Jasarat News:
2025-12-02@16:34:35 GMT

’’اگر نوبل انعام بازار میں دستیاب ہوتا‘‘

اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نوبل امن انعام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کمزوری بن چکا ہے۔ ان کے بس میں ہو وہ دو درجن مزید جنگیں چھیڑ کر انہیں بند کرنے کا شوق فرمائیں مگر اس کا کیا کیجیے کہ دنیا ابھی سمجھدار لوگوں سے خالی نہیں ہوئی اور وہ کسی کے کہنے پر پہلے جنگ چھیڑیں اور پھر ایک ٹیلی فون کال آنے پر جنگ بند کریں۔ کچھ یہی حال پاکستان کے حکمرانوں کا ہے جن کا بس نہیں چلتا کہ اپنے سارے خزائن اور معادن خرچ کرکے یہ انعام خریدکر صدر ٹرمپ کی خواہش کی مانگ میں ایک اور کامیابی کا سیندور بھرتے مگر افسوس کہ نوبل امن انعام ناروے کے بازار میں دستیاب نہیں۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں وزاعظم شہباز شریف نے کسی پرائیویٹ محفل میں ملاقات کا موقع پاتے ہی صدر ٹرمپ کی تعریفوں کے پل باندھے اور ٹرمپ نے موقع ملتے ہی وزیر اعظم پاکستان کے ان خیالات کو پبلک کرنے کا فیصلہ کیا اور دنیا بھر کے کیمروں کے آگے شہباز شریف کو آگے بلا کر وہ سب کچھ دہرانے کو کہہ دیا جو انہوں نے دوران تخلیہ کہا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے جم کر صدر ٹرمپ کی مدبرانہ قیادت کی تعریف کی۔ انہیں امن عالم کا علمبردار اور وہ شاہکار قرارد یا کہ جس کی دنیا کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی انہوں نے صدر ٹرمپ کے زخموں کو یہ کہہ کر تازہ کیا ہے کہ وہ امن کے عالمی انعام کے اصل حقدار ہیں۔ ٹرمپ نوبل امن انعام کے مضبوط ترین امیدوار سمجھے جاتے تھے۔ اس خواہش کی تکمیل میں وہ ایسی جنگیں بھی بند کروار رہے تھے جو ابھی برپا بھی نہیں ہوئی تھی۔ اسی خواہش میں ان کی جنگ بندی کی فتوحات کی فہرست میں ہر صبح ایک نام کا اضافہ ہو رہا تھا۔ مگر جو ہوا صدر ٹرمپ کی خواہش کی برعکس تھا۔

قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند

کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

اتنی محنت ِ بسیار کے باوجود نوبل انعام وینز ویلا کی ایک عام سی سیاست دان کورینا مچاڈو لے اْڑیں جن کی خوبی امریکا مخالف لیڈر ہوگیو شاویز کی مخالفت ہے اور صلح وامن کے دیوتا اس انعام سے محروم رہ گئے۔ حکومت پاکستان نے یہ انعام صدر ٹرمپ کو دلوانے کے لیے اپنی سی محنت کی اور باقاعدہ خط لکھ کر اس کی سفارش کی بھی کی۔ دوسرے ہی روز ٹرمپ ایران پر پل پڑے اور یوں حکومت پاکستان نے اپنے خط پر اصرار دھیما کر دیا۔ ایران پر حملہ اور پھر جنگ بند کرکے صدر ٹرمپ نے جنگ بندیوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی ٹرمپ پر مر مٹنے والوں میں نمایاں ہیں۔ وہ بھی صدر ٹرمپ کی تعریف وتوصیف کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ انہوں نے ٹرمپ امریکی صدور کی تاریخ فہرست میں اسرائیل کا سب بہترین دوست اور خیر خواہ قرار دیا۔ نیتن یاہو کی تقریفیں تو بے جا بھی نہیں۔ ٹرمپ چاہتے تو ایک سال قبل بھی جنگ بندی کروا سکتے تھے مگر انہوں نے اس وقت تک انتظار کیا جب تک کہ نیتن یاہو بمباری کرکے تھک نہیں گئے اور غزہ کی زمین پر مزید بمبار ی کرنے کو کوئی عمارت اور انسان باقی نہیں بچا۔

ویسے مسلمان دنیا کو ٹرمپ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اگر اب بھی وہ جنگ بندی نہ کراتے تو مسلمان دنیا اسرائیل کا کیا بگاڑ لیتی۔ اپنے معاشروں میں فلسطینی جھنڈے سے خوف کھانے والے مسلمان ملکوں نے یوں بھی اپنے لیے تماشائی کا کردار ہی پسند کررکھا تھا۔ حماس تو روز اوّل سے جنگ بندی چاہتی تھی یہ اسرائیل تھا جو جنگ بندی کے نام سے الرجک تھا۔ اسی لیے جنگ بندی کا حماس کی خواہش کی تکمیل جان کر غزہ کو بربادی کے طوفانوں میں تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔ صدر پیوٹن بھی ٹرمپ کے زخموں پر نمک پاشی سے باز نہیں آئے بظاہر تو ان کے بیان سے ٹرمپ کو نوبل انعام نہ ملنے کا افسوس جھلکتا تھا مگر حقیقت میں وہ ٹرمپ کے ساتھ چھیڑ خانیاں کر رہے تھے۔ صدر پیوٹن کے اس ہمددردانہ بیان پر ٹرمپ کے جوابی تاثرات کچھ یوں ہوں گے۔

نہ چھیڑ اے نکہتِ باد بہاری راہ لگ اپنی

تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں

شہباز شریف نے شرم الشیخ کی محفل میں نوبل انعام کا قصہ چھیڑ کر ٹرمپ کے ان زخموں کو جھنجھوڑ ڈالا جنہیں اب رفتہ رفتہ نیند آنے لگی تھی۔ اب ایک سال انہیں مزید اس لمحے کا انتظار کرنا ہوگا جب پاکستان حکومت خط لکھ کر نوبل انعام کمیٹی سے صدر ٹرمپ کو انعام دینے کی سفارش کرے گی۔ ممکن ہے اس وقت تک کئی اور جنگیں بند کرواکر ٹرمپ اپنی سی وی مزید مضبوط کرچکے ہوں گے۔ پاک افغان جنگ نے تو ٹرمپ کے لیے ایسا ہی نادر موقع فراہم کیا ہے۔ یہ نوبل پیس پرائز بھی ایسا ہما ہے کہ ملنے پر آئے تو پاکستان کی عام سی لڑکی ملالہ یوسف زئی اور بھارت میں ایک آشرم چلانے والے کیلاش ستیارتھی پر مہربان ہو جاتا ہے اور نہ چاہے تو جنرل پرویز مشرف، انوارالسادات، شاہ حسین جیسے طاقتور حکمرانوں کو خجل خوار کراتا ہے۔ وہ اس کے تعاقب اور تلاش میں اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ واپسی کا راستہ ہی بھول بیٹھتے ہیں۔ اب صدر ٹرمپ بھی اسی راہ پر بگٹٹ دوڑ رہے ہیں وہ تو شاید تھک کر ہار مان لیتے مگر ان کے دوست اور خیر خواہ انہیں نوبل انعام دلوانے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں شرم الشیخ کی محفل سے تو یہی اندازہ ہورہا ہے۔

عارف بہار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: صدر ٹرمپ کی خواہش کی انہوں نے ٹرمپ کے

پڑھیں:

ٹرمپ کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے: فضل الرحمن

مردان (نوائے وقت رپورٹ) سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن نے مردان میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خونت ٹپک رہا ہے۔ ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دلوانے کی بات کر رہے ہیں۔ پاکستان، افغانستان کو اپنے رویوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ مسلح گروہ جنگ چھوڑ دیں۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ پاکستان وہ نہیں جس کی عوام نے امیدیں لگائی تھیں۔ حکومت عوام کو ان کے حقوق دے۔ 27 ویں ترمیم کے لئے ارکان خریدے گئے۔ جعلی اکثریت سے 27ویں ترمیم منظور کی گئی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ بانی پی ٹی آئی مغربی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ مغرب کے اصل ایجنڈے پر موجود حکومت عملدرآمد کر رہی ہے۔ ہماری افغان پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ ہم 78 سال میں افغانستان کو اپنا دوست نہیں بنا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • دوران حراست ملزمان کو اب کیا سہولیات دستیاب ہوں گی؟
  • صدر ٹرمپ کا طبی معائنہ: ایم آر آئی رپورٹ کیا کہتی ہے؟
  • دھمکیوں سے معاملات کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا؛ مشیر وزیر اعظم
  • دھمکیوں سے معاملات کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا، رانا ثنا
  • ایک ارب روپے سے اچھرہ بازار کو ماڈرن مارکیٹ میں تبدیل کیا جائے گا، عون چوہدری
  • ایڈز کے خلاف آگاہی کا عالمی دن: ’بیماری سے زیادہ معاشرے کے رویے کا خوف ہوتا ہے‘
  • چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن کے اجراء کی مدت مقرر نہیں، تاخیر سے آئینی یا انتظامی خلا نہیں ہوتا
  • ٹرمپ کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے: فضل الرحمن
  • نوبیل انعام یافتہ سائنس دانوں کی تشویش اور آئی سی سی بی ایس کا مستقبل
  • زمین پر قبضہ کا معاملہ مجرم کی موت اور سزا سے ختم نہیں ہوتا، عدالت عظمیٰ