پاکستان اور بحرین کا تجارت ایک ارب ڈالر تک لانے اور ویزا شرائط میں نرمی پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
پاکستان اور بحرین کا تجارت ایک ارب ڈالر تک لانے اور ویزا شرائط میں نرمی پر اتفاق WhatsAppFacebookTwitter 0 26 November, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)پاکستان اور بحرین نے تجارت ایک ارب ڈالر تک لے جانے اور ویزا شرائط میں نرمی لانے پر اتفاق کیا ہے۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق وزیراعظم پاکستان نے آج منامہ میں بحرین کے ولی عہد، بحرینی افواج کے نائب سپریم کمانڈر اور وزیراعظم شہزادہ سلمان بن حمد الخلیفہ سے ملاقات کی۔
وزیراعظم کو منامہ میں قصر القضیبیہ پہنچنے پر گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ وزیر اعظم نے پرتپاک استقبال پر شہزادہ سلمان بن حمد الخلیفہ کا شکریہ ادا کیا اور دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں بحرین کی قیادت کو سراہا۔وزیراعظم نے بحرین کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دو سالہ مدت (2026-2027) کے لیے غیر مستقل رکنیت حاصل کرنے پر مبارکباد دی اور اس دورانیے میں باہمی تعاون مزید مضبوط کرنے کے لیے پاکستان کے عزم کا اظہار کیا۔ملاقات میں اقتصادی تعاون گفتگو کا مرکز رہا۔ وزیراعظم نے دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کے امکانات کو اجاگر کیا جو اس وقت 550 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور بحرین کے درمیان دو طرفہ تجارت کو تین سال کے اندر 1 بلین امریکی ڈالر تک لے جایا جائے گا۔ اس ہدف کا حصول پاکستان-جی سی سی فری ٹریڈ ایگریمنٹ، جو کہ اپنے حتمی مراحل میں ہے اور حال ہی میں ویزا کی شرائط میں نرمی جیسے اقدامات کے ذریعے کیا جائے گا۔انہوں نے بحرینی سرمایہ کاروں کو فوڈ سیکیورٹی، آئی ٹی، تعمیرات، کان کنی اور معدنیات، صحت، قابل تجدید توانائی اور سیاحت میں مواقع تلاش کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے کراچی/ گوادر اور خلیفہ بن سلمان پورٹ کے درمیان بندرگاہ سے بندرگاہ تک رابطے بڑھانے کی تجویز بھی دی۔
وزیراعظم نے 150000 سے زائد پاکستانی کمیونٹی کے لیے بحرین کی حمایت کو تسلیم کیا اور مزید ہنر مند افرادی قوت فراہم کرنے کے لیے پاکستان کے عزم کی تصدیق کی۔ انہوں نے اعلی تعلیم، تکنیکی تربیت، اور ڈیجیٹل گورننس میں مزید تعاون کا خیرمقدم کیا۔علاوہ ازیں وزیراعظم نے اسلام آباد میں کنگ حمد یونیورسٹی کی تعمیر اور پاکستانی شہریوں کی رہائی اور وطن واپسی میں سہولت فراہم کرنے پر بحرین کا شکریہ ادا کیا۔ملاقات میں دفاعی اور سیکیورٹی تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں فریقین نے تربیت، سائبر سیکیورٹی، دفاعی پیداوار اور معلومات کے تبادلے میں تعاون کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا۔
دونوں رہنماوں نے غزہ کی حالیہ پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ غزہ کے عوام کے لیے جو کئی دہائیوں سے مصائب کا شکار ہیں، امن و استحکام کا قیام انتہائی خوش آئند ہے، جس کے غزہ کے عوام عرصہ دراز سے منتظر تھے۔ملاقات اس اعتماد کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی کہ بات چیت کے ٹھوس نتائج برآمد ہوں گے اور اسٹریٹجک، اقتصادی، سیکورٹی اور عوام سے عوام کے درمیان تعلقات کو مزید بلند کیا جائے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربنگلہ دیشی حکام نے حسینہ واجد کے بینک لاکرز میں موجود 10کلو سونا ضبط کرلیا بنگلہ دیشی حکام نے حسینہ واجد کے بینک لاکرز میں موجود 10کلو سونا ضبط کرلیا سی ڈی اے لینڈ ڈائریکٹوریٹ سے دھماکہ خیز خبر، 3 ارب سے زائد مالیت کے فارم ہاوسز کی دو نمبر الاٹمنٹ کی کہانی سب... جنرل ساحر شمشاد مرزا کے اعزاز میں الوداعی تقریب، 40سالہ عسکری خدمات کو شاندار خراجِ تحسین مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، اقوام متحدہ کی رپورٹ پر پاکستان کا گہری تشویش کا اظہار پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب اشتہاری قرار، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک کرنے کی ہدایت چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا کی زیر صدارت کیش لیس اکانومی کو مزید فروغ دینے کے حوالے سے اجلاس
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بحرین پر اتفاق ڈالر تک کے لیے
پڑھیں:
تجارت بحران بدستور برقرار، صرف ٹیرف پالیسی کافی نہیں
کراچی:گزشتہ چند ہفتوں کے دوران 2 اہم پیش رفتوں نے تجارتی پالیسی سازوں کو درپیش مشکلات کو نمایاں کر دیا ہے۔ اول بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ پہلے سے کمزور بیرونی کھاتوں پر مزید دباؤ ڈال رہا ہے جس کی بنیادی وجہ درآمدات میں اضافہ اور برآمدات کی شرحِ نمو میں کمی ہے۔
مالی سال 2026 کے ابتدائی 4 ماہ میں برآمدات گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 4 فیصد کم رہیں، جبکہ درآمدات میں 16 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
چونکہ معیشت کی بحالی کے حالیہ منصوبوں میں برآمدات کے فروغ پر خاص زور دیا جا رہا ہے، اس لیے برآمدات میں یہ کمی متعلقہ حلقوں کے لیے باعث تشویش ہے۔
تجارتی خسارے کے باعث جاری کھاتوں (کرنٹ اکاؤنٹ) کا خسارہ بھی بڑھ کر پہلے چار ماہ میں 733 ملین ڈالر تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 206 ملین ڈالر تھا۔
دوسری اہم پیش رفت یہ ہے کہ حقیقی موثر شرح تبادلہ (REER) اکتوبر 2025 میں بڑھ کر 103.95 ہو گئی، جبکہ ستمبر میں یہ نظرثانی کے بعد 101.70 تھی۔ ادھر امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر تقریباً 280 کے آس پاس مستحکم رہی۔
اس رجحان نے اس بحث کو پھر سے زندہ کر دیا ہے کہ آیا پاکستان دوبارہ بیرونی شعبے کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے یا نہیں۔موجودہ صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ 2022 میں عائد کی گئی درآمدی پابندیوں کا جائزہ لیا جائے، جب پاکستان ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران کا شکار تھا۔
مالی سال 2022 میں پاکستان نے 80 ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات کیں، جبکہ برآمدات محض 31 ارب ڈالر تھیں، جس سے 49 ارب ڈالر کا بھاری تجارتی خسارہ پیدا ہوا۔
اس بحران کی چند بنیادی وجوہات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے، درآمدات کی نوعیت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 2022 کے بعد کے دور میں ایندھن سے متعلق مصنوعات تجارتی خسارے کا بڑا سبب بنیں۔
پاکستان میں ایندھن کی درآمدات مجموعی درآمدات کا 25 فیصد سے زیادہ ہیں، جبکہ کئی مشرقی ایشیائی ممالک میں یہ شرح 10 فیصد سے بھی کم ہے۔اس کے برعکس ان ممالک کی درآمدات زیادہ تر ٹیکنالوجی سے وابستہ مصنوعات پر مشتمل ہوتی ہیں جو پیداواری صلاحیت بڑھاتی ہیں اور انسانی وسائل کی ترقی میں مدد دیتی ہیں۔
جبکہ پاکستان کی درآمدی ٹوکری میں ایسے پیداواری اور تکنیکی مال کی کمی نظر آتی ہے۔دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ جون 2022 میں درآمدات کو کم کرنے کے لیے مختلف پابندیاں عائد کی گئیں۔
اگرچہ سال کے اختتام تک ان میں سے کئی پابندیاں ختم کر دی گئیں لیکن ان کے منفی اثرات صنعت اور تجارت پر دیرپا رہے۔
معاشی مشاورتی گروپ (EAG) کی رپورٹس کے مطابق پاکستان نے درآمدات کم کرنے کے لیے نہ صرف مختلف آلات استعمال کیے بلکہ دیگر ممالک کی نسبت زیادہ سخت اقدامات کیے، جن کا نتیجہ کمزور معاشی ترقی اور موجودہ اقتصادی مسائل کی صورت میں نکلا۔
کرنسی کی قدر کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کے لیے ڈالر کی خریداری پر پابندیاں قیاس آرائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ چونکہ پاکستان کے پاس ماضی میں بھی زرِمبادلہ کے محدود ذخائر رہے ہیں، اس لیے ایسے اقدامات تجارت کو غیر مستحکم بنا دیتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے بین الاقوامی تجارتی روابط کو بہتر بنانے کے لیے جامع اقدامات کرے۔ یہ اقدامات صرف قومی ٹیرف پالیسی 2025-2030 تک محدود نہ ہوں بلکہ غیر ٹیرف رکاوٹوں اور کاروباری اصلاحات کو بھی شامل کیا جائے۔
چونکہ پاکستان خطے اور دنیا میں تجارتی کھلے پن کے حوالے سے کم ترین سطح پر ہے، اس لیے نہ صرف پاکستانی صنعتکار عالمی منڈیوں تک رسائی سے محروم ہیں بلکہ صارفین کو بھی معیاری اور متنوع مصنوعات میسر نہیں آ رہیں۔
اس صورتحال کا براہ راست اثر قیمتوں اور معیار پر پڑتا ہے۔ صرف ٹیرف پالیسی کافی نہیں ،ضروری ہے کہ ایسی پالیسیاں اپنائی جائیں جو بین الاقوامی تجارت کو محدود کرنے کے بجائے اس کے فروغ کا باعث بنیں۔