Islam Times:
2025-10-21@23:15:15 GMT

غزہ جنگ کا نیا کمانڈر

اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT

غزہ جنگ کا نیا کمانڈر

اسلام ٹائمز: شرم الشیخ اجلاس کے حوالے سے حماس کا موقف انتہائی سیاسی پختگی پر مبنی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ شائد حماس کی قیادت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ٹھوس حکمت عملی کیساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ یقینی طور پر امریکہ کا نیا منصوبہ نیتن یاہو کا بھی حمایت یافتہ ہے۔ جو اس جانب اشارہ ہے کہ ہم تو حماس کو ختم نہیں کرسکے، تم آو اور ہماری مدد کرو۔ اگر یوں کہا جائے کہ غزہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تو غلط نہ ہوگا، بلکہ اس کی کمانڈ اسرائیل کی بجائے واشنگٹن نے سنبھال لی ہے۔ رپورٹ: سید عدیل عباس

شرم الشیخ اجلاس میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کے باوجود یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ غزہ میں امن کا قیام ابھی دور ہے، کبھی صیہونی عہدیداروں کی جانب سے حماس کو لیکر دی جانے والی دھمکیاں، علاقہ میں غیر ملکی فوجوں کی آمد اور امریکہ کی پراسرار سرگرمیاں سنجیدہ حلقوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ اسرائیل اور واشنگٹن کا منصوبہ کچھ اور ہی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے مقبوضہ سرزمینوں میں فوجی اڈہ قائم کرکے دراصل غزہ اور اسرائیل میں ہونے والی پیشرفت کی زمینی سطح پر کمان سنبھال لی ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے کریات گات میں اپنے فوجی اڈہ قائم کرنے کا مقصد یہی نظر آرہا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ اب شائد غیر ملکی فوجوں کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکے۔ یہ اڈہ، جو شہر کریات گات میں واقع ہے، ٹرمپ منصوبے کے دوسرے مرحلے کو نافذ کرنے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔

اس منصوبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنا اور غزہ پٹی پر امریکی سکیورٹی نظام مسلط کرنا ہے۔ اخبار یدیعوت آحارونوت کی رپورٹ کے مطابق صہیونی حکومت کی سکیورٹی کابینہ اس ہفتے ایک اجلاس منعقد کرے گی، جو براہِ راست امریکی نمائندوں کی نگرانی میں ہوگا۔ اسی سلسلے میں امریکہ کے نائب صدر جی ڈی ونس تل ابیب پہنچیں گے، تاکہ جَیرڈ کُشنر اور اسٹیو وِٹکاف کے ساتھ مل کر جنگ بندی کو مستحکم کرنے اور منصوبے کے نفاذ کے عمل کی نگرانی کریں۔ اس عبرانی اخبار نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل اب ایک "محفوظ امریکی علاقہ" بن چکا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں فیصلے واشنگٹن میں کیے جاتے ہیں اور تل ابیب محض ان احکامات پر عمل درآمد کرتا ہے۔ امریکی نمائندوں کی کریات گات فوجی اڈے پر موجودگی اور معاہدے کی تفصیلات پر ان کی نگرانی بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ واشنگٹن کی مداخلت قابض حکومت کے سیاسی و عسکری ڈھانچے میں کتنی گہری ہوچکی ہے۔

اسرائیل کا ایک سکیورٹی وفد جس میں فوج اور انٹیلی جنس کے نمائندے شامل ہیں، قاہرہ روانہ ہوا ہے، تاکہ جنگ کے بعد کے مرحلے اور غزہ کی تعمیرِ نو کے بارے میں مذاکرات کرسکے۔ تاہم، عبرانی ذرائع اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زمینی حقائق کا تعین امریکہ ہی کر رہا ہے۔ جیسا کہ ٹرمپ کی جانب سے انسانی امداد دوبارہ شروع کرنے کے حکم کے صرف ایک دن بعد ہی اسرائیل نے پیچھے ہٹتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ سرحدی راستے کھول دے گا، اگرچہ رفح کراسنگ اب بھی بند ہے، تاکہ اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی صورتحال واضح ہوسکے۔ کریات گات میں امریکہ کا فوجی اڈہ 200 امریکی فوجیوں کی موجودگی کے ساتھ کام شروع کرچکا ہے اور اس کا کام غیر ملکی فوجی دستوں کی غزہ میں داخلے کی نگرانی کرنا ہے۔ یہ دستے مختلف ممالک، بشمول امارات، انڈونیشیا، آذربائیجان، مصر اور ممکنہ طور پر قطر اور ترکی سے ہوں گے۔ اس اڈے کی کمان امریکی جنرل پاتریک فرانک کے سپرد ہے، جبکہ نائب کمانڈر ایک برطانوی جنرل ہوں گے۔

شائع شدہ اطلاعات کے مطابق معاہدے کے دوسرے مرحلے میں ہزاروں غیر ملکی فوجی غزہ میں داخل ہوں گے، جن کا مشن مزاحمت کو غیر مسلح کرنا اور دفاعی ڈھانچوں، بشمول سرنگوں، کو تباہ کرنا ہوگا۔ صہیونی حکومت نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقات میں اپنے قیدیوں کی تلاش کے عمل کو تیز کرنے اور حماس کی طرف سے ان کی واپسی کی ضمانت لینے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ اعلان بھی کیا ہے کہ غزہ کی تعمیرِ نو قیدیوں کی لاشوں کی واپسی اور مزاحمت کے مکمل غیر مسلح ہونے سے مشروط ہوگی۔ یہ پیشرفت اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ امریکہ کھلے عام غزہ کے سیاسی اور سکیورٹی مستقبل کو انجینئر کرنے اور اپنی مرضی فلسطینی عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن عوامی مزاحمت اور مزاحمتی دھاروں کی بیداری کے باعث یہ منصوبہ بھی ماضی کی طرح بلاشبہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔

شرم الشیخ اجلاس کے حوالے سے حماس کا موقف انتہائی سیاسی پختگی پر مبنی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ شائد حماس کی قیادت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ٹھوس حکمت عملی کیساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ یقینی طور پر امریکہ کا نیا منصوبہ نیتن یاہو کا بھی حمایت یافتہ ہے۔ جو اس جانب اشارہ ہے کہ ہم تو حماس کو ختم نہیں کرسکے، تم آو اور ہماری مدد کرو۔ اگر یوں کہا جائے کہ غزہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تو غلط نہ ہوگا، بلکہ اس کی کمانڈ اسرائیل کی بجائے واشنگٹن نے سنبھال لی ہے۔ اس صورتحال میں پورے خطہ کا امن ایک مرتبہ پھر داو پر لگ رہا ہے۔ امریکہ ہر صورت مقاومت کو براہ راست چیلنج کرنے کی کوشش میں ہے، جہاں یہ صورتحال امریکی براہ راست مداخلت کو واضح کرتی ہے، وہیں اسرائیل کی ناکامی کا بھی واضح ثبوت ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا وہ عرب و مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک جو ٹرمپ منصوبہ کو "امن منصوبہ" کو نام دے رہے تھے، کہیں ایک بار پھر اہل غزہ کیساتھ خیانت کے مرتکب تو نہیں ہوئے۔؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی نگرانی ختم نہیں غیر ملکی کہ غزہ رہا ہے کیا ہے

پڑھیں:

ایرانی قوم معاہدے کے بہانے دباؤ تسلیم نہیں کریگی، رہبر معظم انقلاب

اپنے ایک خطاب میں رہبر مسلمین جہاں کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کا امریکی دعویٰ، سراسر جھوٹ ہے۔ غزہ کی جنگ میں 20 ہزار سے زائد معصوم بچے شہید ہوئے۔ کیا وہ بچے دہشتگرد تھے؟۔ اسلام ٹائمز۔ گزشتہ روز رہبر معظم انقلاب آیت الله سید علی خامنہ ای نے ایرانی کھلاڑیوں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے خطے اور ایران کے خلاف ڈونلڈ ٹرامپ کی ہرزہ سرائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر نے مقبوضہ فلسطین کے سفر اور بے معنی باتوں کے ذریعے، مایوس صیہونیوں کو امید دلانے و ان کا مورال بڑھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ صیہونیوں کی مایوسی کی وجہ 12 روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کا زبردست طمانچہ ہے۔صیہونیوں کو توقع نہیں تھی کہ ایرانی میزائل اپنی آگ و حرارت کے ساتھ ان کے اہم اور حساس مراکز کے دل میں اتر کر انہیں تباہ و برباد کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری مسلح افواج اور عسکری صنعت نے ان میزائلوں کو بنایا اور استعمال کیا۔ ہمارے میزائل اب بھی تیار ہیں، اگر ضرورت پڑی تو اُنہیں دوبارہ استعمال کریں گے۔ حضرت آیت الله سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ایران نے یہ میزائل کہیں سے خریدے یا کرائے پر نہیں لئے بلکہ یہ ہمارے اپنے نوجوانوں کی تخلیق کا شاہکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہمارا نوجوان میدان میں اترتا ہے اور سائنسی بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے تو وہ ایسے عظیم کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے صیہونیوں کو حوصلہ دینے کے لئے ڈونلڈ ٹرامپ کی بیہودہ باتوں کے جانب اشارہ کرنے کے بعد، امریکہ کی دیگر تباہ کاریوں سے پردہ اٹھایا۔

اس بارے میں رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ بلاشبہ غزہ کی جنگ میں امریکہ، صیہونی جرائم میں مکمل طور پر شریک ہے۔ بلکہ امریکی صدر خود بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ صیہونی رژیم کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ امریکہ کے ہتھیاروں اور جنگی ساز و سامان ہی سے غزہ کے بے بس لوگوں پر بم برسائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا امریکی دعویٰ، سراسر جھوٹ ہے۔ غزہ کی جنگ میں 20 ہزار سے زائد معصوم بچے شہید ہوئے۔ کیا وہ بچے دہشت گرد تھے؟۔ اصل دہشت گرد تو خود امریکہ ہے جس نے داعش جیسے گروہ بنا کر پورے خطے میں پھیلائے اور آج بھی اس کے کچھ عناصر کو ایک خاص مقام پر اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ رہبر معظم انقلاب نے غزہ کی جنگ میں تقریباً 70 ہزار افراد اور 12 روزہ جنگ میں 1 ہزار سے زیادہ ایرانیوں کی شہادت کو امریکہ و اسرائیل کے دہشت گردانہ مزاج کا واضح ثبوت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان شیاطین نے عوام کے اجتماعی قتل و غارت کے علاوہ ہمارے سائنسدانوں کو بھی شہید کیا۔ پھر وہ ان جرائم پر فخر بھی کرتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ شخصیات کے قتل سے علم کا گلہ نہیں گھونٹا جا سکتا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ امریکی صدر فخر سے ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کر کے اسے تباہ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنے والے تم ہوتے کون ہو کہ کس کے پاس جوہری ٹیکنالوجی ہونی چاہئے اور کس کے پاس نہیں۔ امریکہ کا اس بات سے کیا لینا دینا کہ ایران کے پاس جوہری صلاحیت ہے یا نہیں؟۔ یہ نامناسب، غلط اور زبردستی مداخلت ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران حضرت آیت الله سید علی خامنہ ای نے امریکہ کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں ڈونلڈ ٹرامپ کے خلاف ہونے والے وسیع مظاہروں کا تذکرہ کیا، جس میں سات ملین افراد شریک ہوئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ اگر تمہیں اپنی طاقت پر اتنا ہی ناز ہے تو جھوٹ پھیلانے، دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنے اور وہاں فوجی اڈے بنانے کی بجائے، ان لاکھوں لوگوں کو سنبھالو اور انہیں اپنے گھروں میں واپس بھیجو۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا اصلی نمونہ، امریکہ ہے۔ ایرانی عوام کی حمایت کا امریکی دعویٰ فقط جھوٹ ہے۔ کیونکہ امریکی ثانوی پابندیاں براہ راست ایرانی عوام کو متاثر کرتی ہیں۔ اس بناء پر تم ایرانی عوام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہو۔ ٹرامپ کی جانب سے ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ کہتا ہے کہ میں معاہدہ کرنے کا حامی ہوں، لیکن اگر معاہدہ زبردستی تھوپا جا رہا ہو اور اس کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہو، تو یہ معاہدہ نہیں بلکہ زبردستی اور دباؤ ہے۔ جسے ایرانی عوام ہرگز قبول نہیں کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی صدرکا جارحانہ رویہ،  حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی  دھمکی
  • ایرانی قوم معاہدے کے بہانے دباؤ تسلیم نہیں کریگی، رہبر معظم انقلاب
  • امریکی سلطنت کے زوال کی علامات
  • غزہ میں جنگ بندی متاثر نہیں ہوئی، اسرائیلی کارروائیاں زیرِ غور ہیں،  ڈونلڈ ٹرمپ
  • غزہ میں 98فلسطینیوں کا خون بہانے کے بعد اسرائیل نے جنگ بندی معاہدہ بحال کر دیا
  • اسرائیل کا 120 میزائل حملے، 97 فلسطینی شہید کرنے کے بعد جنگ بندی معاہدہ بحال
  • سیز فائر میں درجنوں فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد اسرائیل کا جنگ بندی بحالی کا نیا ڈرامہ
  • غزہ امن منصوبہ: جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی من مانی جاری
  • غزہ میں ٹرمپ کا جنگبندی منصوبہ اسرائیلی رژیم کے ہاتھوں ناکام ہو گا، امریکی ماہر