data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور: پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف نے سوال اٹھایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تک رسائی صرف خواجہ آصف کو ہی کیوں حاصل ہے؟ کسی اور کو کیوں نہیں؟۔

 ا ±ردوپوائنٹ کے پوڈ کاسٹ میں میزبان سید ذیشان عزیز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آپ یہ بات کرتے ہو کہ خواجہ آصف خود کہتے ہیں کہ انہوں نے 2018ءمیں اس وقت کے آرمی چیف کو کال کی کہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے تو پھر ریحانہ ڈار تو بات کریں گی۔

 آپ کیوں اس طرح سے رابطہ کرکے بات کرتے ہیں؟ اور یہ رسائی صرف خواجہ آصف کو کیوں حاصل ہے؟ یہ دوسروں کو کیوں حاصل نہیں ہے؟ اور یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔

میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ میں اس حوالے سے بہت کلیئر ہوں کہ خواجہ آصف ہوں یا ہماری پارٹی کے کوئی اور رکن ہوں، ان میں سے جس کسی کا بھی اس قسم کا کردار ہوگا تو وہ ان کی اپنی گردن پر ہوگا، اس کی مسلم لیگ ن ذمہ دار نہیں ہوگی خواہ وہ کوئی بھی ہو۔

 ہماری جماعت اور نظریہ تو صرف نوازشریف ہیں، اگر انہوں نے ایسا کوئی کام کیا ہے تو وہ مجھے حوالہ دے کر بتائیں۔انٹرویو کے دوران جب ان سے موجودہ وزیردفاع کے ماضی کے ایک اسمبلی بیان سے متعلق سوال کیا گیا تو ن لیگ کے سینئر رہنماءنے جواب دیا کہ ’آپ جس بیان کی بات کر رہے ہیں میں اس وقت اسمبلی کا رکن نہیں تھا۔

 اگر میں پارلیمنٹ میں ہوتا تو یقیناً میں آگے سے سوال اٹھاتا اور اسی وقت اس حوالے سے بات کرتا لیکن میں اس فورم کا حصہ نہیں تھا۔

ویب ڈیسک Faiz alam babar

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: خواجہ آصف

پڑھیں:

کراچی سے بے زار کیوں؟

ملک میں صوبوں کی تعداد بڑھانے یا انتظامی یونٹ بنانے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں تو کراچی کی حالت زار دیکھ کر کراچی کو اسلام آباد کی طرح وفاق کا حصہ بنانے کا مطالبہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ لاہور کے سابق سٹی ناظم میاں عامر محمود کے بعد سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی ملک میں صوبے بڑھانے کی حمایت اور مطالبہ کیا ہے جب کہ کراچی کی بعض تنظیمیں بھی کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے مطالبات کرتی رہی ہیں اور یہ بھی مطالبہ ہو رہا ہے کہ کراچی کو وفاق کا حصہ بنایا جائے۔

واضح رہے کہ مرحوم پیر صاحب پگاڑا بھی کراچی کو وفاق کا حصہ بنانے کے حامی تھے۔ کراچی کو صوبہ بنانے کی پیپلز پارٹی سخت مخالف جب کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی حامی ہے اور پی ٹی آئی نے بھی 2018 کے الیکشن میں سیاسی مفاد کے لیے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا جو دونوں کا سیاسی نعرہ تھا مگر دونوں پارٹیوں نے اپنی حکومتوں میں عملی طور پر کچھ نہیں کیا کیونکہ دونوں کو پتا تھا کہ نئے صوبے کا قیام آسان نہیں اور آئینی مشکلات اس راہ میں حائل ہیں۔کے پی میں ہزارہ صوبے کا مطالبہ بھی سالوں سے ہو رہا ہے جس کی مسلم لیگ (ن) حامی ہے کیونکہ ہزارہ ڈویژن کبھی (ن) لیگ کا گڑھ تھا جہاں سے ماضی میں میاں نواز شریف کے داماد کامیاب ہوتے رہے مگر 2023 میں خود نواز شریف کو ایبٹ آباد سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس سے ظاہر ہے کہ اپنے دور میں ہزارہ صوبے کے لیے کچھ نہ کرنے کی وجہ سے (ن) لیگ کی ہزارہ ڈویژن میں مقبولیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومتوں پر الزام لگتا رہا ہے کہ اس نے جنوبی پنجاب کو ترقیاتی منصوبوں میں نظرانداز کیا جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں (ن) لیگ کی مقبولیت کم اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت کہیں زیادہ ہے جس کا ثبوت 2023 کے انتخابات ہیں جس میں جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو نمایاں کامیابی ملی اور وہاں پیپلز پارٹی سب سے مقبول پارٹی ہے۔ جنوبی پنجاب کو نظرانداز کرکے لاہور و دیگر علاقوں کو اہمیت دینے کے الزامات کے بعد مسلم لیگ مجبور ہوئی کہ جنوبی پنجاب کو بھی ترجیح دے جس کے بعد پنجاب کی موجودہ حکومت جنوبی پنجاب میں ترقیاتی کام کرا رہی ہے اور جنوبی پنجاب میں بھی الیکٹرک بسیں چلا چکی ہے اور اس کا کریڈٹ بھی خود لے رہی ہے جس پر پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے شکایات بھی ہیں کہ حکومت پنجاب اس کے کہنے پر جنوبی پنجاب کو ترقیاتی منصوبے نہیں دے رہی اور اپنے طور پر من مانی کر رہی ہے۔

سندھ میں 17 سالوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اس پر ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی سمیت ساری پارٹیاں الزام لگاتی آ رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کراچی کو ترجیح نہیں دیتی بلکہ کراچی سے دشمنوں جیسا سلوک کر رہی ہے پی پی حکومت نے 17 سالوں میں کراچی کو کوئی میگا پروجیکٹ تک نہیں دیا۔ کراچی کے لوگ اذیت میں زندگی گزار رہے ہیں اور کراچی بے شمار مسائل کا شکار ہے مگر سندھ حکومت کی کراچی پر کوئی توجہ نہیں۔ پیپلز پارٹی بھی وفاقی حکومت کی طرح کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھتی ہے جب کہ کراچی سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ملک اور سندھ چل رہا ہے جب کہ کراچی کے ٹیکسوں سے وفاق اور سندھ حکومت کو دلچسپی ہے کیونکہ کراچی سندھ اور وفاق کو کما کردیتا ہے۔ سندھ حکومت کراچی پر اپنے مالی وسائل خرچ کرنے کے بجائے چاہتی ہے کہ وفاق کراچی کے لیے مالی وسائل فراہم کرکے اور کراچی کے مسائل حل کرائے۔

کراچی میں کے فور کا منصوبہ اور یونیورسٹی روڈ اور گرومندر سے ٹاور تک جو بسوں کے منصوبے زیر تعمیر ہیں ان کے لیے فنڈز وفاق اور سندھ حکومت نے فراہم کرنے ہیں مگر دونوں حکومتیں سنجیدہ نہیں، جس کی وجہ سے کئی سال سے یونیورسٹی روڈ پر سفر عذاب بنا ہوا ہے جہاں فنڈز ہو تو کام چلتا ہے کبھی رک جاتا ہے جب کہ یہ ایک اہم شاہراہ ہے جہاں سے روزانہ لاکھوں افراد سفر کرتے ہیں اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور زیر تعمیر منصوبے سے لوگ سخت پریشان ہیں اور ٹریفک جام رہنا معمول بنا ہوا ہے۔

کراچی کے مسائل سے عدم دلچسپی سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کی سندھ حکومت کراچی سے خود بے زار ہے اور کراچی کو سندھ حکومت فنڈز دینا ہی نہیں چاہتی اور وفاق سے کراچی کے مسائل حل کرانا چاہتی ہے اور اپنے فنڈز کراچی پر خرچ نہیں کر رہی۔ وفاق کا فنڈ محدود اور سندھ حکومت کے مالی وسائل زیادہ ہیں جو کراچی پر خرچ نہیں کیے جا رہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سندھ حکومت کراچی سے بے زار ہے اور اسے کراچی سے نہیں کراچی سے ہونے والی آمدنی سے دلچسپی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پی سی بی نے ہمیشہ گروپ بندی کی حمایت کی اور کھلاڑیوں کو لڑوایا، راشد لطیف نے سارے راز بیان کردیے
  • رضوان کو ون ڈے کی کپتانی سے کیوں ہٹایا گیا؟ راشد لطیف نے بڑا دعویٰ کردیا
  • افغانستان سے سیز فائر کے لیے کوئی وقت کی حد مقرر نہیں کی گئی : خواجہ محمد آصف
  • افغانستان سے سیز فائر کیلئے کوئی وقت کی حد مقرر نہیں کی گئی: محمد آصف
  • پاک افغان سیز فائر کے دورانیے سے متعلق وزیر دفاع کا دو ٹوک بیان
  • افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوئے، ٹی ٹی پی سے کوئی بات نہیں ہوگی، وزیرِ دفاع
  • افغان طالبان کے ساتھ بات کی ہے ٹی ٹی پی کے ساتھ نہیں، ان کے ساتھ کوئی بات نہیں ہوگی: خواجہ آصف
  • کراچی سے بے زار کیوں؟
  • عثمان بزدار، علی امین گنڈا پور اور اب سہیل آفریدی