ٹرمپ بگرام ایئربیس کیوں واپس لینا چاہتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
6اکتوبر2025کو رُوسی دارالحکومت، ماسکو، میں افغانستان بارے ایک اہم کانفرنس (Moscow Formate Consultation)کا انعقاد ہُوا۔ اِس میں پاکستان ، بھارت ، افغانستان، رُوس، چین، ایران،قازقستان، کرغستان ،تاجکستان اور ازبکستان شریک ہُوئے ۔
شرکت کنندہ اِن ممالک نے اپنے مشترکہ اعلامئے میں کہا:’’افغانستان اور ہمسایہ ممالک میں کسی بھی بیرونی انفرااسٹرکچر اوراڈوں کا قیام ناقابلِ قبول ہے ۔‘‘مذکورہ اعلامئے میں امریکا کا نام تو نہیں لیا گیا تھا، لیکن اشارہ افغانستان کے بگرام ہوائی فوجی اڈّے ہی کی طرف تھا۔
بگرام ایئر بیس بارے امریکی صدر بالاصرار کہہ چکے ہیں: ہم اِسے واپس لیں گے۔ ستمبر2025کے دوسرے ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ صاحب برطانیہ کے سرکاری دَورے پر تھے ۔ جب وہ 16ستمبر کو برطانوی وزیر اعظم، کیئر اسٹارمر، کے ساتھ برطانوی شہر، بکنگھم شائر، میں جوائنٹ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے، اچانک ٹرمپ کہنے لگے: ’’ہم افغانستان میں موجود بگرام ایئر بیس واپس لے رہے ہیں‘‘ ۔
یہ دعویٰ ٹرمپ نے ایسے موقع پر کیا جب اُن سے کسی صحافی نے افغانستان یا بگرام ایئر بیس بارے کوئی سوال پوچھا بھی نہیں تھا ۔
تقریباً40ایکڑ پر پھیلا وسیع بگرام ایئر بیس افغان دارالحکومت، کابل، کے شمال میں 70کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے ۔یہ2011سے 2021 تک امریکی اور برطانوی قابض فوجوں کے زیر استعمال رہا۔یہ وہی بگرام ایئر بیس ہے جہاں پاکستان کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی( جو امریکی سامراج کے نزدیک ملزمہ و مجرمہ ہیں اور ہم پاکستانیوں کے نزدیک بے قصور و بے گناہ)پانچ سال تک امریکیوں کی قید میں رہیں ۔
اِسی ایئر بیس کی امریکی جیل میں امریکیوں نے یہ ڈرامہ رچایا کہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی نے امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی ۔ آجکل بے کس ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی جیل (فورٹ ورتھ) میں86 سال کی(ناجائز) سزا کاٹ رہی ہیں ۔
انھیں رہا کروانے کی ساری پاکستانی کوششیں ناکام و نامراد ہو چکی ہیں ۔اِسی بگرام ایئر بیس پر امریکیوں نے ایک بڑی جیل بھی بنا رکھی تھی جہاں مبینہ طور پر پانچ ہزار سے زائد افغانی (طالبان) قید رکھے گئے تھے ۔ یہی وہ بگرام ایئر بیس ہے جہاں سے مئی2011ء کو چند امریکی جنگی ہیلی کاپٹرز اپنے کمانڈو فوجیوں کے ساتھ اُڑے اور گہری رات کے اندھیرے میں ایبٹ آباد کے نزدیک بلال ٹاؤن میں موجود اسامہ بن لادن کے مبینہ ٹھکانے پر حملہ کیا اور اُسے ہلاک کر ڈالا اور اسامہ بن لادن کی لاش بھی ساتھ ہی لے گئے ۔
یوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بگرام ایئر بیس امریکیوں اور امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کے نزدیک کتنا اہم ہے اور اِس سے امریکی فوج کی کتنی یادیں جُڑی ہیں ۔
ستمبر 2025 کے دوسرے ہفتے میں برطانیہ میں کی گئی جوائنٹ پریس کانفرنس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا:’’ جو بائیڈن انتظامیہ نہائت احمق تھی (ٹرمپ نے جو بائیڈن انتظامیہ کے لیےStupidکا لفظ استعمال کیا تھا) بائیڈن نے افغانستان پر قابض ہوتے طالبان سے کچھ بھی لیے بغیر اور بغیر کسی ڈِیل کے ، بگرام ایئر بیس مفت میں طالبان جنگوؤں کے حوالے کر دیا تھا۔
اب مگر ہم اِسے واپس لینے جا رہے ہیں۔‘‘ویسے تو بگرام ایئر بیس سوویت رُوسی قابض افواج کے پاس بھی تقریباً ایک عشرہ تک رہا ، لیکن امریکی و اتحادی قابض افواج نے اِسے وسیع اور جدید ترین بنایا ۔ بگرام ایئر بیس پر دو بڑے رَن ویز بنائے جہاں سے امریکی جنگی جہاز ، جنگی ہیلی کاپٹرز اور جنگی سازو سامان سے لدے پھندے سی وَن تھرٹی جہاز لینڈ کرتے اور پروازیں بھرتے ۔
امریکی قابض فوجوں کے ساتھ زور آزمائی کرتے طالبان جنگجوؤں نے کئی بار بگرام ایئر بیس پر شب خون مارے ، مگر کبھی کامیاب نہ ہو سکے کہ بگرام ایئر بیس سیسہ پلائے نہائت مضبوط قلعہ کی مانند تھا۔
جولائی 2021 کو بگرام ایئر بیس اُس وقت طالبان کے قبضے میں چلا گیا جب امریکی فوجیں بگرام اور افغانستان سے شتابی میں نکل رہی تھیں ۔ سی این این کا دعویٰ ہے کہ جب امریکی فوجوں نے بگرام ایئر بیس خالی کیا، اُس وقت یہاں نہائت قیمتی اور بھاری بھر کم اتنا امریکی اسلحہ و دیگر سازوسامان پڑا تھا کہ 900 بڑے امریکی کارگو جہازوں میں بھی لادنا مشکل تھا۔
اِس کے علاوہ اِسی ایئر بیس پر ہزاروں کی تعداد میں جدید ترین جنگی رائفلز ، لاکھوں گولیاں ، نصف درجن جنگی ہیلی کاپٹرز اور 500سے زائد جنگی بکتر بند گاڑیاں موجود تھیں ۔ یہ جنگی ساز و سامان (خاص طور پر بندوقیں ، گولیاں ، راکٹ لانچرز) قابض طالبان جنگجوؤں نے بازاروں میں بھی فروخت کیے اور خوب پیسے کمائے ۔
اِن میں سے بہت سا بھاری اسلحہ اب ٹی ٹی پی کے ذریعے پاکستان کے خلاف بھی استعمال ہو رہا ہے۔یقیناً افغان طالبان کے ذریعے ہی یہ اسلحہ ٹی ٹی پی کے پاس پہنچا ہے ۔
سوال مگر یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بگرام ایئر بیس واپس اپنے کنٹرول میں کیوں لینا چاہتے ہیں؟ بعض ذمے دار امریکی اِس کا جواب اِن الفاظ میں دیتے ہیں: ’’(1) تاکہ امریکا یہاں بیٹھ کر اپنے طاقتور حریف، چین،پر نظریں رکھ سکے (2) یہاں سے چین صرف 500کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے؛
چنانچہ چین پر ہر وقت نظریں گاڑے رکھنا امریکا کے لیے نہائت سہل ہے (3)تاکہ بگرام ایر بیس پر موجود رہ کر امریکا، افغانستان کی قیمتی دھاتوں (Rare Earth Elements) پر قبضہ بھی جما سکے اور اِن کی مائننگ بھی کر سکے (4) تاکہ یہاں براجمان ہو کر امریکا ، افغانستان میں پاؤں پسارے داعش کی دہشت گردیوں کا بھی علاج کر سکے (5) اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر بگرام ایئر بیس امریکی قبضے میں آجائے تو کابل پر قابض طالبان سے سفارتی تعلقات بھی استوار ہو جائیں ۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’’اگر اُن کے دَورِ اقتدار میں امریکی فوجوں کو افغانستان سے نکلنا پڑتا تو وہ کبھی بگرام ایئر بیس نہ چھوڑتے ۔‘‘ برطانیہ میں جوائنٹ پریس کانفرنس کے دوران بگرام ایئر بیس واپس لینے کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حساس جملہ یہ بھی ادا کیا تھا:’’ہم بگرام ایئر بیس اس لیے بھی واپس لینا چاہتے ہیں کیونکہ بگرام ایئر بیس سے چین کا وہ بارڈر دُور نہیں ہے جہاں چین جدید میزائل بناتا اور محفوظ کرتا ہے ۔‘‘
وائیٹ ہاؤس کے راز دانوں کا کہنا ہے کہ مارچ2025 ہی سے ٹرمپ صاحب بگرام ایئر بیس افغان طالبان سے واپس لینے کے لیے اپنے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرز کو آگے بڑھا رہے ہیں۔18 ستمبر 2025 کو ممتاز امریکی اخبار (وال اسٹریٹ جرنل) میں جان اینڈرسن کا جو مفصل آرٹیکل شایع ہُوا ہے.
اِس کے مطالعہ سے بھی عیاں ہوتا ہے کہ افغانستان پر قابض طالبان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ و امریکی انتظامیہ میں جو سلسلہ جنبانی چل رہے ہیں، اِن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امریکا کسی نہ کسی طرح بگرام ایئر بیس واپس اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتا ہے ۔
ٹرمپ کے مذکورہ بالا بیان کے فوراً بعد طالبان حکام نے ترنت کہا:’’ ہم کسی بھی امریکی فوجی مداخلت کے بغیر امریکا سے مذاکرات چاہتے ہیں۔‘‘ گویا ٹرمپ کی جانب سے بگرام ایئر بیس کی واپسی کی خواہش کو طالبان افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کے مترادف سمجھتے ہیں۔
افغان طالبان کے اِس انکار پر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دیتے ہُوئے، 20ستمبر 2025 کو کہا تھا:’’ اگر افغان طالبان نے بگرام ایئر بیس ہمیں واپس نہ کیا تو طالبان کو ایسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘
اِس دھمکی ہی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹرمپ صاحب کس شدت سے بگرام ایئر بیس واپس لینا چاہتے ہیں ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مذکورہ بالا پریس کانفرنس میں بگرام ایئر بیس کو واپس لینے کی بات کرکے خود ہی اِسے ’’بریکنگ نیوز‘‘ بھی قرار دے ڈالا تھا ۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بگرام ایر بیس واپس لینے کی بات عین اُس وقت کہی جب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سیکیورٹی کی بنیاد پر وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف اور سعودی ولی عہد جناب محمد بن سلمان ایک نہائت اہم معاہدے پر دستخط کررہے تھے ۔
اِس معاہدے نے ساری دُنیا ، بالخصوص بھارت ، میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ 10اکتوبر 2025 کو بھارتی دَورے پر گئے افغان وزیر خارجہ، مُلّا امیر خان متقی ، نے بھی اشارتاً کہا:’’ ہم افغانستان میں کسی کو بھی فوجی اڈّہ قائم نہیں کرنے دیں گے۔‘‘ امورِجنوبی ایشیا کے ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ بگرام ایئر بیس واپس امریکا کے ہاتھوں میں جانے سے پاکستان کو بھی کئی خدشات لاحق ہو سکتے ہیں ۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بگرام ایئر بیس واپس کہ بگرام ایئر بیس بگرام ایئر بیس ا لینا چاہتے ہیں افغانستان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان طالبان پریس کانفرنس امریکی فوجی ایئر بیس پر واپس لینے کے نزدیک امریکی ا رہے ہیں یہ بھی
پڑھیں:
غزہ میں جنگ ختم ہوگئی ہے، امریکی صدر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ ندی ختم ہوگئی ہے، غزہ کے لیے ’’بورڈ آف پیس‘‘ جلد قائم کیا جائے گا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی برقرار رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی مقررہ وقت سے کچھ پہلے ممکن ہے۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے اچھے تعلقات ہیں۔