کالعدم گروپ بلوچستان کے نوجوانوں کو ورغلاتے کے لیے کیا وعدے اور جھانسے استعمال کرتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) جیسے گروپس نوجوانوں کو مبینہ طور پر اپنے جال میں پھنسانے کے لیے نوکری، مالی امداد، تعلیم اور تحفظ کے فریب آمیز وعدے کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ سی ٹی ڈی کی کارروائیوں، ضبط شدہ پیغامات اور گرفتاریوں سے سامنے آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچ عسکریت پسند گلزار امام عرف امام شنبے کی گرفتاری کا ایک سال، بلوچستان کے حالات پر کیا اثر پڑا؟
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ گروپس سماجی رابطوں، ذاتی روابط اور پروپیگنڈے کے ذریعے تعلیم یافتہ اور کمزور مالی پس منظر کے حامل نوجوانوں کو بھرتی کرتے ہیں جب کہ گرفتار شدہ رہنماؤں کی خودی وضاحتیں اور افسوس کے بیانات ان حکمت عملیوں کی تصدیق کرتے ہیں۔
سرکاری تفتیش اور زیر حراست افراد کے بیانات سے معلوم ہوا ہے کہ نوجوانوں کو پہلے حکومت مخالف جذبات سے بھڑکایا جاتا، پھر انہیں روزگار، بیرونِ ملک یا داخلی اسکالرشپس، ماہانہ معاوضے اور خاندان کے تحفظ کے عوض گروپ میں شامل ہونے کی پیشکش کی جاتی۔ جب نوجوان راضی ہو جاتے ہیں تو انہیں پہاڑوں یا خفیہ ٹھکانوں میں لے جایا جاتا۔ اکثر صورتوں میں وہاں انہیں مسلح کارروائیوں یا ہتھیار بردار رولز کے لیے استعمال کر لیا جاتا ہے جبکہ کچھ کی تصویروں کو لاپتا دکھا کر رشتہ داروں کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔
09 نومبر 2024 کو باضابطہ پریس کانفرنس میں پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم طلعت عزیز نے اعتراف کیا کہ وہ کالعدم تنظیم کے زیر اثر آ گیا تھا۔
طلعت نے بتایا کہ پہاڑوں پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گمراہ کرکے انہیں پانچوں اور نہتے لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا۔ اس نے واضح کیا کہ میں ایک پڑھا لکھا نوجوان ہوں لیکن ان کی وجہ سے اپنا مستقبل گنوا دیا۔
اسی طرح 23 مئی 2023 کو گلزار امام شنبے جو ماضی میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی بی این اے کا سربراہ تھا اپنے ایک اطرافی بیان میں اس بات کی وضاحت کر چکا ہے کہ مسائل کا حل پرامن بات چیت سے نکالا جائے اور مسلح جدوجہد کے راستے کو غلط قرار دے کر معافی کا اظہار کیا۔ اس کے بیانات نے اس بات کی عکاسی کی کہ گروہی رہنما بھی جذبہ و حکمت عملی کے بارے میں دوبارہ غور کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیے: پاکستان سے لڑائی افغان طالبان کی تنہائی میں اضافہ
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق دوران تفتیش یہ بھی انکشاف ہوا کہ گروہ طلبہ، اسکولوں اور کالجوں کے نوجوانوں کو 50 ہزار روپے تک دے کر بھرتی کرتے تھے اور بعض معاملات میں چھوٹے بچوں کو ہتھیار کی ترسیل میں استعمال کیا گیا۔
سماجی کارکن اور امن کے محققین کا کہنا ہے کہ مسئلے کا حل صرف سیکیورٹی آپریشنز نہیں ہو سکتے۔ ان کے بقول کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے روزگار کے فوری متبادل پروگرام، تعلیمی اداروں میں نفسیاتی مدد اور شعوری تربیت، آن لائن پلیٹ فارمز پر مونیٹرنگ اور عوامی شعور بیدار کرنے والی مہمات، گرفتاری شدہ افراد کی شفاف تفتیش اور عدالتی کارروائی تاکہ سزا اور بازگشت کا تاثر پیدا ہو۔
سی ٹی ڈی اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی کارروائیاں اور رہنماؤں کے اعترافات وقتی طور پر گروہوں کی بھرتی کی رفتار کم کر سکتے ہیں مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر معاشی اور سماجی خلا کو پر نہیں کیا گیا تو گروہ نئی تکنیکس سے دوبارہ نوجوانوں کو نشانہ بنائیں گے۔
طلعت عزیز اور گلزار امام شنبے جیسے معاملات بتاتے ہیں کہ کچھ نوجوان واپس آ رہے ہیں مگر اس لیے کہ نظامی اصلاحات اور بامعنی متبادل مواقع فراہم کیے جائیں ورنہ بھرتی کا عمل جاری رہے گا۔
ضبط شدہ پیغامات، گرفتاریوں اور خود گروہی رہنماؤں کے بیانات نے ایک واضح نقشہ دیا ہے۔ کالعدم تنظیمیں نوجوانوں کی کمزوریوں کو جان کر انہیں لالچ، دھوکہ اور جبراً شمولیت کے ذریعے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
مزید پڑھیں: کالعدم بی ایل اے کو بیرونی ایجنسیاں فنڈنگ کرتی ہیں، سرفراز بنگلزئی
حکومت، تعلیمی ادارے، کمیونٹی لیڈرز اور شہری معاشرہ مل کر ہی اس زنجیر کو توڑ سکتے ہیں بصیرت، مواقع اور شفاف انصاف کے بغیر نوجوانوں کو محفوظ رکھنے کا خواب ادھورا رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بی ایل اے بی ایل اے اور بلوچ نوجوان بی وائی سی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بی ایل اے بی ایل اے اور بلوچ نوجوان بی وائی سی نوجوانوں کو کے بیانات بی ایل اے کرتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
نوجوانوں کو بااختیار بنائے بغیر ملک نہیں بدلے گا، پنجاب کا بلدیاتی ایکٹ کالا قانون ہے، جماعت اسلامی
ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جماعت اسلامی ملتان کے امیر کا کہنا تھا کہ شہر میں ٹریفک مسائل اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ نوجوانوں اور طالب علموں پر ایف آئی آرز کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ بے تحاشا جرمانوں نے ملازم پیشہ طبقے کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے، چنگچی رکشوں پر پابندی کی بجائے پہلے مناسب متبادل کا انتظام کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی ضلع ملتان صہیب عمار صدیقی نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے اجتماعِ عام کے موقع پر بدل دو نظام تحریک کا آغاز کر کے ملک میں ایک نئے فکری، سیاسی اور عملی سفر کی بنیاد رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تحریک کا بنیادی نکتہ نوجوانوں کو فیصلہ سازی میں اختیار دینا اور انہیں قومی نظام کا فعال اور مضبوط حصہ بنانا ہے، کیونکہ نوجوانوں ہی کے ذریعے اس ملک میں حقیقی تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام ایک مخصوص اشرافیہ کے قبضے میں ہے جو برسوں سے قومی وسائل پر قابض ہے۔ جب تک عوام خصوصا نوجوانوں کو بااختیار نہیں کیا جاتا، ملک کے حالات تبدیل نہیں ہو سکتے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پریس کلب ملتان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر خواجہ عاصم ریاض سیکرٹری جنرل ملتان، حافظ محمد اسلم نائب امیر ضلع، خواجہ صغیر احمد نائب امیر ضلع، چوہدری محمد امین امیر زون غربی، اطہر عزیز ایڈوکیٹ صدر آئی ایل ایم جنوبی پنجاب اور رفیع رضا ایڈووکیٹ صدر آئی ایل ایم ملتان بھی موجود تھے۔
صہیب عمار صدیقی نے کہا کہ اسی تسلسل میں پنجاب حکومت کا منظور کردہ موجودہ بلدیاتی ایکٹ عوام دشمن اور غیرنمائندہ قانون ہے، جو مقامی اختیارات کو بیوروکریسی کی گرفت میں دے کر عوام کو ان کے بنیادی حق سے محروم کر دیتا ہے۔ انہوں نے اس ایکٹ کو مکمل طور پر غیرموثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی ادارے اسی وقت فعال ہو سکتے ہیں جب اختیارات براہ راست عوام کے منتخب نمائندوں تک منتقل ہوں، مقامی سربراہان چیئرمین، وائس چیئرمین، یوتھ کونسلر، اقلیتوں کی سیٹ کا انتخاب بھی براہ راست ووٹ کے ذریعے کیا جائے۔ اسی طرح ضلعی مقامی حکومتوں کو بحال کیا جائے۔ غیرجماعتی انتخابات، بیوروکریسی کا بے جا اختیار اور عوامی نمائندوں کو محدود کرنا مقامی سطح پر خدمت کے پورے تصور کو تباہ کر دیتا ہے۔ جماعت اسلامی کا مطالبہ واضح ہے کہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں اور عوام کو فیصلہ سازی کا حقیقی حق دیا جائے۔
ملتان کی موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہر میں ٹریفک مسائل اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ نوجوانوں اور طالب علموں پر ایف آئی آرز کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ بے تحاشا جرمانوں نے ملازم پیشہ طبقے کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔ چنگچی رکشوں پر پابندی کی بجائے پہلے مناسب متبادل کا انتظام کیا جائے اور ایسی قانون سازی سے باز رہا جائے جس سے عام عوام مزید معاشی مشکلات کا شکار ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مقامی حکومتیں بااختیار ہوتیں تو ایسے مسائل فوری طور پر حل ہو سکتے تھے۔ نوجوانوں کو بااختیار بنایا جائے اور عوام کے منتخب نمائندوں کو اختیارات دیے جائیں تو شہر کے بنیادی مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں اور انتظامی بہتری فوری طور پر نظر آ سکتی ہے۔