سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کن شعبوں میں تجارت اور سرمایہ کاری ہو رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تجارت تیزی سے بڑھ رہی ہے، وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے بتایا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تجارت 2024-25 میں 4.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جس میں پاکستان کی برآمدات کا حصہ 71 کروڑ 65 لاکھ ڈالر ہے اور گزشتہ 3 سالوں میں یہ برآمدات 42 کروڑ 80 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 71 کروڑ 65 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔
وزارتِ تجارت نے سعودی عرب کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، 2024 میں سعودی عرب کے دو اعلیٰ سطحی کاروباری وفود پاکستان آئے ہیں ایک وفد مارچ جبکہ دوسرا وفد نومبر میں پاکستان آیا تھا، وفود کے دوروں کے نتیجے میں 34 مفاہمتی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط ہوئے جن کی مالیت تقریباً 2.
یہ بھی پڑھیے: دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کا فروغ، سعودی عرب کے اعلیٰ سطح وفد کی پاکستان آمد
ان میں سے 10 معاہدے فعال ہیں جبکہ باقی پر عملدرآمد جاری ہے۔ وزارتِ تجارت نے سعودی عرب کے لیے خصوصی ایکسپورٹ انہانسمنٹ اسٹریٹیجی بھی تیار کی ہے تاکہ پاکستانی مصنوعات کی برآمدات کو فروغ دیا جا سکے۔
وزارت تجارت نے ‘میڈ اِن پاکستان’ نمائش 5 تا 7 فروری 2025 کو جدہ میں منعقد کی جس میں 134 پاکستانی کمپنیوں نے شرکت کی، نمائش کے دوران متعدد ایم او یوز پر دستخط ہوئے اور 32 معاہدوں پر کام جاری ہے۔
جام کمال خان کے مطابق سعودی عرب میں پاکستانی کمپنیوں کو مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے گئے ہیں، سعودی فوڈ مینوفیکچرنگ میں 5 پاکستانی کمپنیاں حصہ لے رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے؛ پاکستان اور سعودی عرب کے معاشی تعلقات نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں، تجارتی حجم بڑھائیں گے، وزیراعظم شہباز شریف
اسی طرح فوڈ شو میں 30 پاکستانی کمپنیا، میڈیکل فورم میں 6 کمپنیاں، سعودی فیشن و ٹیکسٹائل میں 15 کمپنیاں، ہوٹل اینڈ ہاسپٹیلٹی ایکسپو میں 6 کمپنیاں، گلوبل ہیلتھ میں 8 کمپنیاں، سعودی حلال ایکسپو میں 8 کمپنیاں، سعودی بیلڈ (build) 2024 میں 15 کمپنیاں Leap 2025 میں 80 کمپنیاں اور بگ فائو کنسٹرکشن کی 3 کمپنیاں شامل ہیں۔
ان اقدامات سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات مزید مضبوط ہونے اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع کھلنے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایم او یوز بزنس تجارت سعودی عربذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایم او یوز سعودی عرب کے سرمایہ کاری کے درمیان
پڑھیں:
ایس آئی ایف سی کوآرڈینیٹر کا کاروبار دوست معاشی روڈ میپ پیش
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے نیشنل کوآرڈینیٹر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز احمد نے ملکی معیشت کو مضبوط اور مسابقتی بنانے کے لیے کاروبار دوست روڈ میپ پیش کیا ہے۔ انہوں نے اسلام آباد میں پاکستان بزنس کونسل کی جانب سے منعقدہ “ڈائیلاگ آن اکانومی” میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کارپوریٹ شعبے پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنے، شرح سود میں کمی لانے اور حقیقت پسندانہ و مسابقتی ایکسچینج ریٹ اپنانے پر غور کر رہی ہے۔
جنرل سرفراز احمد نے بتایا کہ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ واضح اقتصادی ترقی کا کوئی روڈ میپ نہ ہونا ہے۔ انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ سبسڈی اور تحفظات کے نظام سے نکل کر برآمدات پر مبنی معیشت کے ماڈل پر اتفاق کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کارپوریٹ انکم ٹیکس کو 29 فیصد سے 25 فیصد کرنے، سپر ٹیکس اور انٹر کارپوریٹ ڈیویڈنڈ ٹیکس ختم کرنے پر غور کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افراط زر میں کمی کے باوجود 11 فیصد شرح سود برقرار رکھنا درست نہیں، اس لیے شرح سود کو بھی کم کیا جانا چاہیے۔ جنرل سرفراز نے مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت قابو میں رکھنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو مارکیٹ بیسڈ اور حقیقت پسندانہ ایکسچینج ریٹ اپنانا ہوگا۔
لیفٹیننٹ جنرل نے بتایا کہ پاکستان کا موجودہ ماڈل صارفیت اور قرضوں پر مبنی ہے، جس سے ملک کو بار بار مالی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کو برآمدات پر مبنی اقتصادی ماڈل اپنانا ہوگا کیونکہ درآمدی متبادل نظام ناکام ہو رہا ہے۔
جنرل سرفراز احمد نے مقامی تاجروں کی جانب سے دولت کا بیرون ملک منتقل کرنے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ پاکستان میں کمائی گئی دولت زیادہ تر یو اے ای، لندن، سنگاپور اور نیویارک چلی جاتی ہے اور ملک میں دوبارہ سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری محض 1.2 ارب ڈالر ہے اور جب تک مقامی کاروباری طبقہ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا، غیر ملکی سرمایہ کار بھی نہیں آئیں گے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ایس آئی ایف سی سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے سرمایہ کاری کے لیے سنگل ونڈو پلیٹ فارم کے طور پر قائم کیا گیا تاکہ منصوبوں کی منظوری کا عمل تیز اور آسان بنایا جا سکے۔