صالحہ سے شناسائی چند برس قبل ہوئی تھی۔ ہم دونوں ایک تقریب میں ملے تھے۔ جس کے بعد موبائل کے ذریعے رابطہ تعلقات میں بدل گیا اور ہم گہرے دوست یا اس سے بھی کچھ زیادہ بن گئے۔
میں اس معاشرے کا ایک نوکری پیشہ مرد ہوں۔ جو اچھے پیسے کماتا ہے اور صاف ستھرا ہو کر باہر نکلتا ہے۔ پرفیوم پسند ہیں تو ایک ہی وقت میں 2،2 استعمال کرتا ہوں۔
ایک اور بات بھی ہے کہ بعض اوقات میں اچھا سننے والا ہوں اور مانگنے پر کچھ اپنے تئیں بہتر مشورہ دینے کی بھی کوشش میں رہتا ہوں۔
صالحہ سے دوستی 3 برس پرانی ہے۔ سو اب ہم کافی اچھے دوست بن چکے تھے۔
وہ جب کبھی پریشان ہوتی تو مجھے فون کر لیا کرتی اور اپنے دکھڑے سنایا کرتی، جسے میں خاموشی سنتا اور بعد اوقات اپنی رائے کا اظہار بھی کر دیتا۔
میں اس کی ذہنی کیفیت جان گیا تھا، اس لیے اس کو کہا کہ کسی ذہنی امراض کی ڈاکٹر کے پاس جا ہو سکتا ہے، تمہارے مسائل کا حل نکلے۔ لیکن وہ کسی سے بھی اب ایسی باتیں شیئر کرنے سے شرماتی اور کتراتی ہے۔
وقت گزرتا رہا اور ہمارے درمیان بات چیت اور کبھی کبھار ملنا ہوتا رہا۔
یہ خزاں کی ایک قدرے ٹھنڈی رات تھی۔ میں نے صالحہ کی طبیعت دریافت کرنے کیلئے اس کو رات کے 11 بجے ایک میسج لکھ بھیجا۔
صالحہ کا جواب آیا : ٹھیک ہوں
پھر پوچھا کوئی خیال رکھ رہا ہے ؟
جواب ہاں میں تھا، پھر ایک اور میسج آیا اپنا خیال خود رکھ رہی ہوں۔
میں نے کہا اچھا ہے۔ میں نے کہا بتائیے اگر میں آپ کیلئے کچھ کر سکتا ہوں ؟
میں نے شہر اقتدار میں بیٹھے صرف ہمدردی جتانے کیلئے یہ میسج لکھ بھیجا تھا۔
ماجرا یہ ہے کہ کچھ عرصے سے ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔
کہنے لگی : واپس آ جاو
کافی دیر سوچنے کے بعد میں نے لکھا تاکہ تم مجھے پھر سے نظر انداز کرو
ساتھ ہی جواد شیخ کا ایک شعر لکھ بھیجا :
یہ کوئی قتل تھوڑی ہے کہ بات آئی گئی ہو
میں اور اپنا نظر انداز ہونا بھول جاؤں
کہنے لگی تمہیں کیا لگتا ہے میں نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے۔
میرا جواب تھا: میں خود سے کچھ نہیں سوچ رہا یہ تو جناب نے بتانا ہے ؟ اور ساتھ انگریزی کا ایک جملہ لکھ بھیجا کہ
I’m not judgmental person
یہ جملہ میرے استاد نے آج سے قریبا دس برس قبل مجھے بتایا تھا کہ ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی Judgmental Approach رکھتا ہے۔
ویسے تو وہ 40 سالہ خاتون ہے لیکن خود کو اچھے طریقے سےسنوار رکھا ہے کہ آج بھی جوان دکھتی ہے۔
خوش لباس، چہرے پر مسکراہٹ لیے دوستوں کے جھرمٹ میں رہنے والی۔
تھوڑی سی نک چڑھی بھی ہے۔
مردوں کو ایسی ہی اُڈھیر عمر کی جوان خاتون پسند ہوتی ہے۔ جس کی وجوہات مرد حضرات ہی زیادہ بہتر طریقے سے جانتے ہیں
اس کو بھی جوانی میں کافی مردوں نے اپنا ساتھی بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
لیکن اس نے بہت بہت سے افراد کو ٹھکرا کر ایک نوجوان کو اپنا تھا اور اپنی اپنی مرضی سے چوہدرین بنی تھی۔
صالحہ کے شوہر چھوٹے چوہدری صاحب ایک لمبے چوڑے قد آور شخص ہیں۔ جو فی زمانہ مردانہ وجاہت کے مالک ہیں۔ اور زرا فربہ جسم رکھتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے وہ مردانہ پوشیدہ امراض کا شکار ہیں۔
کافی برس بیت گئے ہیں اور کچھ ایسی ہی وجوہات کی بنا پر اولاد نہیں ہو پا رہی۔ اور اس پر دوست احباب اور رشتہ داروں نے اولاد کیلئے نجانے کتنے ہی مشورے دے ڈالے۔ اب جب کوئی صالحہ کو مشورہ دیتا ہے تو اس کو شدید کوفت ہوتی ہے۔
دراصل ہمارا معاشرہ ہی کچھ ایسا ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں عمل دخل دینا اپنا شرعی و معاشرتی حق سمجھتا ہے۔
ایسے کتنے ہی شادی شدہ جوڑے ہیں جو صرف معاشرے کی وجہ سے اولاد حاصل کرنے کیلئے کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ کبھی ڈاکٹروں کے پاس تو کبھی حکیموں کے پاس۔
یہ سال 2025 چل رہا ہے اور اب بھی کچھ خواتین تو پیروں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں اور پھر اولاد لینے کے چکر میں پیروں کے فریب میں آ کر ان سے جسمانی تعلقات تک قائم کر لیتی ہیں۔ یہ صرف دیہاتوں کی بات نہیں بلکہ شہروں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ جہاں ہر دیوار بنگالی بابا اور پوشیدہ امراض کی وال چاکنگ سے بھری ہوئی ہے۔
میں نے پوچھا کیا پریشانی ہے، کہنے لگی وہی لوگوں کے اولاد کیلئے مشورے، تنگ آ گئی ہوں۔
میں نے آزراہ تفنن اس کو بتایا: ہمارے ایک مولانا صاحب وعظ فرما رہے تھے۔ کہنے لگے جو کام خدُا کے ہیں وہ خدا سے ہی مانگنے چاہیں جیسے اولاد ، رزق وغیرہ وغیرہ
اگلا جملہ بہتر معنی خیز تھا۔ کہتے ہیں آجکل کے دور میں لوگ پیروں سے ایسے اولاد مانگتے ہیں۔
پنجابی کا جملہ ’پیراں لے ککڑ تے دے پتر‘۔
صالحہ چونکہ پڑھی لکھی ہے تو ڈاکٹروں سے ادویات لے کر خود بھی کھا رہی اور اپنے شوہر کو بھی کھلا رہی، تاکہ اس کی گود ہری ہو جائے اور معاشرہ ان کی زندگیوں میں دخل اندازی کرنا چھوڑ دے۔
بعض اوقات صالحہ میں جنسی خواہش اس قدر جاگتی ہے کہ رہا نہیں جاتا۔
لیکن پھر گناہ کا احساس غالب آجاتا ہے اور بقول اسکے کئی بار جائے نماز پر بلک بلک کر روتی ہے۔
خدا سے شیطان مردود کی پناہ مانگتی ہے اور اپنے آنگن کو خوشیوں سے بھرا دیکھنے کی دعائیں کر تی ہے۔
شوہر نے اپنا کمرہ الگ کر رکھا ہے، کیونکہ انکی دلچسپیاں کچھ آور ہیں اور اس کے علاوہ ان سے کچھ ہو بھی نہیں پاتا تو اس لیے بھی وہ اپنی زوجہ محترمہ سے کنارہ کش رہتے ہیں۔
صالحہ کا پھر میسج نمودار ہوا جس میں میرا نام لکھا تھا ۔۔۔۔۔
میں نے جواباً لکھا ۔۔۔۔۔۔۔ جی صالحہ
کہنے لگی مجھے شرم آتی ہے ایسی باتیں کرتے ہوئے۔
میں نے کہا : میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ سے ایسے نجی سوالات پوچھ بیٹھا اور آپ اپنی پریشانی کا صد باب کرنے کیلئے مجھ سے اپنی نجی زندگی کے تلخ حقائق شیئر کر لیتی ہیں۔
صالحہ: نہیں ایسا نہیں میں بس بتا رہی ہوں کہ مجھے شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کو الزام نہیں دے رہی۔
میں نے لکھا دیکھیں ہمارا آپ کا خاص رشتہ ہے اس لیے اس بار آپ کو مورد الزام ٹھہرائے بغیر واپس آجاتے ہیں لیکن آئندہ ایسا نہ ہونے پائے۔
خیر اسی پیغام رسانی میں یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں مل بیٹھتے ہیں اور پھر چائے کے ساتھ بات چیت ہوگی۔
صالحہ چونکہ راولپنڈی میں رہتی تھی اور میں اسلام آباد میں سکونت پذیر ہوں، تو ملنا جلنا تو پہلے ہی تھا لیکن اس بار وہ باہر ملنے سے گریزاں تھی۔ اس لیے اُس نے گھر ہی بلا لیا۔ اور ہم وہاں پہنچ گئے۔
چائے پی، ایک دوسرے کو دکھڑے سنائے اور یہ دوستی کے لمحات نجانے کس کمزور گھڑی میں قربت میں بدل گئے ۔۔ پتہ ہی نہ چلا۔۔۔بے راہ روی کی وہ گھڑیاں گزر گئیں۔
دونوں نے لباس پہنے اور جلدی میں ایک دوسرے کو بائے کہا۔
لیکن اس ملاپ کے بعد ہم دونوں کو پچھتاوا ہوا، اور ہم نے آئندہ اس بے راہ روی سے دور رہنے کا فیصلہ کیا۔
دنیا بڑی بے رحم ہے لیکن شیطان اس سے بھی بے رحم ہے جو کمزور گھڑیوں کی تاک میں ہوتا ہے اور اپنا کام کروا کر نکل جاتا ہے، اور وبال ہمارے گلے میں رہ جاتا ہے۔
اللہ ہمارے گناہ معاف فرمائے۔ آمین
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: لکھ بھیجا کہنے لگی ہیں اور ہے اور اور ہم اس لیے
پڑھیں:
اب کوئی بات نئی بات نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251209-03-4
ڈی جی آئی ایس پی آر بہت غصے میں تھے۔ ممکن ہے ان کا غصہ بجا ہو۔ سنا تھا کہ جوش میں ہوش کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے لیکن اب آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اسے دیکھ کر ایسا ہی لگا۔ اللہ کرے کہ دامن ہوش دوبارہ تھام لیا جائے کیونکہ اب اگر ملک سنور جانے کی کوئی آخری امید نظر آتی ہے تو وہ اسی ادارے کی ہوشمندی میں ہی مضمر ہے کیونکہ اب حالات اتنی گمبھیر صورت اختیار کر چکے ہیں کہ ان کو قابو میں رکھنا اور اچھی صورت حالات کی جانب لوٹانا سیاسی قائدین اور پارٹیوں کے بس میں بھی نہیں رہا۔ میں اپنی اصل بات کی جانب جانے سے پہلے یہ بات بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ ریاست پاکستان میں رہتے ہوئے بھی آج تک میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب ڈی جی آئی ایس پی آر لفظ ’’ریاست‘‘ استعمال کرتے ہیں تو وہ ریاست کس کو کہہ رہے ہوتے ہیں۔ میں سیاست کا ایک ادنیٰ سا طالب ِ علم ہوں اور میں نے ریاست کی تعریف میں جو پڑھا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کی بیان کردہ ’’ریاست‘‘ کی شکل اس میں مجھے کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ مختصراً ریا ست کے لیے جن تین بنیادی باتوں کو لازمی قرار دیا گیا ہے اس کی اول شرط خطہ زمین کا ہونا ہے، دوسری شرط معقول آبادی ہے اور تیسری شرط خود مختار حکومت کا ہونا۔ یہ تین چیزیں اگر مربوط نہیں تو اسے ریاست کہا ہی نہیں جا سکتا۔
ہم حالیہ دور کو بھی سامنے رکھیں تو فلسطین ایک خطہ زمین کا نام ہے اور وہاں انسانوں کی ایک بڑی آبادی بھی موجود ہے لیکن کیونکہ وہاں خود مختار حکومت نام کی کوئی چیز نہیں اس لیے اسے آج تک ایک آزاد و خود مختار ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا۔ ایک اور مثال بنگلا دیش کی ہے کہ وہ جب پاکستان کے ساتھ تو اس وقت بھی وہ ایک خطہ زمین رکھتا تھا، آبادی کے لحاظ سے بھی اس وقت اس کی آبادی کروڑوں میں تھی لیکن وہ ریاست اس لیے نہیں تھا کہ اس کی اپنی کوئی خود مختار حکومت نہیں تھی۔ جب بنگال میں ایک خود مختار حکومت کا وجود عمل میں آگیا تو وہ ایک ریاست کی شکل اختیار کر گیا۔ باقی کسی ملک میں فوج کا ہونا، پولیس کا ہونا، مقننہ کا ہونا، عدالتوں کا ہونا وغیرہ جو کچھ بھی ہے، وہ تو سب کی سب ریاست بن جانے کے بعد کی باتیں ہیں اور ہر نو زائدہ ملک اپنے باقی ادارے اور محکمے ریاست بن جانے کے بعد ہی قائم کرتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے جب بھی لفظ ’’ریاست‘‘ کا ذکر آتا ہے تو صاف ایسا دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ ہماری فوج خود ایک ’’ریاست‘‘ ہے اور جب بھی کوئی ایسی تحریک چلتی ہے یا ملک کے کسی گوشے سے اس پر کوئی تنقید کر رہا ہوتا ہے، ریاست (فوج) اپنے آپ کو حرکت میں لانا فرض تصور کرنے لگتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس اس لیے سمجھ سے باہر ہے کہ اس قسم کی کانفرنس ان کی جانب سے کیے جانے کے بجائے حکومت کی جانب سے ہونی چاہیے تھی۔ اگر کوئی فرد یا جماعت ملک کے خلاف بات کر رہی ہو تو حکومت ِ وقت کا فرض ہوتا ہے کہ فرد یا جماعت کے خلاف قانونی کارروائی کرے اور ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے پی ٹی آئی یا اس کے سر براہ کے خلاف لگائے گئے الزامات کوئی نئے نہیں۔ پاکستان کا ماضی ایسی ہی الزام تراشیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایوب خان کے دور میں قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف بھی ایسے ہی الزامات لگائے گئے تھے۔ یہی نہیں، ان کا ساتھ دینے والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھارتی ایجنٹ بنانے کی منصوبہ بندی کر دی گئی تھی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
پاچا خان اور ان کی جماعت بھی اس کی لپیٹ میں آئی۔ جماعت اسلامی پر بھی امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی نہ صرف پاکستان کے لیے خطرہ قرار دیا گیا بلکہ اسے پھانسی تک دیدی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ نے نہ نواز شریف کو چھوڑا اور نہ بینظیر بھٹو کو۔ آصف زرداری کو آٹھ سال قید کاٹنا پڑی اور الطاف حسین اور ان کی پارٹی کو بھی ’’اسی ریاست‘‘ نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ گویا یہ ادارہ، بزعم ِ خود ایک ایسی سانس لیتی ریاست بن چکا ہے جو جب اور جس کو چاہے غدارِ اعظم بنادے اور پھر جب چاہے اسے سب سے زیادہ وفادارِ ریاست قرار دے کر اقتدار کی کرسی پر براجمان کر دے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب! اگر آپ کی ساری پریس کانفرنس کا نچوڑ نکالا جائے تو پھر پاکستان میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو ’’پاکستانی‘‘ قرار دیا جا سکے۔ کے پی کے، سندھ اور بلوچستان پہلے ہی سیکورٹی رسک تھے اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال روا تھا کہ اب پنجاب کو بھی آپ اپنے خلاف کرتے جا رہے ہیں۔ آزاد و جمہوری ممالک جس میں برطانیہ سر ِ فہرست ہے، وہاں اپنے اور بیگانے کا فرق معلوم کرنے کا طریقۂ کار الیکشن کے ساتھ ساتھ ’’ریفرنڈم‘‘ کا بھی ہے۔ کچھ ہی عرصے قبل برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ کی علٰیحدگی پسند تحریک کی آواز پر وہاں ریفرنڈم کرایا گیا تھا۔ اگر آپ جمہوریت کو اپنا دین و ایمان سمجھتے ہیں تو کیوں نہ آپ عوام اور اپنے درمیان ایک ریفرنڈم کرالیں کہ کون پاکستان کا ہمدرد ہے اور کس کے تجربے اور پالیسیاں پاکستان کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہیں۔ پاکستان کو اگر واقعی پاکستان بنانا ہے تو اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستانی عوام اور آپ کے درمیان اس ریفرنڈم کا انعقاد ہو جانا چاہیے۔ رہی بات آپ کے الزامات کی تو میں صرف اتنا ہی عرض کر سکتا ہوں کہ
اب کوئی بات نئی بات نہیں
اب کسی بات پہ چونکا نہ کرو