افغانستان سے اٹھنے والی دہشتگردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے: پاک فوج
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے کہا ہے کہ بھارت خطے میں دہشتگردی کو ہوا دینے والا سب سے بڑا سہولت کار بن چکا ہے، لیکن پاکستان کسی صورت افغان سرزمین کو دہشتگردی کے لیے استعمال ہونے نہیں دے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان جھڑپیں: 200 سے زیادہ طالبان و دہشتگرد ہلاک، 23 پاکستانی جوان شہید، دہشتگردی کے درجنوں ٹھکانے تباہ
آئی ایس پی آر کے مطابق طالبان حکومت بعض دہشتگرد گروہوں کی معاونت اور سرپرستی میں ملوث ہے، جو بھارت کے ساتھ مل کر خطے کے امن و استحکام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ طالبان انتظامیہ کو دہشتگرد تنظیموں کی حمایت ترک کرنی ہوگی۔ پاکستانی قوم اور ریاست اُس وقت تک خاموش نہیں بیٹھیں گے جب تک افغانستان سے جنم لینے والی دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا۔
آئی ایس پی آر نے زور دیا کہ طالبان حکومت فوری اور قابلِ تصدیق اقدامات کے ذریعے اپنے ملک میں موجود دہشتگرد گروہوں کو ختم کرے۔
آئی ایس پی آر نے دوٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہاکہ اگر طالبان انتظامیہ نے دہشتگرد عناصر کے خلاف مؤثر کارروائیاں نہ کیں تو پاکستان اپنے عوام کے تحفظ کے لیے ایسے اہداف کو خود نیوٹرلائز کرتا رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افواج کی پیشہ ورانہ مہارت پر فخر، دفاع وطن پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا، وزیراعظم شہباز شریف
فوجی ترجمان کے مطابق طالبان حکومت کو کسی بھی اشتعال انگیز یا خطرناک اقدام سے گریز کرنا چاہیے اور اپنی توجہ افغان عوام کی بہتری، امن، ترقی اور خوشحالی پر مرکوز رکھنی چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغانستان دہشتگردی پاک افغان کشیدگی دہشتگرد تنظیمیں وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان دہشتگردی پاک افغان کشیدگی دہشتگرد تنظیمیں وی نیوز آئی ایس پی آر
پڑھیں:
پاک افغان جنگ: محرکات، اسباب، وجوہات کو جانیے اور سمجھیے
مفتی عبدالرحیم صاحب پاکستان کےممتاز عالم دین، استاد اور ایک بہت اہم دینی مدرسہ جامعتہ الرشید کے سربراہ ہیں۔ مفتی صاحب کا تعلق دیوبند مکتب فکر کے بڑے اور کلیدی اسکالرز میں ہوتا ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ ان کی شفقت حاصل ہے اور ہر ملاقات میں وہ خاصا وقت دیتے اور تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل ان سے لاہور میں ملاقات ہوئی تو باتوں میں انہوں نے اچانک کہا، پاکستان کو بھارت سے بھی بڑا خطرہ افغانستان سے ہے۔ (یہ مئی کی پاک بھارت جنگ سے پہلے کی بات ہے۔)
یہ بات سن کر میں چونک اٹھا۔ اس لیے بھی مفتی عبدالرحیم صاحب کا افغانستان سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ ان کی زندگی کا خاصا بڑا حصہ افغانستان میں گزرا اور وہ وہاں کے چپہ چپہ سے واقف ہیں۔ کوئی عام افغان اپنے ملک کو اتنا نہیں جانتا ہوگا۔ ملا عمر کی حکومت کے برسوں میں مفتی صاحب مستقل وہاں مقیم رہے، عیدین تک وہاں گزاریں اور مقامی افغان عوام کے لیے کئی چیریٹی پراجیکٹس چلاتے رہے جن میں مفت روٹی کے تندور بھی شامل تھے۔ پھر طالبان حکومت ختم ہوجانے کے بعد امریکا کے خلاف طالبان کی 20 سالہ جدوجہد میں بھی یہ ان کے قریب رہے۔ افغان طالبان کے لیے بہت کچھ کیا، جسے پبلک نہیں کیا اور شائد کبھی آ بھی نہیں سکے کہ باظرف لوگ اپنے احسان گنوایا نہیں کرتے۔ تاہم افغان مزاحمت کے محرم راز اور اہم طالبان لیڈر یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔
افغان امور کے ایسے باخبر اور انتہائی اندر تک معلومات رکھنے والے سنجیدہ، باوقار اور انتہائی معتبر راوی کی یہ بات بڑی خطرناک اور گمبھیر تھی۔ میرے استفسار پر انہوں نے وضاحت کی کہ بھارت ایک بڑی فوجی قوت ہے ، مگر پاکستان نے اس کے توڑ کے لیے مناسب عسکری انتظامات کر رکھے ہیں، ہماری فوج کی تمام تر پریکٹس اور غور وفکر ہی کسی ممکنہ بھارتی حملے کو کاؤنٹر کرنے میں صرف ہوتی ہے۔ افغانستان البتہ زیادہ بڑا خطرہ اس لیے ہے کہ ایک تو اس کے ساتھ بہت لمبی سرحد ملتی ہے۔ پاکستان کی اتنی لمبی سرحد کسی بھی دوسرے ہمسایے کے ساتھ نہیں ملتی۔ پھر پاک افغان سرحد میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں باڑ کے باوجود دراندازی ممکن ہے۔ سرحد پار سے دہشتگردوں کی آمد روکنا آسان نہیں، دوسرا بڑا اور اہم ترین پہلو یہ ہے کہ بھارت کو پاکستان میں سپورٹ حاصل نہیں یا قابل ذکر سپورٹ موجود نہیں جبکہ مختلف وجوہات کی بنا پر افغان طالبان کی پاکستان میں حمایت اور نرم گوشہ موجود ہے۔ جبکہ خوارج الہند یعنی ٹی ٹی پی کے بھی یہاں بہت سے سہولت کار اور حامی موجود ہیں۔
مفتی عبدالرحیم صاحب نے یہاں تک کہا کہ ان (بدبخت) سہولت کاروں کی تعداد لاکھوں میں ہوسکتی ہے اور دینی حلقے میں بھی ان کی اچھی خاصی سپورٹ موجود ہے۔ انہوں نے پھر بتایا کہ اسی وجہ سے تو میں نے اس ایشو پر گفتگو کی ایک ویڈیو پوڈ کاسٹ سیریز شروع کر رکھی ہے جس میں افغان طالبان کے غلط بیانیہ اور ٹی ٹی پی کے شرانگیز جھوٹے پروپیگنڈے کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی گفتگو سے پتا چلا کہ لال مسجد کے بارے میں جو مبالغہ آمیز اور جھوٹا پروپیگنڈا مولانا عبدالعزیز نے برسوں سے کر رکھا تھا تھا، اس کے خلاف مفتی صاحب نے اپنی ایک حالیہ ویڈیو پر گفتگو کیوں کی؟ اس لیے کہ ٹی ٹی پی کے قائد نور ولی محسود نے اپنی ایک تازہ ویڈیو میں دانستہ لال مسجد آپریشن کا حوالہ دے کر پاکستانی فوج کے خلاف زہر اگلنے اور عام لوگوں کو ’ایموشنل بلیک میل‘ کرنے کی کوشش کی۔ مفتی صاحب نے تب سوچا کہ ہم اس موضوع پر بات نہیں کرتے، مگر اب وقت آگیا ہے کہ سب کچھ کھل کر بولا جائے۔
مفتی عبدالرحیم صاحب کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بہترین معلومات اور افغانستان میں حکومتی حلقوں کے اندر تک رسائی رکھنے والے سورسز کی بنا پر پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان حکومت کی پوری حمایت حاصل ہے۔ ان جنگجوؤں کے باقاعدہ ماہانہ وظائف لگے ہوئے ہیں، ان کے کیمپوں کو فنڈنگ کی جاتی ہے اور افغان حکومت کی مرضی، سپورٹ اور ان کی پلاننگ کے تحت ہی ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشتگردی کی یہ کارروائیاں کر رہی ہے۔ مفتی عبدالرحیم صاحب یہ سب کچھ بتاتے ہوئے بڑے دل گرفتہ تھے۔ تمام زندگی انہوں نے ان افغان طالبان کی حمایت کی کیونکہ ان کا مؤقف تب اصولی تھا اور یہ غیر ملکی قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔ بدقسمتی سے جب ان افغان طالبان کو رب نے اقتدار دیا تو اس امانت کی حفاظت کرنے کے بجائے انہوں نے ناشکری، احسان فراموشی کو شعار کیا اور اپنے ہی محسنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی شرمناک کاوش کی۔
مفتی صاحب کو اس پر بہت دکھ تھا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کوافغانستان سے خبردار اور ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ یہ کسی بھی وقت پاکستان پر حملہ کی جسارت بھی کر سکتے ہیں، اگرچہ ایسا حملہ انہیں مہنگا پڑے گا۔ پاکستانی قوم کو مگر افغانستان کی جانب سے ایسے حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ افغان طالبان پاکستان کے خلاف کچھ بھی کر سکتے ہیں کیونکہ ان کا آقا اور سرپرست انڈیا اور وہاں سے ملنے والے پیسے ہیں۔
کل شام سے میں سوچ رہا ہوں کہ یہ درویش صفت مفتی عبدالرحیم صاحب بڑے بڑے پاکستانی تجزیہ کاروں سے کس قدر زیادہ دوراندیش اور دانشمند نکلے۔ ہم میں سے بہت سوں کو ابھی تک امید تھی کہ افغان طالبان کے ساتھ معاملات ٹھیک ہوجائیں گے، کسی نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ واقعی افغان طالبان پاکستان پر سرحد کے ساتھ سات مختلف مقامات پر پوری قوت سے ہلہ بول دیں گے اور پاکستانی چوکیوں کو بے رحمی کے ساتھ نشانہ بنائیں گے؟ یہ تو پاک فوج الرٹ اور مستعد تھی اور الحمداللہ ہمارے پاس وہ قوت بھی موجود ہے کہ افغانستان جیسے بے شمار پدی ممالک کے پرخچے اڑا دیں، ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات سب نے یہ دیکھ بھی لیا۔
پاک افغان تنازع پر ہمارے ہاں ایک فکری بحث بھی چل رہی ہے، سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے بعض سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں، ان کے جوابات مشکل نہیں مگر چونکہ مقصد دانستہ طور پر کنفیوژن اور ابہام پیدا کرنا ہے اور پاکستانی عوام کو تقسیم کرنا مقصد ہے، اس لیے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان سوالات کو لے کر ان کا جواب دیا جائے۔
کیا یہ امریکا کی جنگ ہے؟سوشل میڈیا پر بعض لوگ خاص کر ایک سیاسی جماعت کے کارکن یہ بات بار بار دہرا رہے ہیں کہ یہ پاکستان کی جنگ نہیں، یہ امریکا کی جنگ ہے اور چونکہ صدر ٹرمپ نے بگرام ایئر بیس لینے کی بات کی تو پاکستان اسی لیے افغانستان سے الجھ رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ سچی بات یہ ہے کہ اس سے زیادہ جاہلانہ اور احمقانہ بات میں نے اس پورے سال میں نہیں سنی نہ پڑھی۔ یہ امریکا کی جنگ نہیں اور نہ امریکا افغانستان کے خلاف جنگ چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں موجود رئیر ارتھ منرلز میں انہیں بھی حصہ مل جائے۔ بگرام ایئر بیس واپس لینے کی بات صرف ایک پریشر ڈالنے کی بات تھی، اس پر امریکیوں نے زور ہی نہیں دیا۔
جنگ امریکا کی نہیں پاکستان کی ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستان پر حملے کر رہی ہے، امریکی اڈوں پر نہیں۔ مسئلہ اور مشکل پاکستان کو درپیش ہے۔ پاکستانی فوجی جوان، افسر اور عام شہری شہید ہورہے ہیں۔ امریکا کا اس میں کیا نقصان ہے؟ اسے کیا مسئلہ ہوگا؟ کچھ بھی نہیں۔
امریکی صرف اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں، اس وقت افغانستان سے وہ ہرگز جنگ نہیں کرنا چاہتے نہ الجھنا مقصود ہے۔ وہ تو صرف مختلف طریقوں سے افغان طالبان حکومت سے کچھ رعایت لینا چاہتے ہیں اور یہ کام امریکا کر لے گا کیونکہ اس کے پاس کئی ایسے حربے ہیں، وہ افغانستان میں ہر ہفتے آنے والے ڈالروں کی سپلائی روک لے تو افغانستان فوری دیوالیہ ہوجائے۔ افغانستان کے پاس کیا ہے بیچنے والا؟ اور کون کہاں سے خرید کر لے جائے گا؟ ہر ہمسایے سے تو اس کی لڑائی ہے۔ اس لیے بھائی جی یہ امریکا کی نہیں پاکستان کی جنگ ہے۔ اتنی سادہ بات جسے سمجھ نہیں آتی، وہ جا کر کارٹون چینل دیکھا کرے۔
یہ معاملہ مذاکرات سے حل کیوں نہیں کیا جا رہا؟یہ انتہائی معصومانہ اور بچگانہ سوال بھی بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں۔ جواب سادہ ہے، اس لیے کہ افغان حکومت ایسا نہیں چاہتی۔ مذاکرات ہمیشہ دو طرفہ ہوتے ہیں۔ جب کوئی ملک ایک چیز ماننے کو تیار ہی نہ ہو تو پھر کیسے مذاکرات ہوسکتے ہیں؟ ویسے اگر ہر بات مذاکرات سے حل ہوجائے تو دنیا سے جنگیں ختم ہی ہوجائیں۔ پھر تو فوج رکھنے کی بھی ضرورت نہیں، صرف محکمہ خارجہ ہو، مذاکرات کرنے والے ماہرین ہوں اور بس کام چل جائے۔ ایسا نہیں ہوتا بھیا جی، دنیا میں ہر بات مذاکرات سے نہیں منوائی جاتی۔ کہیں پر قوت کا استعمال بھی کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات گھی ٹیڑھی انگلی سے بھی نکالا جاتا ہے۔ ویسے پچھلے تین برسوں سے مسلسل مذاکرات ہی ہو رہے ہیں۔ بے شمار دورے ہوچکے، بہت سے مذاکرات کے دور چلتے رہے۔ حتیٰ کہ چین کی موجودگی میں بھی مذاکرات ہوتے رہے، مگر کوئی حل نہیں نکل پا رہا۔
پاکستان افغانستان تنازع کیا ہے؟اس وقت پاکستان کی طرف سے کوئی تنازع بھی نہیں، پاکستان نے طالبان حکومت کی مکمل حمایت کی، ان کے حق میں ہر جگہ بات کی۔ ان کے ساتھ تجارت اور کوئلہ کی ایکسپورٹ کی بات کی، مگر افغان طالبان حکومت کا رویہ مسلسل معاندانہ، مخالفانہ اور منفی رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دو ڈھائی سال پہلے جب پاکستان نے کہاکہ ہم بجلی کی کاسٹ کم کرنے کے لیے افغانستان سے کوئلہ منگوائیں گے کہ یہ ہمیں ٹرانسپورٹیشن کم ہونے کی وجہ سے سستا پڑے گا۔
آپ جانتے ہیں کہ افغان حکومت نے تب کیا کیا تھا؟ پاکستانی حکومت نے جیسے ہی یہ بات کی، انہوں نے اپنے کوئلے کا ریٹ ڈبل کردیا۔ جی ڈبل۔ کبھی ایسا بھی دنیا میں ہوتا ہے؟ افغانستان کے پاس دنیا کو بیچنے کے لیے ہے کیا؟ اگر کوئلہ بک رہا ہے تو بھائی بیچو اور پیسے کماؤ۔ صرف اس لیے کہ کہیں پاکستان کو نفع نہ ہوجائے، فائدہ نہ پہنچے، افغان حکومت نے کوئلے کی قیمت دگنی کردی، اس کے باوجود پاکستان نے افغانستان کے خلاف کچھ نہیں کیا۔
پاکستان کی جانب سے کوئی جتھہ، گروپ یا تنظیم ایسی نہیں جو افغانستان جا کر کارروائی کرتی ہو؟ ایک بھی مثال نہیں۔ خود افغان حکومت کو بھی کبھی شکایت نہیں رہی۔ ابھی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے انہوں نے پاکستان میں داعش کی موجودگی کی بات کردی ہے، مگر یہ بات ہی نہایت کمزور اور فضول ہے کیونکہ داعش تو پاکستان کی بھی دشمن ہے۔ وہ تو پاکستانی ریاست ہی کے خلاف ہیں۔ پاکستان انہیں کیسے سپورٹ کر سکتا ہے؟ ہم نے ماضی میں بہت سے داعش ورکرز کو پکڑ کر سزائیں دی ہیں اور دنیا بھر کو اس حوالے سے اپ ڈیٹ رکھا ہوا ہے۔
اصل تنازع افغانستان سے آنے والے دہشتگرد ہیںاس پورے معاملے کا اہم ترین نکتہ یہی ہے کہ چونکہ پاکستان میں دہشتگردی کرنے والے خوارج الہند یعنی ٹی ٹی پی کے لوگوں کو افغان حکومت نے پناہ دے رکھی ہے، انہیں مکمل سپورٹ مل رہی ہے۔ اس لیے پاکستان کو شکایت ہے اور بار بار یہ بات اٹھائی جاتی رہی ہے۔
کہنے کو افغان طالبان حکومت کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں ٹی ٹی پی نہیں اور ہم ان کی سپورٹ نہیں کر رہے، مگر یہ صرف باتیں ہیں، نری بیکار اور بے وزن باتیں۔ تمام تر انٹیلی جنس ثبوت موجود ہیں کہ افغان طالبان حکومت ان خوارج گروپوں کو مکمل فنڈنگ اور سپورٹ دے رہی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ کابل میں جس گاڑی پر حملہ کیا گیا، وہ نورولی محسود کی تھی، بم پروف بیش قیمت گاڑی۔ اتفاق سے وہ اس حملے میں بچ گیا، مگر اس کے قریبی ساتھی مارے گئے۔ میں نے دو سال قبل کابل کا وزٹ کر رکھا ہے، مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ کابل میں کس قدر سیکیورٹی ہے اور ہر گاڑی کو کس طرح چیک کیا جاتا ہے۔ ایک کالے شیشے والی بم پروف مہنگی گاڑی کو کیسے ممکن ہے کہ چیک کیے بغیر جانے دیا جائے؟
یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ نور ولی محسود کابل میں یوں آزادانہ پھر رہا ہو اور افغان طالبان حکومت کو خبر ہی نہ ملے۔ افغان طالبان کا مضبوط جاسوسی نیٹ ورک ہے، انہیں اس لیے ہوشیار اور مستعد رہنا پڑتا ہے کہ کہیں داعش کے جنگجو یا پھر شمالی اتحاد کے لڑاکے ان پر حملہ نہ کر دیں۔ اس لیے کابل، پکتیکا، کنڑ یا جہاں کہیں ٹی ٹی پی کے کیمپس، سیف ہاؤسز وغیرہ ہیں، ان سب کا طالبان کو اچھی طرح پتا ہے، وہ انہیں سپورٹ کررہے ہیں، پیسے دے رہے ہیں، ان کو مکمل سپلائی لائن فراہم کی جاتی ہے۔
پاک افغان تنازع کا اگر کوئی تجزیہ کررہا ہے اور وہ ٹی ٹی پی کیمپس کا ذکر نہیں کر رہا تو سمجھ لیں کہ وہ تجزیہ ناقص، ادھورا، تشنہ اور نامکمل ہے۔ یہ بنیادی ایشو ہے، یہ مسئلہ اگر حل ہوجائے تو پاکستان اور افغانستان کے مابین کوئی بڑا ایشو موجود نہیں۔
افغانستان کے دوسرے ہمسائے کیوں ناخوش ہیں؟اسٹیبلشمنٹ سے سیاسی اختلاف رکھنے والے اس قومی ایشو کو بھی اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ وہ اسے کبھی امریکی جنگ کہہ دیتے ہیں، کبھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کر سکتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ آخر دیگر ہمسائیوں کو کیوں مسائل اور خدشات ہیں؟
کیا یہ ناقدین جانتے ہیں کہ ایران بھی افغان طالبان حکومت سے سخت ناخوش ہے۔ پچھلے چند ماہ میں کئی لاکھ افغانوں کو ایران سے نکالا جا چکا ہے۔ ایرانی حکومت نے پاکستان کو بتایا ہے کہ حالیہ بعض ایران دشمن کارروائیوں میں جو دہشتگرد مارے گئے ان 18 لوگوں میں سے 16 افغان شہری ہیں۔ ایران اس معاملے میں پاکستان کا ہم خیال ہے۔ حتیٰ کہ چین کی افغانستان میں بڑی انویسٹمنٹ ہے، اس کے باوجود چینی اور روسی بھی افغانستان میں موجود دہشتگرد گروپوں کی وجہ سے ناخوش ہیں اور شکایت کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کابل میں پاک چین افغانستان کے وزرا خارجہ اجلاس کا متفقہ اعلامیہ صرف اس لیے جاری نہیں ہوسکا تھا کہ اس میں افغانستان کے اندر مسلح گروپوں کا ذکر ہونا تھا، اس کے بعد چین کی جانب سے مؤقف میں مزید زور اور سختی آ گئی۔ اقوام متحدہ کی سائیڈ لائن ملاقاتوں میں چار ملکی یعنی ایران، روس، پاکستان، چین اجلاس اور پھر ماسکو فارمیٹ میں بھی افغانستان کے اندر مسلح گروپوں کی موجودگی کا تذکرہ ہوا۔ ان ملکوں کا آخر افغان حکومت سے کیا مسئلہ تھا؟ یہ تو پاکستان نہیں، یہ تو امریکا کے حامی نہیں، یہاں تو پاک فوج حکمران نہیں؟
آخری تجزیے میں ہم دیانت داری سے یہی بات تسلیم کرنا پڑے گی پاکستان افغان تنازع میں پاکستان درست جگہ پر ہے، حق پر ہے، افغانستان غلط سمت میں کھڑا ہے، غلط اور ناجائز مؤقف رکھتا ہے، ہمیں اس پر یکسو اور واضح مؤقف لینا چاہیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں