تحریک لبیک کے پرتشدد مظاہروں میں، 2016 سے 2025 تک، پنجاب بھر میں 11 پولیس اہلکار شہید اور 1648 زخمی ہوئے، جن میں 69 مستقل معذور ہوگئے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق مظاہروں میں 16 شہری جاں بحق اور 54 زخمی ہوئے، جبکہ 97 گاڑیاں تباہ ہو گئیں اور 2 گاڑیاں جلائی گئیں۔ اس کے علاوہ متعدد میٹرو بسیں اور بس اسٹیشنز پر بھی توڑ پھوڑ کی گئی جبکہ پولیس کی 10 عمارتوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے امن و امان سے متعلق اہم اجلاس میں تحریک لبیک پر پابندی کی سفارش وفاق کو بھیجنے، نفرت انگیزی میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری، اور دہشتگردی کے مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ جماعت کی قیادت کو فورتھ شیڈول میں شامل کرنے، جائیدادیں محکمہ اوقاف کے حوالے کرنے، بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے ٹی ایل پی نے کیسے پولیس اہلکار اغوا کیے، گاڑیاں اور سرکاری اسلحہ چھینا؟

وی نیوز تجزیہ کاروں، سابق اعلیٰ پولیس افسران اور دیگر سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا تحریک لبیک پاکستان جیسی متشدد جماعتوں کا خاتمہ ہونا چاہیے اور ایسی جماعتوں کو کیسے ختم کیا جاتا ہے؟

معروف تجزیہ کار اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ماضی میں ٹی ایل پی جیسی مذہبی جماعتوں کو ریاستی پاور اسٹرکچر کے اندر سے حمایت ملتی رہی ہے، جس کے باعث وہ حکومتوں پر دباؤ ڈالنے اور انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے میں کامیاب رہیں۔

’تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) جیسی تنظیموں کو ابتدا میں سیاسی مقاصد کے لیے تشکیل دیا گیا تھا تاکہ بعض بڑی جماعتوں، خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو تقسیم کیا جا سکے۔ تاہم، اب یہ جماعت اپنی ’افادیت‘ ریاستی اداروں کے لیے کھو چکی ہے اور بظاہر اسے قومی اسٹرکچر کے اندر سے کوئی حمایت حاصل نہیں رہی ہے۔ ‘

یہ بھی پڑھیے ٹی ایل پی کارکنان کا پولیس وین پر قبضہ، سرکاری بس پر حملہ

احمد بلال محبوب نے کہا کہ چونکہ یہ جماعتیں ماضی میں طاقت کے مظاہرے سے اپنی سیاسی حیثیت مستحکم کرتی رہی ہیں، اسی لیے اب بھی یہ پُرتشدد طریقۂ کار اختیار کرتی ہیں تاکہ اپنی موجودگی اور اثرورسوخ ظاہر کر سکیں۔ تاہم اس بار ریاست نے ان کے سامنے جھکنے کے بجائے قانونی و سیکیورٹی کارروائی کی راہ اپنائی ہے۔ اگر ایسی تنظیمیں تشدد پر یقین رکھتی ہیں، دباؤ ڈالتی ہیں یا بلیک میل کرتی ہیں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ اگر قانون اجازت دے تو ان کے اثاثے منجمد کیے جائیں، قیادت کو گرفتار کیا جائے اور مقدمات قائم کیے جائیں۔

سابق انسپکٹر جنرل پولیس افضل شگری نے کہا کہ جب تک معاشرے میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوگی، نہ ترقی ممکن ہے اور نہ ہی استحکام آئے گا۔ احتجاج اور پر تشدد مظاہروں سے امن کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔

’اگر کوئی جماعت یا گروہ تشدد میں ملوث پایا جائے تو اس کے خلاف بلا تفریق کارروائی ہونی چاہیے۔ ماضی میں دیکھا گیا کہ پر تشدد ہجوم کے خلاف کارروائی کے بجائے ان سے مذاکرات کر لیے جاتے ہیں، اس طرح ہم نے قانون کو کمزور کر دیا ہے۔ اگر کوئی تنظیم تشدد کرتی ہے تو اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی ضروری ہے، ورنہ معاشرہ بگاڑ کا شکار رہے گا۔ ‘

یہ بھی پڑھیے بار بار احتجاج کے سبب اسلام آباد کی بندش، حکومت اس عمل کو کیسے روک سکتی ہے؟

افضل شگری نے کہا کہ جب کوئی جماعت چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی ہو قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس کے خلاف ایکشن لینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر ریاست بلیک میل ہو کر مذاکرات کی طرف جائے گی تو اس طرح عام شہریوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی اور یہ نا انصافی بڑھتی رہے گی۔ اس لیے ریاست کو چاہیے کہ وہ قانون کے خلاف ورزی کرنے والی کسی بھی جماعت کے خلاف فوری طور پر ایکشن لے اور اس کو قانون کے مطابق سزا دے تاکہ ان پر تشدد کارروائیوں کا خاتمہ ہو سکے۔

اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ اور ماہرِ سیاسیات ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  کسی بھی ملک میں اگر قانون توڑنے والوں کو سزا نہ دی جائے تو یہ ریاستی کمزوری کی علامت ہے۔ کسی بھی ملک میں کوئی قانون کے خلاف ورزی کرتا ہے چاہےجماعت کرتی یا ایک گروہ کرتا ہے اس کو اس قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے اگر اپ سزا نہیں دے سکتے اور ان کے خلاف کارروائی نہ ہوگی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ریاستی ادارے کمزور ہیں، قانون کی حکمرانی کا عمل کمزور ہے اور ریاست نرم ہو چکی ہے۔ جب سیاسی مصلحتوں یا دباؤ کے باعث قانون نافذ نہ ہو، تو ریاست کی رِٹ ختم ہو جاتی ہے اور معاشرے میں انتشار اور فساد جنم لیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے ٹی ایل پی کے احتجاج سے ملکی معیشت کو کتنا نقصان پہنچا؟

 ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً بلوچستان، سندھ اور کچے کے علاقوں میں جرائم اس لیے بڑھ رہے ہیں کیونکہ مجرموں کو یقین ہے کہ ریاست ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔ جب کسی گروہ یا فرد کو یہ اعتماد ہو جائے کہ قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا، تو وہ مذہب، فرقے یا نظریے کا سہارا لے کر طاقت حاصل کر لیتے ہیں، اور ریاست ان کے سامنے کمزور پڑ جاتی ہے۔

ان کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ ریاست نے اپنے آئین اور قانون کی بالادستی کو منوانے میں کمزوریاں دکھائی ہیں، جس کے نتیجے میں ایسے گروہ مزید طاقتور ہو چکے ہیں۔ اگر ریاست آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرے تو تحریک لبیک جیسی متشدد جماعتوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

تحریک لبیک پاکستان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تحریک لبیک پاکستان تحریک لبیک پاکستان خلاف ورزی ٹی ایل پی نے کہا کہ کے مطابق قانون کے قانون کی کے خلاف ہے اور

پڑھیں:

مرکزی مسلم لیگ کاعبدالرحمن کی گرفتاری کے خلاف احتجاج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر) مرکزی مسلم لیگ شاہ فیصل ٹاؤن کے ذمہ دار عبدالرحمن کی گرفتاری کے خلاف سرجانی ٹاؤن تھانے کے باہر پرامن احتجاج کیا گیا، جہاں مرکزی مسلم لیگ کراچی کے صدر ندیم اعوان کی قیادت میں کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ شرکانے عبدالرحمن کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ کراچی صدر ندیم اعوان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی مسلم لیگ ایک قانون دوست جماعت ہے تاہم بغیر نام کی ایف آئی آر میں ایک ذمے دار کارکن کو گرفتار کرنا افسوسناک اور ناقابل قبول عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گرفتاری کے دوران عبدالرحمٰن کو زد و کوب کیا گیا جس کی وہ سخت مذمت کرتے ہیں۔بعض کالے کوٹ والے عناصر شہریوں پر کالا قانون تھوپنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قابل افسوس ہے۔ بغیر ثبوت اور تحقیقات کے چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ ایسے اقدامات کھلی زیادتی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ بار کو ان وکلا کے لائسنس منسوخ کرنے چاہییںجو غیر قانونی کارروائیوں کا حصہ بنتے ہیں۔ احمد ندیم اعوان نے کہاکہ بلڈر مافیا اور دیگر بااثر عناصر کے ایما پر عبدالرحمن کو نشانہ بنایا گیا۔ سرجانی تھانے کی پولیس اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے شاہ فیصل ٹاؤن پہنچی جو سخت قابلِ اعتراض ہے۔ ہمارا عبدالرحمٰن کی رہائی تک پرامن احتجاج جاری رہے گا۔ رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی دباؤ کے بجائے حقائق کی بنیاد پر کارروائیاں کریں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔

اسٹاف رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور ریاست مخالف پروپیگنڈا کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا سراغ مل گیا، اہم انکشافات
  • پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتوں کی تحریک منظور
  • نوازشریف نے قومی اسمبلی کے رواں پورے اجلاس سے رخصت لے لی
  • ایک بدنام زمانہ ڈاکو نے کیسے چوہدری اسلم سمیت دیگر پولیس افسران کو جیل بھیجا؟
  • قاسم آباد میںبیوی کو قتل کرنے والے ملزم شوہر کے خلاف مقدمہ درج
  • تحریک تحفظ آئین پاکستان نے حکومت سے مذاکرات کیلئے شرائط پیش کردیں،چوری شدہ انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ
  • ریاست اور پارلیمان کے خلاف باتیں کرنا غیر مناسب ہے، سردار ایاز صادق
  • قانون کی خلاف ورزی کرنے والا اب نہیں بچے گا؛ ٹریفک پولیس کا ڈرونز کا استعمال شروع
  • پارلیمنٹ کے خلاف سازش کرنے والے ریاست پاکستان کے دشمن ہیں، اسپیکر قومی اسمبلی
  • مرکزی مسلم لیگ کاعبدالرحمن کی گرفتاری کے خلاف احتجاج