Islam Times:
2025-10-21@16:23:46 GMT

نتین یاہو سے مصری انٹیلیجنس چیف کی ملاقات

اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT

نتین یاہو سے مصری انٹیلیجنس چیف کی ملاقات

ان مشاورتوں کا مقصد، غزہ میں جاری جنگبندی کو مستحکم کرنا اور شرم الشیخ معاہدے کی شقوں پر عملدرآمد کیلئے قاہرہ، واشنگٹن و تل ابیب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آج اسرائیل کی وزارت عظمیٰ کے دفتر نے خبر دی کہ تل ابیب میں صیہونی وزیراعظم "نتین یاہو" اور مصری انٹیلی جنس چیف "حسن محمود رشاد" کے درمیان ایک ملاقات ہوئی۔ جس میں دونوں فریقین نے جنگبندی كے دوسرے مرحلے اور امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" کے غزہ منصوبے کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا۔ آئندہ چند دنوں میں حسن محمود رشاد، امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی برائے امور مشرق وسطیٰ "اسٹیو ویٹکاف" سے بھی ملاقات کریں گے جو اس وقت مقبوضہ فلسطین میں موجود ہیں۔ ڈپلومیٹک ذرائع کا کہنا ہے کہ ان مشاورتوں کا مقصد، غزہ میں جاری جنگ بندی کو مستحکم کرنا اور شرم الشیخ معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد کے لئے قاہرہ، واشنگٹن و تل ابیب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔
واضح رہے کہ یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کے لئے حماس، مصر اور بین الاقوامی ثالثوں کے درمیان مذاکرات ہونے والے ہیں۔ ان مذاکرات میں رفح بارڈر کراسنگ کی مکمل بحالی، غزہ کی تعمیر نو کا آغاز اور مستقبل کے سیکورٹی انتظامات پر بات چیت شامل ہے۔ ڈپلومیٹک ذرائع حماس کے رہنماؤں اور مصری و قطری عہدیداروں کے درمیان مسلسل مشاورت کے ساتھ ہی، اسرائیلی حکام اور امریکی نمائندوں کے درمیان الگ الگ ملاقاتوں کی اطلاعات دے رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا بنیادی محور، غزہ کا سیاسی و سیکورٹی مستقبل، رفح بارڈر کراسنگ کی بحالی اور اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کا معاملہ ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے درمیان

پڑھیں:

امن معاہدہ، خدشات اور مستقبل

پاکستان اور افغانستان حکومت میں امن معاہدہ ہوگیا ہے، مذاکرات کے دوران فریقین نے اپنے تحفظات، خدشات اور مستقبل کے تعاون کے امکانات پر تفصیلی گفتگو کی ہے، ہفتے کو استنبول میں دوبارہ مذاکرات ہونگے، طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کام کرنے والے گروپوں کو روکیں گے، قطری وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان امن اور استحکام کے لیے مستقل میکنزم بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے، سیز فائر دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کا خاتمہ کرے گی۔

 بلاشبہ اس معاہدے کے خطے پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس معاہدے سے عالمی سطح پر یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اور افغانستان اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس معاہدے کی شقیں بظاہر سادہ ہیں، مگر ان کے اندر چھپی پیچیدگیاں بہت گہری ہیں پہلا نکتہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کسی بھی مسلح گروہ کو دوسرے ملک کے خلاف اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

دوسرا نکتہ یہ کہ کسی بھی قسم کی فضائی یا زمینی کارروائی کے بغیر مشترکہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے گا۔ تیسری شق میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کسی طرف سے خلاف ورزی ہوئی تو ثالث ممالک، یعنی قطر اور ترکیہ، مداخلت کے مجاز ہوں گے۔ بظاہر یہ سب باتیں امن کی ضمانت لگتی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان پر عمل درآمد ممکن ہوگا؟

  پاکستان کا ایک طویل عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، وہاں سے ہونے والی دہشت گردی کو بھارت سپورٹ کر رہا ہے، پاکستان جب بھی طالبان حکومت کے سامنے یہ معاملہ رکھتا تھا تو ان کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ تحریک طالبان پاکستان یعنی فتنہ الخوارج کے لوگ ان کے کنٹرول میں نہیں۔ ان کی جانب سے بھارتی سپورٹ کی بھی نفی کی جاتی تھی مگر 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب پیدا ہونے والی صورتحال نے طالبان حکومت کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کر دیا ہے، یہ واضح ہوگیا کہ افغانستان نے یہ حملہ بھارت کو خوش کرنے کے لیے کیا اور یہ بھی واضح ہوا کہ فتنہ الخوارج اور تحریک طالبان افغانستان دراصل اکٹھے ہیں اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمے دار ہیں۔

 ذرا ماضی کو یاد کیجیے کہ پاکستان نے افغانستان کو کس کس موقع پر سہارا دیا، آج بھی لاکھوں افغانی پاکستان میں موجود ہیں، ان کی فیملیاں افغانستان میں ہیں مگر ان کے بزنس اور نوکریاں یہاں پر ہیں، پاکستان نے ان لاکھوں مہاجرین کا شناخت بھی دی، گھر بھی دیا اور روٹی مگر اس سب کے باوجود افغانستان بھارت کا گودی ملک بنتا رہا، بھارت کے اکسانے پر پاکستان کو دھمکیاں بھی لگاتا رہا اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال بھی کرتا رہا، حالیہ تنازعے کی بھی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پاکستان نے افغانستان کو ہزاروں بار سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم دونوں اسلامی ملک ہیں، ہمیں تعاون کے ساتھ رہنا چاہیے اور یہ کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارا کھا کر ہمیں کو آنکھیں نکالنے والا ملک ایک مرتبہ پھر نئی دہلی کے اشارے پر چل رہا ہے۔ عین اس وقت جب افغانی وزیر خارجہ امیر متقی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے ملاقات کر رہے تھے، پاک افغان کشیدگی جاری تھی، پاکستان نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے سربراہ کو جہنم واصل کیا۔

 عالمی سیاست میں چند خطے ایسے ہیں جو نہ صرف اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث اہم ہوتے ہیں بلکہ وہاں کی داخلی صورتحال براہِ راست دنیا کے امن و استحکام پر اثرانداز ہوتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کا تعلق بھی ایسے ہی خطوں سے ہے۔ یہ دونوں ممالک نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں بلکہ ان کی سیکیورٹی، معیشت، سیاست اور معاشرتی ڈھانچے بھی ایک دوسرے سے گہری جُڑت رکھتے ہیں۔

اس وقت جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے اور پاکستان مسلسل تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی دہشت گردی کا شکار ہے۔ بلاشبہ پاکستان ان اولین ممالک میں شامل تھا جس نے طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی۔ اس کی بنیادی وجہ افغانستان میں امن کا قیام اور پاکستان کی مغربی سرحد کی سیکیورٹی تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ صورتحال پیچیدہ ہوتی گئی۔ خاص طور پر جب ٹی ٹی پی نے پاکستان میں اپنی کارروائیاں تیز کیں اور الزامات لگنے لگے کہ یہ گروہ افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے کام کر رہا ہے، تو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوا۔ پاکستان بارہا طالبان حکومت سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکے، مگر اب تک اس محاذ پر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔

پاکستان کی داخلی سلامتی کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ ٹی ٹی پی سے لاحق ہے، یہ گروہ جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ملک میں دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے، 2014 کے آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد شدید دباؤ کا شکار ہوا تھا۔ تاہم افغان طالبان کی واپسی کے بعد اس گروہ نے نئی توانائی حاصل کی اور دوبارہ منظم ہونے لگا۔ پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ اگر افغان طالبان واقعی ایک خود مختار اور منظم حکومت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر ان پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ دوٹوک بات چیت کرنی چاہیے۔

اگر طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے تو پاکستان کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے دیگر راستے اختیار کرنے چاہئیں، جن میں سرحدی آپریشنز، انٹیلیجنس شیئرنگ اور بین الاقوامی تعاون شامل ہو سکتے ہیں۔ افغانستان کی عام عوام، بالخصوص تعلیم یافتہ اور نوجوان نسل، طالبان کے سخت گیر رویے سے ناخوش ہے۔ پاکستان کو ان طبقات سے تعلقات مضبوط کرنے چاہئیں تاکہ ایک متبادل بیانیہ فروغ پا سکے، جو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے پاک ہو۔ پاکستان کو اپنی مغربی سرحد پر حفاظتی اقدامات مزید سخت کرنے ہوں گے۔

بارڈر فینسنگ، سرحدی چوکیوں کی تعداد میں اضافہ، اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔طالبان حکومت ایک طرف دنیا سے سفارتی و مالی تعاون چاہتی ہے، دوسری طرف وہ اپنی پالیسیوں میں لچک دکھانے سے گریزاں ہے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ ان کا رویہ غیر شفاف ہے، اور اس کے باعث پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ طالبان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ ایک ذمے دار حکومت کے طور پر اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں تو انھیں علاقائی تحفظات کا احترام کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، ان کی حکومت مزید تنہائی کا شکار ہو جائے گی اور خطے میں بداعتمادی کی فضا بڑھے گی۔افغانستان کے عدم استحکام کا اثر پاکستان کی معیشت پر بھی پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیاں متعدد مواقع پر یہ واضح کر چکی ہیں کہ کچھ مہاجر کیمپ دہشتگرد گروہوں کی بھرتی اور تربیت کے مراکز بن چکے ہیں۔پاکستان کے لیے یہ وقت فیصلہ کن ہے۔

ایک طرف اسے دہشتگردی، معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، اور دوسری طرف ہمسایہ ملک میں ایسی حکومت ہے جس کے طرزِ حکمرانی پر نہ صرف عالمی برادری کو اعتراض ہے بلکہ جو پاکستان کی سیکیورٹی ترجیحات کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ ایسے میں پاکستان کو ایک واضح، شفاف اور قومی مفاد پر مبنی پالیسی اختیار کرنی ہو گی۔ یہ صرف پاکستان کی بقاء کا سوال نہیں، بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کا معاملہ ہے۔طالبان حکومت کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر وہ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتی ہے تو اُسے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ فاصلہ رکھنا ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان کا رشتہ محض سفارتی نہیں بلکہ تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور جغرافیائی بنیادوں پر قائم ہے۔ مگر جب ایک فریق دوسرے کی خودمختاری اور سلامتی کا احترام نہ کرے تو یہ رشتہ صرف نام کا رہ جاتا ہے۔

یہ جنگ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کی مشترکہ لڑائی ہے، اگر دنیا نے آج افغانستان میں پنپتے دہشت گرد گروہوں کو روکنے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو کل یہ مسئلہ ان کے اپنے دروازوں پر بھی دستک دے سکتا ہے۔ پاکستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے، بلکہ اس کے سیکیورٹی خدشات کو سنجیدگی سے سنا جائے، تاکہ خطے میں امن، ترقی اور استحکام کی راہیں ہموار کی جا سکیں۔ اب ترکیہ اور قطرکی ثالثی میں پاک افغان مذاکرات کا انتہائی اہم دور مکمل ہوا ہے، ان مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہو جائے گی مگر سوال پھر وہاں ہے کہ کیا افغانستان ہمیں بطور ’’ برادر اسلامی ملک ‘‘ تسلیم کرے گا یا بھارت کی طرح صرف ہمسایہ بن کر رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • مصریوں کیجانب سے "سمندر میں ڈالی گئی نیکی" فلسطینیوں تک جا پہنچی
  • مجھے تم پسند نہیں ہو، شاید کبھی نہیں ہو گے! ٹرمپ کا آسٹریلوی سفیر کو دو ٹوک جواب
  • غزہ کے بارے میں امریکی حکام کی نتین یاہو سے درخواست
  • ٹیرف دھمکیاں؛ کولمبیا نے امریکا سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا
  • امن معاہدہ، خدشات اور مستقبل
  • محسن نقوی کی بلاول بھٹو سے ملاقات، ن لیگ پی پی اختلافات کے خاتمے پر بات چیت
  • اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ضم ہونے کیلئے فلسطینیوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے، جیرڈ کشنر
  • پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے، اس کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے نہیں دیں گے، نواز شریف
  • جنوبی شام ہتھیاروں سے پاک ہونا چاہئے، نتین یاھو