افغان شہریوں کا دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونا تشویشناک ہے،وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے افغان سر زمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں افغان شہریوں کی ملوثیت کو شدید تشویشناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے حوالے سے اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کی، جس میں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اور دیگر حکام نے شرکت کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں بہت سی قربانیاں دی ہیں اور افغان نگران حکومت سے بارہا مذاکرات کیے گئے تاکہ پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکا جا سکے۔ انہوں نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ 16 اکتوبر تک 14 لاکھ 77 ہزار سے زائد افغان باشندوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے اور مزید کسی کو اضافی مہلت نہیں دی جائے گی۔
شہباز شریف نے مسلح افواج کی سرحدی کارروائیوں کی تعریف کی اور کہا کہ افواج پاکستان نے افغان حملوں کا بھرپور جواب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں اور وفاقی اداروں کو قریبی تعاون کے ساتھ غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی یقینی بنانی ہوگی اور خاص طور پر بزرگوں، خواتین اور بچوں کے ساتھ باعزت رویہ اختیار کیا جائے۔
اجلاس میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کی بھی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا، جہاں افغان وفد کی قیادت وزیر دفاع ملا یعقوب کریں گے اور پاکستان کی جانب سے سیکیورٹی حکام شرکت کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان افغان مہاجرین کے مسئلے پر سفارتی و سیاسی اقدامات جاری رکھے گا اور ملکی سلامتی کے تحفظ کو اولین ترجیح دے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان تعمیری مذاکرات میں مصروف ہیں: دفتر خارجہ
دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک مسائل کے پُرامن حل کے لیے تعمیری مذاکرات میں مصروف ہیں۔
اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان نے مسلسل افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہ “فتنۃ الخوارج” کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے۔ ان کے مطابق 11 سے 15 اکتوبر کے دوران سرحدی علاقوں پر طالبان کی جانب سے کیے گئے اشتعال انگیز حملوں پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں، تاہم ان حملوں کا مؤثر جواب دیا گیا اور دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے دہشت گردوں کو پسپا کیا گیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ جوابی کارروائی صرف دہشت گرد عناصر کے خلاف کی گئی، شہری آبادی کو نقصان پہنچانے سے گریز کیا گیا۔ اس کے بعد، طالبان کی درخواست پر 15 اکتوبر شام 6 بجے سے 48 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان توقع رکھتا ہے کہ طالبان حکومت اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے وعدے پر قائم رہے گی، اور دہشت گرد عناصر کے خلاف مؤثر اور عملی اقدامات اٹھائے گی۔
افغان مہاجرین سے متعلق بات کرتے ہوئے شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان نے چار دہائیوں تک تقریباً 40 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کی، لیکن اب غیر ملکیوں کی موجودگی کو عالمی اصولوں اور ملکی قوانین کے مطابق منظم کیا جائے گا۔
ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان ایک پُرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے، اور اُمید ہے کہ افغان عوام جلد ایک نمائندہ اور جامع حکومت کے سائے تلے پرامن زندگی گزار سکیں گے۔
بھارت اور افغانستان کے حالیہ مشترکہ اعلامیے پر پاکستان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ترجمان نے اعلامیے میں جموں و کشمیر سے متعلق مؤقف کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
انہوں نے افغان وزیر خارجہ کے اس بیان کو بھی مسترد کیا کہ “دہشت گردی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے”۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کو اُن دہشت گرد گروہوں کی فہرستیں اور شواہد فراہم کیے ہیں جو پاکستانی سرزمین پر حملوں میں ملوث ہیں۔
شفقت علی خان نے کہا کہ افغان حکومت دہشت گردوں کی اپنی سرزمین پر موجودگی کی ذمہ داری سے خود کو بری نہیں کر سکتی۔ افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کی ذمے داری افغان قیادت پر بھی برابر عائد ہوتی ہے۔