اسلام ٹائمز: شرم الشیخ اجلاس کے حوالے سے حماس کا موقف انتہائی سیاسی پختگی پر مبنی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ شائد حماس کی قیادت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ٹھوس حکمت عملی کیساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ یقینی طور پر امریکہ کا نیا منصوبہ نیتن یاہو کا بھی حمایت یافتہ ہے۔ جو اس جانب اشارہ ہے کہ ہم تو حماس کو ختم نہیں کرسکے، تم آو اور ہماری مدد کرو۔ اگر یوں کہا جائے کہ غزہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تو غلط نہ ہوگا، بلکہ اس کی کمانڈ اسرائیل کی بجائے واشنگٹن نے سنبھال لی ہے۔ رپورٹ: سید عدیل عباس
شرم الشیخ اجلاس میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کے باوجود یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ غزہ میں امن کا قیام ابھی دور ہے، کبھی صیہونی عہدیداروں کی جانب سے حماس کو لیکر دی جانے والی دھمکیاں، علاقہ میں غیر ملکی فوجوں کی آمد اور امریکہ کی پراسرار سرگرمیاں سنجیدہ حلقوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ اسرائیل اور واشنگٹن کا منصوبہ کچھ اور ہی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے مقبوضہ سرزمینوں میں فوجی اڈہ قائم کرکے دراصل غزہ اور اسرائیل میں ہونے والی پیشرفت کی زمینی سطح پر کمان سنبھال لی ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے کریات گات میں اپنے فوجی اڈہ قائم کرنے کا مقصد یہی نظر آرہا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ اب شائد غیر ملکی فوجوں کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکے۔ یہ اڈہ، جو شہر کریات گات میں واقع ہے، ٹرمپ منصوبے کے دوسرے مرحلے کو نافذ کرنے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔
اس منصوبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنا اور غزہ پٹی پر امریکی سکیورٹی نظام مسلط کرنا ہے۔ اخبار یدیعوت آحارونوت کی رپورٹ کے مطابق صہیونی حکومت کی سکیورٹی کابینہ اس ہفتے ایک اجلاس منعقد کرے گی، جو براہِ راست امریکی نمائندوں کی نگرانی میں ہوگا۔ اسی سلسلے میں امریکہ کے نائب صدر جی ڈی ونس تل ابیب پہنچیں گے، تاکہ جَیرڈ کُشنر اور اسٹیو وِٹکاف کے ساتھ مل کر جنگ بندی کو مستحکم کرنے اور منصوبے کے نفاذ کے عمل کی نگرانی کریں۔ اس عبرانی اخبار نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل اب ایک "محفوظ امریکی علاقہ" بن چکا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں فیصلے واشنگٹن میں کیے جاتے ہیں اور تل ابیب محض ان احکامات پر عمل درآمد کرتا ہے۔ امریکی نمائندوں کی کریات گات فوجی اڈے پر موجودگی اور معاہدے کی تفصیلات پر ان کی نگرانی بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ واشنگٹن کی مداخلت قابض حکومت کے سیاسی و عسکری ڈھانچے میں کتنی گہری ہوچکی ہے۔
اسرائیل کا ایک سکیورٹی وفد جس میں فوج اور انٹیلی جنس کے نمائندے شامل ہیں، قاہرہ روانہ ہوا ہے، تاکہ جنگ کے بعد کے مرحلے اور غزہ کی تعمیرِ نو کے بارے میں مذاکرات کرسکے۔ تاہم، عبرانی ذرائع اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زمینی حقائق کا تعین امریکہ ہی کر رہا ہے۔ جیسا کہ ٹرمپ کی جانب سے انسانی امداد دوبارہ شروع کرنے کے حکم کے صرف ایک دن بعد ہی اسرائیل نے پیچھے ہٹتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ سرحدی راستے کھول دے گا، اگرچہ رفح کراسنگ اب بھی بند ہے، تاکہ اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی صورتحال واضح ہوسکے۔ کریات گات میں امریکہ کا فوجی اڈہ 200 امریکی فوجیوں کی موجودگی کے ساتھ کام شروع کرچکا ہے اور اس کا کام غیر ملکی فوجی دستوں کی غزہ میں داخلے کی نگرانی کرنا ہے۔ یہ دستے مختلف ممالک، بشمول امارات، انڈونیشیا، آذربائیجان، مصر اور ممکنہ طور پر قطر اور ترکی سے ہوں گے۔ اس اڈے کی کمان امریکی جنرل پاتریک فرانک کے سپرد ہے، جبکہ نائب کمانڈر ایک برطانوی جنرل ہوں گے۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق معاہدے کے دوسرے مرحلے میں ہزاروں غیر ملکی فوجی غزہ میں داخل ہوں گے، جن کا مشن مزاحمت کو غیر مسلح کرنا اور دفاعی ڈھانچوں، بشمول سرنگوں، کو تباہ کرنا ہوگا۔ صہیونی حکومت نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقات میں اپنے قیدیوں کی تلاش کے عمل کو تیز کرنے اور حماس کی طرف سے ان کی واپسی کی ضمانت لینے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ اعلان بھی کیا ہے کہ غزہ کی تعمیرِ نو قیدیوں کی لاشوں کی واپسی اور مزاحمت کے مکمل غیر مسلح ہونے سے مشروط ہوگی۔ یہ پیشرفت اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ امریکہ کھلے عام غزہ کے سیاسی اور سکیورٹی مستقبل کو انجینئر کرنے اور اپنی مرضی فلسطینی عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن عوامی مزاحمت اور مزاحمتی دھاروں کی بیداری کے باعث یہ منصوبہ بھی ماضی کی طرح بلاشبہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔
شرم الشیخ اجلاس کے حوالے سے حماس کا موقف انتہائی سیاسی پختگی پر مبنی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ شائد حماس کی قیادت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ٹھوس حکمت عملی کیساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ یقینی طور پر امریکہ کا نیا منصوبہ نیتن یاہو کا بھی حمایت یافتہ ہے۔ جو اس جانب اشارہ ہے کہ ہم تو حماس کو ختم نہیں کرسکے، تم آو اور ہماری مدد کرو۔ اگر یوں کہا جائے کہ غزہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تو غلط نہ ہوگا، بلکہ اس کی کمانڈ اسرائیل کی بجائے واشنگٹن نے سنبھال لی ہے۔ اس صورتحال میں پورے خطہ کا امن ایک مرتبہ پھر داو پر لگ رہا ہے۔ امریکہ ہر صورت مقاومت کو براہ راست چیلنج کرنے کی کوشش میں ہے، جہاں یہ صورتحال امریکی براہ راست مداخلت کو واضح کرتی ہے، وہیں اسرائیل کی ناکامی کا بھی واضح ثبوت ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا وہ عرب و مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک جو ٹرمپ منصوبہ کو "امن منصوبہ" کو نام دے رہے تھے، کہیں ایک بار پھر اہل غزہ کیساتھ خیانت کے مرتکب تو نہیں ہوئے۔؟
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی نگرانی ختم نہیں غیر ملکی کہ غزہ رہا ہے کیا ہے
پڑھیں:
اگر ہم متاثر کُن نہ ہوتے تو ہمیں اتنا نشانہ نہ بنایا جاتا، سربراہ حزب الله لبنان
اپنے ایک خطاب میں شیخ نعیم قاسم کا کہنا تھا کہ لبنان کے خارجہ تعلقات، دفاعی اسٹریٹجی اور صلاحیتوں کی مضبوطی سے امریکہ و اسرائیل کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" کے سیکرٹری جنرل "شیخ نعیم قاسم" نے کہا کہ اگر ہم متاثر کن نہ ہوتے تو ہمیں چاروں طرف سے نشانہ نہ بنایا جاتا۔ تاہم جلد ہی یہ تمام حملے ناکام ہوں گے اور ہمارا عزم مزید پختہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بعض جماعتیں، مقاومت کی مخالفت کرتی ہیں کیونکہ ہم حب الوطنی، عزت و آزادی پر مبنی تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں حالانکہ استعمار ایسا نہیں چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ حزب الله نے ثابت کیا کہ وہ ملی سطح پر قطب کی حیثیت رکھتی ہے کہ جو دوسروں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاکہ سب لوگ وسیع مقاومت کا حصہ بن سکیں۔ انہوں نے پاپ لئیو کے دورہ لبنان پر حزب الله کے ردعمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ شرپسند عناصر نے اصل موضوع پر توجہ دینے کی بجائے حزب الله کے موقف پر تنقید شروع کر دی۔ حزب الله کا تجربہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہ گروہ نہ تو تنہائی کا شکار ہوا اور نہ ہی اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرتا ہے بلکہ ہم نے ہمیشہ تعاون کیا اور اپنا ماضی کا تجربہ پیش کیا۔ لبنان کے اندر سیاسی اختلافات فطری ہیں، لیکن یہ سیاسی اختلافات آئین اور قانون کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔
شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا کہ ہم سب کے ساتھ ملک کی بحالی اور اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے تعاون کریں گے۔ ہمارا عمل اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس امر کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں نہ تو کسی گواہی کی ضرورت ہے اور نہ ہی وضاحت دینے کی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اب بھی اسرائیلی خواہشات کی تکمیل کے لئے بولتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ صیہونی جرائم کا جواز پیش کرتے ہیں۔ وہ اسرائیلی مطالبات کی بات کرتے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ میرے بھائی کیا تم اسرائیل کے وکیل ہو؟۔ کہ جو اسرائیل کی وکالت کرتے ہو، یا اس سے پیسے لیتے ہو۔ انہوں اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ اسرائیلی جارحیت کا مقصد حزب الله کو غیر مسلح کرنا نہیں، بلکہ بتدریج اپنے قبضے کو وسیع کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکہ اور اسرائیل کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ ہتھیاروں کا موضوع، خارجہ تعلقات، دفاعی اسٹریٹجی اور صلاحیتوں کی مضبوطی سے امریکہ و اسرائیل کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ موضوع بھی روشن ہے کہ امریکہ و صیہونی رژیم صرف ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ہم اپنا اور اپنی سرزمین کا دفاع جاری رکھیں گے، نہ ہتھیار ڈالیں اور نہ ہی پیچھے ہٹیں گے۔ ہم اسرائیل، امریکہ اور ان کے حواریوں کو چنداں اہمیت نہیں دیتے۔