ صرف اسلحے اور آلات کی ہی جنگ نہیں ہوتی، اصل جنگ تو جذبے کی جنگ ہوتی ہے کہ جس میں ہمارے بہادر جوانوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
جنگ کے سخت لمحات میں ہندوستانیوں کو اپنی فیملی یاد آجاتی ہے یقین نہ آئے تو ابھی نندن کے جوابات پڑھ لیجیے جب کہ ایسے لمحات میں ہمارے شیر شہادت کا سوچتے ہیں اور وہ جن کی نئی نئی شادی ہوئی ہوتی ہے وہ بھی ہنستے ہوئے شہادت کو گلے لگا لیتے ہیں۔
اس جذبے، ہمت اور جرآت کے بعد آپ کو جنگ کا نتیجہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ ’’ اگر ‘‘ یہ جنگ ہوئی تو فوج تو پوری طرح تیار ہیں۔ کیا قوم اور سیاستدان بھی اس کے لیے اسی طرح تیار ہے اگر وقت ملے تو اس پر ضرور سوچیے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور ہندوستان کہ ہندوستان ہندوستان ا کہ اس دفعہ ہے کہ جس حملہ کر پر حملہ ہے اور رہا ہے رہی ہے اور ہم یہ جنگ
پڑھیں:
افغانستان ہمارا ہمسائیہ تو ہے لیکن برادر ملک ثابت نہیں ہوا ، تجزیہ کار سلمان غنی
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)سینئر تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا ہے کہ افغانستان ہمارا ہمسائیہ تو ہے لیکن برادر ملک ثابت نہیں ہوا ، پاکستان کا واضح موقف ہے کہ ہم افغان حکومت کے خلاف نہیں کھڑے بلکہ افغانستان میں جو عناصر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں ان کےخلا ف ہیں۔ہم سمجھتے تھے کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے بعد اب یہ افغان حکومت کا رویہ پاکستان کے لیے مختلف ہو گا لیکن ایسا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کی اس جارحیت کے بعد پاکستان کو ایک جواز مل گیا کیونکہ اس سے پہلے پاکستان بہت زیادہ تنگ تھا ،بار ہا شواہد دینے کے باوجود سرحد پار دہشت گردی ختم نہیں ہوئی، اب تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کا فرق ختم ہو گیا کیونکہ انہوں نے بھی وہ ہی حرکت کی جو ٹی ٹی پی کر رہی تھی۔تجزیہ کار کاکہناتھا کہ اس ساری صورتحال میں جس طرح پاکستان نے افغانستان کو بھر پور جواب دیا اس سے کابل کو پیغام پہنچ گیا ، 10مئی کے بعد کا پاکستان بہت مضبوط ہے، در حقیقت بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ دنیا کا کوئی ملک بھی بھارت کے ساتھ نہیں کھڑا اور بھارت کو جو بدلے کا بخار چڑھا ہوا ہے ، جب تک کوئی ملک اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہو گا تب تک وہ جرات نہیں کر سکتا ۔
پاک فوج کی ایک اور اہم کامیابی، خارجی سہولت کار عصمت اللّٰہ کرار کیمپ مکمل تباہ
دنیا نیوز کے پروگرام'تھنک ٹینک ، میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان وزیر خارجہ کادورہ بھارت پاکستان کے لیے پیغام ہے ، پاکستان نے دفاعی حکمت عملی اپنائی، جس طرح بھارت پاکستان کوسبق سکھانے کی بات کر رہا تھا تو اس پر پاکستان کاموقف واضح ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان پر جارحیت مسلط کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیں گے اور پھر پاکستان نے ایسا جواب دے کر بھی دکھا دیا، اب طالبان بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہے ہیں اور افغان وزیر خارجہ کے دورے کی ٹائمنگ اہم ہے، جس طرح ہمارا سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہوا ہے ہو سکتا ہے کہ دہلی میں افغانستان اور بھارت کے درمیان بھی معاہدہ ہواہو۔ سلمان غنی نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ خطے کے استحکام کے لیے افغانستان میں امن ضروری ہے اور ہم نے اس کے لیے بہت کام کیا لیکن افغانستان سے کبھی خیر کی خبر نہیں آئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ جب پہلی بار برسر اقتدار آئے تھےتو انہوں نے افغانستان کے حوالے سے ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا تھا ۔ افغانستان نے دوحہ معاہدے میں یہ لکھ کر دیا تھا کہ ہماری سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
اب سے افغانستان کے لیے واضح ترین پیغام
مزید :