جنگ کے باوجود حماس اب بھی غزہ میں سب سے مضبوط ڈھانچہ ہے، صیونی تجزیہ کار
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
صیہونی حکومت کے قریبی چینل کے تجزیہ کار نے کہا ہے کہ اگر آنے والے مہینوں میں امریکہ ہمیں غزہ کی پٹی پر حملہ کرنے سے منع کرتا ہے، تو ہم اس بار بے خوف ہو کر حملہ کریں گے، کیونکہ اب حماس کے ہاتھوں میں ہمارے قیدی نہیں ہیں اور ہم بڑی آزادی کے ساتھ حملے کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی حکومت، بینجمن نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے قریبی میڈیا چینل 14 کے تجزیہ کار حلیل بیٹن روزن نے کہا ہے کہ حماس کو اس وقت غزہ کی پٹی میں سب سے طاقتور ڈھانچہ تصور کیا جاتا ہے، اور ہم معاہدے کے نفاذ کے اگلے مرحلے میں داخل ہوئے جب کہ حماس معاہدے میں غیر مسلح ہونے کی شرط کو موخر اور ختم کروا کر بات چیت کے اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس تجزیہ کار کے مطابق پہلا چیلنج یہ ہے کہ حماس اب بھی غزہ کی پٹی کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے جب کہ حماس کے پاس اب بھی ایسے میزائل موجود ہیں جو اسرائیلی مراکز کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اس کے بعد تجزیہ کار اس جنگ کے مقاصد کے حصول میں اسرائیل کی ناکامی کا اعتراف کرتا ہے اور تسلیم کرتا ہے کہ اسرائیل کی جنگ کے مقاصد میں سے ایک حماس کو غیر مسلح کرنا ہے۔ اس جنگ کی کامیابی کا اندازہ بھی اس یارڈ اسٹک سے لگایا جائے گا، لیکن ہم ایسے پیرامیٹرز دیکھ رہے ہیں جو اس کے برعکس اشارہ کرتے ہیں۔ سب سے اہم پیرامیٹر فیلڈ کنٹرول ہے۔ جنگ بندی کے نافذ العمل ہونے کے لمحے سے، حماس نے اپنی پولیس فورسز کو منظرعام پر لے آئی، اور آج ہم غزہ کی پٹی کے علاقوں بشمول غزہ شہر اور مرکزی کیمپوں پر ان فورسز کے کنٹرول کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس اب بھی غزہ کی پٹی میں سب سے طاقتور ڈھانچہ ہے۔ تجزیہ کار کے نقطہ نظر سے اسرائیل کو اس وقت دوسرا مسئلہ جس کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ حماس کے پاس اب بھی علاقے اور ہتھیاروں کا کنٹرول ہے، اور اس لیے وہ غزہ کی پٹی میں دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ غزہ کی پٹی میں حماس کی طاقت کو کمزور کرنے میں اسرائیل کی ناکامی کی وجوہات کا ذکر کیے بغیر، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر آنے والے مہینوں میں امریکہ ہمیں غزہ کی پٹی پر حملہ کرنے سے منع کرتا ہے، تو ہم اس بار بے خوف ہو کر حملہ کریں گے، کیونکہ اب حماس کے ہاتھوں میں ہمارے قیدی نہیں ہیں اور ہم بڑی آزادی کے ساتھ حملے کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غزہ کی پٹی میں تجزیہ کار کہ حماس کریں گے کرتا ہے حماس کے اب بھی
پڑھیں:
افغانستان ہمارا ہمسائیہ تو ہے لیکن برادر ملک ثابت نہیں ہوا ، تجزیہ کار سلمان غنی
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)سینئر تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا ہے کہ افغانستان ہمارا ہمسائیہ تو ہے لیکن برادر ملک ثابت نہیں ہوا ، پاکستان کا واضح موقف ہے کہ ہم افغان حکومت کے خلاف نہیں کھڑے بلکہ افغانستان میں جو عناصر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں ان کےخلا ف ہیں۔ہم سمجھتے تھے کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے بعد اب یہ افغان حکومت کا رویہ پاکستان کے لیے مختلف ہو گا لیکن ایسا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کی اس جارحیت کے بعد پاکستان کو ایک جواز مل گیا کیونکہ اس سے پہلے پاکستان بہت زیادہ تنگ تھا ،بار ہا شواہد دینے کے باوجود سرحد پار دہشت گردی ختم نہیں ہوئی، اب تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کا فرق ختم ہو گیا کیونکہ انہوں نے بھی وہ ہی حرکت کی جو ٹی ٹی پی کر رہی تھی۔تجزیہ کار کاکہناتھا کہ اس ساری صورتحال میں جس طرح پاکستان نے افغانستان کو بھر پور جواب دیا اس سے کابل کو پیغام پہنچ گیا ، 10مئی کے بعد کا پاکستان بہت مضبوط ہے، در حقیقت بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ دنیا کا کوئی ملک بھی بھارت کے ساتھ نہیں کھڑا اور بھارت کو جو بدلے کا بخار چڑھا ہوا ہے ، جب تک کوئی ملک اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہو گا تب تک وہ جرات نہیں کر سکتا ۔
پاک فوج کی ایک اور اہم کامیابی، خارجی سہولت کار عصمت اللّٰہ کرار کیمپ مکمل تباہ
دنیا نیوز کے پروگرام'تھنک ٹینک ، میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان وزیر خارجہ کادورہ بھارت پاکستان کے لیے پیغام ہے ، پاکستان نے دفاعی حکمت عملی اپنائی، جس طرح بھارت پاکستان کوسبق سکھانے کی بات کر رہا تھا تو اس پر پاکستان کاموقف واضح ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان پر جارحیت مسلط کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیں گے اور پھر پاکستان نے ایسا جواب دے کر بھی دکھا دیا، اب طالبان بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہے ہیں اور افغان وزیر خارجہ کے دورے کی ٹائمنگ اہم ہے، جس طرح ہمارا سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہوا ہے ہو سکتا ہے کہ دہلی میں افغانستان اور بھارت کے درمیان بھی معاہدہ ہواہو۔ سلمان غنی نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ خطے کے استحکام کے لیے افغانستان میں امن ضروری ہے اور ہم نے اس کے لیے بہت کام کیا لیکن افغانستان سے کبھی خیر کی خبر نہیں آئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ جب پہلی بار برسر اقتدار آئے تھےتو انہوں نے افغانستان کے حوالے سے ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا تھا ۔ افغانستان نے دوحہ معاہدے میں یہ لکھ کر دیا تھا کہ ہماری سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
اب سے افغانستان کے لیے واضح ترین پیغام
مزید :