پاکستان موسمیاتی اعتبار سے متاثر ہونیوالا دنیا کا 5واں ملک ہے‘ڈاکٹر توقیر شاہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251020-08-19
روم /اسلام آباد(آن لائن) وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر سید توقیر شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان موسمیاتی اعتبار سے متاثر ہونے والا دنیا کا پانچواں ملک ہے‘ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کی قومی غذائی سلامتی دہرے خطرات سے دوچار ہے ان خطرات سے نمٹنے کے لیے عالمی اداروں کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے روم میں عالمی موسمیاتی مالیاتی ادارے کے زیر اہتمام منعقدہ واٹر ڈائیلاگ سے خطاب کے دوران کیا۔ ڈائیلاگ میں سیکڑوں ممالک کے سربرہان مملکت و وزرا اور سول سوسائٹی اور ترقیاتی اداروں کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ پانی کا بحران پاکستان سمیت بہت سے ممالک کے لیے ایک وجودی چیلنج ہے اور پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا پانچواں ملک ہے جسے انتہائی موسمیاتی واقعات اور دائمی وسائل کے دبائو کے دوہرے خطرات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے قومی غذائی سلامتی خطرے میں ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو 2 طرح کے حالات کا سامنا ہے جن میں تباہ کن سیلابی صورتحال جیسا 2022ء میں دیکھا گیا جہاں ملک بھر میں سیلاب کی وجہ سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے، 4 ملین ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہوئی اور ایک کروڑ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہوگئے، حالیہ 2025 ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں کی شدت بھی اتنی ہی تباہ کن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دوسرا بڑا چیلنج پانی کی شدید کمی کا بھی ہے، پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 30 دن کی سپلائی تک محدود ہے ۔انہوں نے کہا کہ واضح اور فوری ضرورت کے طور پر ہمیں اپنے واٹر اسٹرکچر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جہاں روایتی اور زیادہ ذخیرہ کرنے والے حل کے ساتھ ساتھ فطرت پر مبنی حل، سیلابی میدانوں کی بحالی، لچکدار آبپاشی کی تکنیکوں کی ترقی اور واٹر شیڈ مینجمنٹ کے نفاذ کے امتزاج کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عالمی موسمیاتی مالیاتی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو 2030 ء تک صرف موافقت کے لیے سالانہ 7 سے 14 ارب ڈالر کی ضرورت ہے،اس کے باوجود ہم ایک ایسے عالمی مالیاتی ڈھانچے کا سامنا کر رہے ہیں جو مطلوبہ سرمایہ کاری کو ایک تضاد میں بدل دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ عالمی موسمیاتی فنڈ کی ناکامیوں کی وجہ سے پانی کی لچک میں سرمایہ کاری اور اختراع کی ہماری صلاحیت کو براہ راست متاثر کرتا ہے، قومی ضرورت کے باوجود پاکستان دستیاب عالمی موسمیاتی فنڈز سے محروم رہا ہے کیونکہ بین الاقوامی معیار اکثر انتہائی مخصوص، تکنیکی طور پر پیچیدہ اور دیگر مطالبات کی زد میں ہے، اس میں ادارہ جاتی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ منظور شدہ فنڈز بھی سست ترسیل اور کئی سالہ قانونی عمل کے تابع ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر دستیاب موسمیاتی فنڈز قرضوں اور رعایتی قرضوں کی شکل میں ہوتے ہیں جس میں صرف ایک چھوٹا سا حصہ گرانٹس کے طور پر دستیاب ہوتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عالمی موسمیاتی انہوں نے کہا کہ کی ضرورت ہے
پڑھیں:
ڈبلیو ایچ او نے عالمی سطح اینٹی بائیوٹکس مزاحمت میں اضافے سے خبردار کردیا
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے اپنی تازہ رپورٹ میں دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹکس کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اینٹی بائیوٹکس کے بے تحاشا اور غلط استعمال کی وجہ سے ایسے بیکٹیریا پیدا ہو رہے ہیں جو عام دواؤں سے متاثر نہیں ہوتے۔
اس رجحان کو “سپر بگز (Superbugs)” کہا جاتا ہے جو نہ صرف علاج کو مشکل بناتے ہیں بلکہ ہر سال لاکھوں اموات کا سبب بھی بنتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2050 تک اینٹی بائیوٹک مزاحم انفیکشنز دنیا میں سب سے بڑی موت کی وجہ بن سکتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اینٹی بائیوٹکس کے غلط استعمال کو روکیں اور بیکٹیریل انفیکشنز کی نگرانی کو بہتر بنائیں۔
مزید برآں نئی اینٹی بائیوٹکس کی تیاری پر تحقیق میں مشترکہ سرمایہ کاری کریں۔