data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251018-02-18

 

 

کراچی (رپورٹ: حماد حسین ) ملکی و بین الاقوامی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں خوراک کی پیداوار ناکافی، ضائع ہونے کی شرح خطرناک حد تک زیادہ، اور غذائی عادات غیر متوازن ہیں، جس کے باعث قومی سطح پر صحت، معیشت اور خوراک کی سلامتی خطرے میں ہے۔جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ پاکستان زرعی ملک کہلانے کے باوجود گندم، دالیں، تیل اور دیگر اجناس درآمد کرتا ہے۔ ہماری پیداوار یا تو ضروریات کے مطابق نہیں یا پھر ناقص منصوبہ بندی اور ناکام پالیسیوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کم رقبے پر جدید ٹیکنالوجی سے زیادہ پیداوار حاصل کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں فصلوں کا 30 فیصد تک حصہ منڈی پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہوجاتا ہے۔شعبہ فوڈ سائنس کے ماہر غذائیت ڈاکٹر سید محمد غفران سعید نے بتایا کہ پاکستان میں فی کس سالانہ 22 سے 24 کلوگرام چکنائی (Fat) استعمال کی جا رہی ہے جو دنیا بھر میں بلند ترین سطح پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی، نمک، سچوریٹڈ فیٹس اور ٹرانس فیٹس کے بیتحاشہ استعمال نے نوجوانوں میں ہائی بلڈ پریشر، ذیابطیس اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کو اس بات کا ادراک نہیں کہ غذائی توازن کے بغیر جسمانی سرگرمیاں بے اثر ہیں۔ ڈاکٹر غفران نے کہا کہ صحت عامہ کے نظام میں غذائی آگہی شامل نہیں، جبکہ اسکول اور کالج سطح پر غذائیت کی تعلیم نہ ہونے سے نوجوان نسل فاسٹ فوڈ اور مشروبات کی جانب مائل ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر پیدرو آندریس گارزون ڈیلواکس نے کہا کہ پاکستان تیزی سے شہری ملک بن رہا ہے، جہاں شہری آبادی میں 2.

35 فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے، جس نے خوراک کے نظام پر شدید دباؤ ڈال دیا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کے پاس متنوع زرعی امکانات موجود ہیں مگر انفراسٹرکچر کی کمی، ذخیرہ گاہوں کی خستہ حالی اور جدید ٹیکنالوجی کے فقدان نے غذائی خودکفالت کے امکانات کو کم کر دیا ہے۔صدر شعبہ فوڈ سائنس جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر عبد الحق نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں فصلوں کے ضیاع کی شرح 10 فیصد سے کم ہے جبکہ پاکستان میں یہ 30 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان صرف 3 فیصد پھلوں کو جوس یا جام کی صورت میں پروسیس کرتا ہے جبکہ برازیل 80 فیصد پھل کو استعمال کرتا ہے۔ یہ ویلیو ایڈیشن میں ہماری کمزوری اور صنعتی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔رئیس کلیہ علوم پروفیسر ڈاکٹر مسرت جہاں یوسف نے کہا کہ خوراک کی حفاظت اور غذائیت پر تحقیق قومی ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔ جب تک حکومت، تعلیمی ادارے اور صنعت ایک مشترکہ حکمتِ عملی اختیار نہیں کرتے، اس وقت تک غذائی بحران بڑھتا رہے گا۔ماہرین نے تجویز دی کہ حکومت جدید زراعت، غذائی تعلیم، شفاف مارکیٹ نظام اور صحت عامہ کی پالیسیوں کو مربوط کرے، تاکہ عوام غذائی کمی، بیماریوں اور غربت کے تین گنا خطرے سے محفوظ رہ سکیں۔

 

حماد حسین

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کہ پاکستان میں نے کہا کہ کرتا ہے

پڑھیں:

حیدرآباد میں ڈینگی تیزی سے پھیلنے لگا، اسپتالوںمیں سہولیات ناکافی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) شمع کمرشل ایسوسی ایشن اینڈ ٹریڈ انڈسٹری گورننگ باڈی کا ایک ہنگامی اجلاس چیئرمین حاجی جاوید خلجی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ایسوسی ایشن کے صدر اعجاز علی راجپوت ،نائب صدر اشفاق سومرو ،جنرل سیکرٹری نواب الدین قریشی سمیت دیگر عہدیداران و اراکین گورننگ باڈی نے شرکت کی ۔اجلاس میں حیدرآباد میں ڈینگی وائرس کے تیزی سے پھیلنے اور ہزاروں افراد کو اپنی لپیٹ میں لینے ،سرکاری اسپتالوں میں ناکافی سہولیات ،ڈینگی ٹیسٹ کی فری سہولت ختم کرنے اور بروقت مچھر مار اسپرے نہ کرانے جیسی صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا گیا ۔اجلاس سے چیئرمین حاجی جاوید خلجی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حالیہ بارشوں کا پانی کھلے میدانوں میں کھڑا ہونے سے مچھر کی افزائش میں اضافہ ہوا ہے اگر انتظامیہ اور ذمے دار ادارے بروقت پانی کی نکاسی اور مچھر مار اسپرے مہم شروع کردیتے تو شہریوں کو ڈینگی وائرس وبا سے کافی حد تک بچایا جاسکتا تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس جانب توجہ دینے کے بجائے افسران کے اقدامات محض اجلاس کرنے تک محدود دکھائی دیے۔صدر اعجاز علی راجپوت نے کہاکہ متعلقہ اداروں کی نااہلی اور بروقت مچھر مار اسپرے نہ کرانے سے ایک طرف ہزاروں کی تعداد میں شہری متاثر ہوئے دوسری طرف کئی قیمتی جانیں اس وبا کا شکار ہوئی ہیں۔ جنرل سیکرٹری نواب الدین قریشی نے کہاکہ صحت کے شعبہ کے لیے اربوں روپے فنڈز ہونے کے باوجود سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کی کمی ایک افسوسناک اور قابل گرفت عمل ہے جس کی اعلی سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • بڑی صنعتوں کی پیداوار میں جولائی سے اگست 4.44 فیصد اضافہ ریکارڈ
  • آبادی کے لحاظ سے پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے آگے، کس صوبے کی پاپولیشن زیادہ بڑھ رہی ہے؟
  • سندھ میں تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت
  • مالی سال کے پہلے 2 ماہ میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 4.44 فیصد اضافہ
  • کراچی میں پانی کا بحران سنگین ہوگیا، عوام پریشان
  • پاکستان سروسز لمیٹڈ نے 28 فیصد ووٹنگ شیئرز حاصل کر لیے
  • سیلاب سے پنجاب کے فش فارمز کو شدید نقصان، مچھلی کی پیداوار و مارکیٹ بحران کا شکار
  • حیدرآباد میں ڈینگی تیزی سے پھیلنے لگا، اسپتالوںمیں سہولیات ناکافی
  • ماحولیاتی بحران سنگین تر، 2024 میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں ریکارڈ اضافہ