بدلے کی آگ میں سلگتا مودی
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مودی کا یہ کہنا کہ ’’میں بدلے کی آگ میں جل رہا ہوں، پاکستانی آرمی چیف میرا اصل ٹارگٹ ہے‘‘۔ اْس کے ذہنی انتشار، نفرت اور شکست خوردگی کی واضح علامت ہے۔ یہ جملہ صرف سیاسی غصے کا اظہار نہیں بلکہ اْس احساسِ ہزیمت کی جھلک ہے جو پاکستان کی عسکری کامیابیوں نے بھارت کے دل میں پیدا کی ہے۔ بھارت کے حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا صدمہ یہ ہے کہ وہ ہر سازش، ہر پروپیگنڈا اور ہر دباؤ کے باوجود پاکستان کو کمزور نہیں کر سکے۔ رافیل کا غرور خاک میں ملنا مودی کے تکبر کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ پاکستان ایک ذمے دار ریاست ہے۔ ہماری فوج اور سیاسی قیادت ہمیشہ امن چاہتی ہے، لیکن امن کمزوری سے نہیں، طاقت سے قائم ہوتا ہے۔ مودی کی حکومت نے جب بھی پاکستان پر الزام تراشی کی، اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی اندرونی سیاسی مقصد چھپا ہوتا ہے۔ کبھی وہ کشمیر میں ناکامی چھپانے کے لیے پاکستان پر حملے کی بات کرتا ہے، کبھی انتخابی سیاست میں فائدہ اٹھانے کے لیے جنگی جنون بھڑکاتا ہے۔ مگر پاکستان نے ہمیشہ تحمل اور تدبر کے ساتھ جواب دیا۔ تاہم، جب دشمن نے حد پار کی، تو ہماری افواج نے وہ جواب دیا جو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
پاکستانی قوم جانتی ہے کہ بھارت کا اصل مسئلہ پاکستان کی جغرافیائی نہیں بلکہ نظریاتی طاقت ہے۔ دو قومی نظریہ آج بھی بھارت کے سینے میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ایک مسلمان قوم اپنی الگ شناخت کے ساتھ دنیا کے نقشے پر موجود ہے، جو اسلام، غیرت اور خودداری پر یقین رکھتی ہے۔ یہی نظریہ آج بھارت کی آنکھوں میں چبھن بن کر ہے۔ بدقسمتی سے، ہمارے ملک کے اندر بھی کچھ ایسے طبقات ہیں جو بھارت کے بیانیے کو دانستہ یا نادانستہ تقویت دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو امن کے نام پر دشمن کی مکاری کو بھول جاتے ہیں۔ کبھی وہ ’’امن کی آشا‘‘ کے نغمے گاتے ہیں، کبھی بھارت کو ’’موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ قرار دینے کی بات کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مذاکرات سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات ہمیشہ یکطرفہ رہے ہیں۔ وہ ہمیں دھوکا دیتا ہے، اور ہم اس کے فریب کو امن کا نام دیتے ہیں۔
78 سال میں بھارت نے کبھی پاکستان کے وجود کو دل سے قبول نہیں کیا۔ اْس نے ہر ممکن کوشش کی کہ ہمیں سیاسی، عسکری اور سفارتی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ اْس نے مشرقی پاکستان کو علٰیحدہ کیا، کشمیر پر قبضہ جمایا، سیاچن پر حملہ کیا، کارگل کا جھوٹا شور مچایا، اور ہر بار پاکستان کو عالمی دباؤ میں لانے کی کوشش کی۔ مگر جب پاکستان نے دشمن کے خلاف عملی جواب دیا، تو وہ چیخ اٹھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے اندر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بلوچستان، کراچی، اور گلگت بلتستان میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں تخریب کاری کے منصوبے بناتی رہیں۔ مگر ان تمام سازشوں کے باوجود پاکستان قائم ہے اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ خبریں گردش میں رہیں کہ بھارت نے کچھ پاکستانی سیاسی حلقوں سے خفیہ طور پر رابطے کیے۔ اور دہشت گرد تنظیموں کے مبینہ ٹھکانوں پر حملوں کے سلسلے میں تعاون کی بات کی گئی۔ اگر یہ درست ہے تو یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے، جو قومی خودمختاری پر سوال اٹھاتا ہے۔ اسی تناظر میں رانا ثناء اللہ کا بیان یاد آتا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’بھائی، اگر انڈیا نے ہم پر حملہ نہ کیا تو ہم کوئی جواب نہیں دیں گے‘‘۔ اس قسم کے جملے دشمن کو شہہ دیتے ہیں اور قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف غیر ذمے دارانہ ہے بلکہ اس سے پاکستان کا دفاعی موقف کمزور دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران آئی ایس پی آر کے ایک افسر کا دو ٹوک بیان آیا: ’’جواب دینا ہمارا حق ہے۔ کب اور کیسے دیں گے، یہ مودی کو پتا چل جائے گا‘‘۔ یہ جملہ صرف ایک بیان نہیں بلکہ پوری قوم کی آواز تھا۔ یہ اعلان تھا کہ پاکستان کسی کے دباؤ میں آنے والا ملک نہیں۔ ہم اپنی سلامتی اور خودمختاری کا تحفظ ہر قیمت پر کریں گے۔
مودی کے یار آج بھی مختلف چہروں میں چھپے ہوئے ہیں۔ کبھی وہ لبرل ازم کے نام پر بولتے ہیں، کبھی جمہوریت کی آڑ میں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا خواب محض ایک فریب ہے۔ ہر بار بھارت نے مذاکرات کے نام پر وقت ضائع کیا، اور کشمیر کے مسئلے کو دبانے کی کوشش کی۔ مودی نے خود اعتراف کیا کہ وہ آر ایس ایس کے نظریے کا پیروکار ہے۔ اْس کے نزدیک پاکستان سے دشمنی ایمان کا حصہ ہے۔ ایسے شخص سے خیر کی توقع رکھنا خود فریب کے سوا کچھ نہیں۔ اور یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے، جو بطور پاکستانی، بطور محب وطن، میرے دل میں مسلسل گونجتا ہے۔
راقم کا ایک سوال: اس مختصر وقفے کی جنگ میں نواز شریف کا کوئی ایک بیان نہیں ملتا جو انڈیا کے خلاف دیا گیا ہو۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنی بڑی جارحیت، اتنی کھلی دھمکیوں کے دوران بھی ان کی زبان پر ایک لفظ نہیں آیا۔ ہاں، اگر وہ اس وقت بہت مصروف ہوں، شاید جنگ کا پلان بنا رہے ہوں، تو پھر یہ خاموشی سمجھ میں آتی ہے! ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہم بطور قوم کہاں کھڑے ہیں۔ کیا ہم دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار بنیں گے یا اپنے نظریے پر قائم رہیں گے؟ پاکستان کو آج سیاسی انتشار سے زیادہ خطرہ کسی بیرونی دشمن سے نہیں۔ ہم نے اپنی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف صرف کر رکھی ہیں۔ سیاست دان اقتدار کے لیے ایک دوسرے کو غدار، چور، ڈاکو اور لٹیرا کہتے ہیں۔ عوام میں نفرت اور تقسیم بڑھ رہی ہے۔ دشمن یہی چاہتا ہے کہ پاکستانی ایک دوسرے سے لڑتے رہیں تاکہ اسے فائدہ ہو۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ آزادی کسی دشمن کے سامنے جھک جانے کا نام نہیں۔ آزادی قربانی، عزم اور غیرت کا تقاضا کرتی ہے۔ مذاکرات اْس وقت ہی معنی رکھتے ہیں جب دونوں فریق برابری کی بنیاد پر بیٹھیں۔ بھارت نے ہمیشہ مذاکرات کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، مگر پاکستان نے ہر بار وقار کے ساتھ جواب دیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ ہمیں اختلاف رائے کے باوجود ایک بات پر متحد ہونا ہوگا۔ پاکستان سب سے مقدم ہے۔ ذاتی مفادات، جماعتی سیاست اور اقتدار کی ہوس کو قومی سلامتی پر ترجیح دینا بدترین غداری کے مترادف ہے۔
مودی بدلے کی آگ میں جل رہا ہے، کیونکہ اْس نے پاکستان کو کمزور سمجھا اور ہر بار شکست کھائی۔ اْس کی فوج نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے۔ اْس کا میڈیا پاکستان کے خوف میں زندہ ہے۔ اور اْس کے سیاسی مخالفین جانتے ہیں کہ مودی کا سیاسی مستقبل صرف پاکستان دشمنی پر کھڑا ہے۔ مگر پاکستان اب وہ ملک نہیں رہا جو دباؤ میں آئے۔ ہمیں اپنی خودی، اپنے ایمان اور اپنے نظریے کو پہچاننا ہوگا۔ دشمن ہماری صفوں میں انتشار دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم متحد رہیں، اور اپنی ریاست کی خودمختاری کا ہر سطح پر دفاع کریں۔ مودی اور اْس کے حواری ہمیشہ پاکستان کے خلاف نفرت کا بیانیہ بناتے رہیں گے، لیکن ہمیں اپنے کردار اور عمل سے دنیا کو دکھانا ہے کہ پاکستان امن چاہتا ہے مگر کمزوری نہیں دکھائے گا۔ پاکستان کے دشمنوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ملک کسی مصلحت پر نہیں بلکہ ایک نظریے پر قائم ہوا تھا، اور نظریے کو گولیوں، دھمکیوں یا پروپیگنڈے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان ان شاء اللہ قائم رہے گا، اور مودی جیسے لوگ اپنے ہی نفرت کے شعلوں میں جلتے رہیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان کو پاکستان کے نہیں بلکہ بھارت کے بھارت نے کہ بھارت جواب دیا کوشش کی کے خلاف کے ساتھ ہوتا ہے کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
ہندوستان کا تصورِ ذات اور اس پر مسلط کی گئی ذلّت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251128-03-5
قوموں کے رویوں اور رجحانات کی تشکیل کے سلسلے میں ان کے ’’تصورِ ذات‘‘ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ جن قوموں کا تصورِ ذات پست ہوتا ہے ان میں خود تکریمی کی کمی ہوتی ہے۔ اور جن قوموں کا تصور ذات بلند ہوتا ہے وہ ساتویں آسمان پر براجمان ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہندوستان کا تصورِ ذات بہت بلند ہے۔ ہندوئوں کی اعلیٰ ذاتیں سمجھتی ہیں کہ ان کا مذہب یعنی ہندوازم دنیا کا قدیم ترین مذہب ہے جس کی عمر چھے ہزار سال ہے۔ ہندوئوں کا خیال ہے کہ ان کے پاس دنیا کی قدیم ترین آسمانی کتابیں یعنی ’’وید‘‘ ہیں۔ ’’گیتا‘‘ ہے۔ ہندو سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس عظیم انسانوں کی کوئی کمی نہیں۔ ان کے پاس شری کرشن ہیں، رام ہیں، لکشمن ہیں، سیتا جیسی عورت ہے۔ ارجن ہیں، ہندوستان سمجھتا ہے کہ وہ ہزاروں سال پہلے بھی ترقی یافتہ تھے، ان کی تہذیب کے پاس ہوائی جہاز تھے، اعضا کی پیوند کاری کی ٹیکنالوجی تھی یہاں تک کہ ان کے پاس ایٹم بم بھی تھا۔ ہندوستان کے تصور ذات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہندوستان نے صرف ’’ہندوازم‘‘ یا ’’سناتن دھرم‘‘ ہی پیدا نہیں کیا بلکہ اس نے ’’بدھ ازم‘‘ بھی پیدا کیا جس نے مشرق بعید تک اثرات مرتب کیے۔ سکھ ازم بھی ہندوستان ہی میں پیدا ہوا۔ ہندوئوں کو اپنی جدید تاریخ کی دو شخصیتوں پر بھی بہت فخر ہے۔ یعنی گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو۔ گاندھی کی عظمت یہ ہے کہ پورا ہندوستان کبھی انہیں ’’باپو‘‘ یعنی باپ کہتا تھا۔ گاندھی نے آئن اسٹائن جیسے عبقری کو بھی متاثر کیا۔ چنانچہ آئن اسٹائن نے گاندھی کے بارے میں کہا کہ آنے والی نسلوں کو یہ سمجھنے میں دشواری ہوگی کہ کبھی اس روئے زمین پر گاندھی جیسی عظیم شخصیت چلتی پھرتی تھی۔ نہرو اتنے متاثر کن تھے کہ ہندوستان میں برطانیہ کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کی اہلیہ ایڈوینا نہرو کے عشق میں مبتلا ہوگئی۔ آج بھارت جو کچھ ہے وہ نہرو کی 17 سالہ صنعتی پالیسیوں کا حاصل ہے۔ ہندوستان اپنی تاریخ کی ان تمام چیزوں پر فخر کرتا ہے۔ ہندوستان کا تصور ذات یہ بھی ہے کہ پورا جنوبی ایشیا دراصل ’’اکھنڈ بھارت‘‘ یا غیر منقسم ہندوستان ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے بھارت کو تقسیم کرکے پاکستان بنالیا مگر بھارت نے 1971ء میں بنگلا دیش بنا کر پاکستان کو دو ٹکڑے کردیا۔ چنانچہ اندرا گاندھی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آج مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے اور ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ اس ذہنیت اور نفسیات کے ساتھ بھارت آج بھی یہ خیال کرتا ہے کہ خاکم بدھن ایک دن پاکستان ختم ہوجائے گا اور ہندوستان کا حصہ بن جائے گا۔ بھارت کے موجودہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے چند روز پیش تر ہی کہا ہے کہ سندھ ایک دن پاکستان سے الگ ہو کر بھارت سے آملے گا۔
بھارت کا مذکورہ ’’تصورِ ذات‘‘ 78 سال پرانا ہے۔ لیکن حالیہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ نے بھارت پر ایسی ذلت مسلط کردی ہے کہ ہندوستان کا تصورِ ذات روز پاش پاش ہورہا ہے۔ بھارت کا خیال تھا کہ پہل گام واقعے کی آڑ میں وہ پاکستان پر جنگ مسلط کرے گا تو پاکستان اس کا جواب نہیں دے گا اس لیے کہ بھارت اور پاکستان کی طاقت کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ بھارت کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ ہے، پاکستان کی صرف 24 کروڑ۔ بھارت کا رقبہ 32 لاکھ مربع کلو میٹر ہے اور پاکستان کا رقبہ صرف 8 لاکھ مربع کلو میٹر۔ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے اور پاکستان دنیا کی پہلی 20 معیشتوں میں بھی کہیں موجود نہیں۔ بھارت کا جنگی بجٹ 80 ارب ڈالر ہے اور پاکستان کا دفاعی بجٹ صرف 9 ارب ڈالر ہے۔ بھارت کو اپنی فضائیہ پر ناز تھا، اس فضائیہ کے پاس فرانسیسی ساختہ رفال طیارے ہیں، چنانچہ بھارت نے پاکستان پر حملے کے لیے 110 طیارے فضا میں بھیج دیے۔ اس کے جواب میں پاکستان صرف 30 طیارے فضا میں بھیج سکا۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کے شاہینوں نے بھارت کے 7 طیارے مار گرائے۔ پاکستان نے بھارت کے 26 مقامات کو نشانہ بنایا۔ پاکستان نے بھارت پر ایسی سائبر وار مسلط کی بھارت جس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ پاکستان کو فتح یاب ہوتے دیکھ کر امریکا درمیان میں کود پڑا۔ حالانکہ ایک دن قبل ہی امریکا کے وزیر خارجہ مارکوروبیو نے کہا تھا کہ پاک بھارت جنگ دونوں کا ذاتی معاملہ ہے اور امریکا کو اس جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن ہندوستان کو ہارتا دیکھ کر امریکا درمیان میں آگیا اور چار روزہ جنگ کے بعد دونوں ملکوں میں جنگ بند ہوگئی۔ اس جنگ کے دوران بھارت کے ٹیلی وژن چینلوں نے اودھم مچا کر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے کراچی کو تباہ کردیا ہے۔ اسلام آباد برباد کردیا گیا ہے۔ بھارتی فوجیں پاکستان میں داخل ہوگئی ہیں۔ یہاں سے بھارت کی ذلت کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھارتی چینلوں کے سفید جھوٹ کا پردہ فاش کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے ساری دنیا کو بتایا کہ ہندوستانی ذرائع ابلاغ جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ امریکا بھارت کا اتحادی ہے۔ مگر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر بھارت کی بھد اڑانا شروع کی کہ جنگ میں 7 طیارے گرائے گئے اور میں نے ٹیرف کی دھمکی دے کر بھارت اور پاکستان کو جنگ بند کرنے پر مجبور کیا۔ ٹرمپ اگر یہ بات ایک بار کہہ کر رُک جاتے تو بھی غنیمت تھا مگر انہوں نے تقریباً ہر دوسرے دن بھارت کے 7 گرنے والے طیاروں کا ذکر شروع کردیا۔ چنانچہ ساری دنیا کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ ایک چھوٹے اور نسبتاً کمزور ملک پاکستان نے بھارت کی ایسی تیسی کرکے رکھ دی ہے۔ اس صورت حال نے فرانس کے رفال طیاروں کی عالمی ساکھ تباہ کردی۔ دوسری جانب چین کے C-10 طیاروں کی ’’مارکیٹ ویلیو‘‘ بہت بڑھ گئی اور انڈونیشیا نے چین سے C-10 طیاروں کے حصول کے لیے رابطہ کرلیا۔ مودی اور ہندوستان کے منہ پر طمانچے لگانے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ ہی کم نہ تھے کہ فرانسیسی بحریہ کے ایک اعلیٰ افسر نے بھی معروف پاکستانی صحافی حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے رفال طیارے گرنے کی تصدیق کردی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ رفال طیارے اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے نہیں بلکہ پاک فضائیہ کی پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے گرے۔ ہمیں یقین ہے کہ چار روزہ جنگ میں پاکستان نے بھارت کا جو بھرکس نکالا وہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ جنرل عاصم منیر اس کا اعتراف کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے انہوں نے بھارت پر پاکستان کی فتح کو اللہ سے منسوب نہ رہنے دیا۔ انہوں نے جنگ کے فوراً بعد فیلڈ مارشل کا عہدہ قبول کرکے اعلان کیا کہ اس فتح میں ان کا کردار بنیادی ہے۔ حالانکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا یقین ہے کہ مسلمان کی ہر کامیابی اللہ کی مدد کا حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ مستقل میں ضرورت پڑنے پر بھارت کے چھکے چھڑانے کے لیے ضروری ہے کہ جنرل عاصم منیر فیلڈ مارشل کا عہدہ فوری طور پر چھوڑ دیں۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہندوستان پر مسلط کی گئی ذلت صرف پاک بھارت جنگ میں بھارت پر پاکستان کی فتح تک محدود نہ رہی بلکہ اس کا سلسلہ دبئی میں بھارتی ساختہ طیارے تیجس کی تباہی تک دراز ہوگیا۔ بھارت برسوں سے پوری دنیا کو یہ تاثر دے رہا ہے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں اتنا ترقی یافتہ ہوگیا ہے کہ وہ خود اپنا فوجی طیارہ تیار کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت تیجس طیارے کو مثال کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ اسی لیے اس دبئی کے ’’ائر شو‘‘ میں تیجس طیارے کو بھیجا۔ بھارت کو یہ فیصلہ پہلے ہی دن مہنگا پڑ گیا۔ اس لیے کہ تیجس طیارے کے ’’فیول ٹینک‘‘ سے پٹرول رسنے لگا اور بھارتی فضائیہ کے لوگ اسے تھیلیوں میں بھرتے دیکھے گئے۔ یہ ایک انتہائی شرمناک منظر تھا۔ دوسری طرف پاکستان کا تیار کردہ جے ایف 17 تھنڈر طیارہ تھا جو پورے دبئی شو میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا اور ایک دوست ملک نے اس طیارے کی اعلیٰ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اسے خریدنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے۔ لیکن تیجس سے برآمد ہونے والی ذلت یہیں تک محدود نہ رہی۔ اگلے ہی دن بھارت کا تیجس طیارہ فضائی کرتب دکھاتے ہوئے زمین پر گر کر تباہ ہوگیا۔ اس حادثے میں طیارے کا پائلٹ بھی ہلاک ہوگیا۔ یہ خبر پوری دنیا میں شہ سرخیوں کے ساتھ رپورٹ ہوئی۔ خبر کے مطابق دبئی ائر شو میں بھارتی تکبر کا جنازہ نکل گیا۔ بھارت اس شو میں اپنی فوجی نشاۃ ثانیہ دکھانا چاہتا تھا لیکن جو کچھ سامنے آیا وہ اس کی فیصلہ سازی، انجینئرنگ چین اور کمانڈ ڈھانچے میں سرائیت کرچکی خرابیوں کا اظہار تھا۔ تیجس کے بارے میں طویل عرسے سے بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے دعوے چند سیکنڈ میں طیارے کے ساتھ زمین پر آگرے۔ خبر کے مطابق طیارے کی قیمت 5 ارب 50 کروڑ بھارتی روپے تھے۔
اس حادثے سے ساری دنیا کو معلوم ہوگیا کہ بھارت طیارہ سازی کے دائرے میں چین کیا پاکستان کا بھی حریف نہیں ہے۔ تیجس طیارے کی تباہی سے بھارت کے ’’تصورِ ذات‘‘ کے پرخچے اُڑے تو بھارت کے گودی میڈیا نے یہ راگ الاپنا شروع کردیا کہ تیجس طیارے کی وجہ اس کا انجن ہے اور یہ انجن بھارت نے تیار نہیں کیا بلکہ یہ انجن امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک تیار کرتی ہے۔ اس خبر سے بھارت کے لیے ایک نئی ذلت سامنے آئی اور وہ یہ کہ طیارے میں اصل چیز انجن ہی تو ہے اور وہ بھارت خود نہیں بناتا تو پھر تیجس کو ’’بھارتی ساختہ‘‘ کیونکر کہا جائے؟ ہندوستان کے لیے تیجس کی تباہی سے سامنے آنے والی ایک ذلت یہ ہے کہ اب دنیا کا کوئی ملک بھارت سے تیجس نہیں خریدے گا۔ بھارت کے لیے تازہ ترین ذلّت یہ ہے کہ آرمینیا نے بھارت سے تیجس طیارے کی خریداری کا معاہدہ منسوخ کر دیا ہے۔