صدر ٹرمپ ملائیشیا جاتے ہوئے ایئرپورٹ پر قطر کے امیر سے اہم ملاقات کریں گے
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ملائیشیا جاتے ہوئے راستے میں امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات کریں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے اپنی ایشیائی دورے کے دوران ایئر فورس ون پر ایک مختصر مگر اہم ملاقات کریں گے۔
یہ ملاقات قطر میں ایندھن بھرنے کے دوران طے پائی ہے جب امریکی صدر ملائیشیا کے لیے روانہ ہوں گے جہاں وہ علاقائی سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا طیارہ العدید ایئر بیس پر مختصر وقت کے لیے قیام کرے گا جہاں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی طیارے پر سوار ہو کر امریکی صدر سے ملاقات کریں گے۔
20 سے 30 منٹ کی اس ملاقات میں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو بھی شریک ہوں گے جس میں غزہ کی موجودہ صورت حال اور انسانی امداد کی تقسیم پر بات چیت کریں گے۔
خیال رہے کہ قطر نے غزہ جنگ بندی کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کا کردار بھی ادا کیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے گزشتہ دورِ حکومت میں بھی قطر نے طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات طے کرانے اور فوجیوں کے انخلا میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ملاقات کریں گے
پڑھیں:
ٹرمپ کا روس پر بڑا وار: 2 بڑی روسی آئل کمپنیوں پر سخت پابندیاں عائد، پیوٹن سے ملاقات منسوخ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کی 2 بڑی توانائی کمپنیوں روسنیفٹ (Rosneft) اور لوک آئل (Lukoil) پر یوکرین جنگ کے سلسلے میں نئی اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں جبکہ روسی صدر پیوٹن کے ساتھ ملاقات منسوخ کردی ہے۔
یہ اقدام صدر ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت میں روس کے خلاف پہلا بڑا قدم ہے، جو ان کی بڑھتی ہوئی فرسٹریشن اور ناراضی کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہو رہے۔
امریکی محکمۂ خزانہ نے کہا ہے کہ یہ پابندیاں روس کی جنگی مشین کو کمزور کرنے اور ماسکو کو فوری جنگ بندی پر مجبور کرنے کے لیے لگائی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے ’امریکا ناخوش ہوا تو اس کے واضح اثرات سامنے آئیں گے‘، ٹرمپ کی پیوٹن کو دھمکی
امریکی وزیرِ خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کا کہنا ہے ’صدر پیوٹن کے جنگ ختم کرنے سے انکار کے بعد ہم روس کی 2 سب سے بڑی تیل کمپنیوں کو ہدف بنا رہے ہیں جو کریملن کی جنگی مہم کو مالی معاونت فراہم کرتی ہیں۔‘
درجنوں ذیلی ادارے بھی نشانہمحکمۂ خزانہ کے مطابق ان پابندیوں کے تحت روسنیفٹ اور لوک آئل کے 34 ذیلی ادارے بھی شامل ہیں۔ ان اداروں کے تمام امریکی اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں جبکہ امریکی شہریوں اور کمپنیوں کو ان سے کاروبار کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والے امریکی یا غیر ملکی افراد کو سول یا فوجداری سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
روسنیفٹ اور لوک آئل روس کی توانائی کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، جو عالمی سطح پر تیل اور گیس کی پیداوار، ریفائننگ اور فروخت میں سرگرم ہیں۔
روسی کمپنیوں پر پابندیوں کا دنیا پر اثرامریکی اقدام کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 2 ڈالر فی بیرل سے زیادہ اضافہ ہوا اور برینٹ خام تیل 64 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گیا۔
اسی روز یورپی یونین نے روس پر 19ویں پابندیوں کے پیکج کی منظوری دی جس میں روسی ایل این جی (LNG) کی درآمد پر مکمل پابندی بھی شامل ہے۔
نئی یورپی پابندیوں کے تحت روس کے شیڈو فلیٹکی مزید 117 بحری جہازوں کو بلیک لسٹ کر دیا گیا، جبکہ چین سے منسلک 4 تیل کمپنیوں کو بھی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
ٹرمپ پیوٹن ملاقات منسوخصدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہنگری میں صدر پیوٹن کے ساتھ ہونے والی ملاقات منسوخ کر دی ہے کیونکہ ابھی مناسب وقت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ پابندیاں طویل عرصہ برقرار رہیں، کیونکہ اس سے عالمی سطح پر ڈالر کی بالادستی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدر نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے
’کافی خون بہہ چکا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ جنگ ختم ہو اور امن کا معاہدہ ہو۔‘
یہ آغاز ہے، اختتام نہیںسابق امریکی عہدیدار ایڈورڈ فش مین نے کہا کہ یہ اقدام بہت دیر سے اٹھایا گیا مگر بڑا قدم ہے، لیکن یہ ’ایک بار کا عمل‘ نہیں ہونا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکا ان کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرنے والے بینکوں اور غیر ملکی خریداروں کو بھی نشانہ بنائے تو روس پر حقیقی دباؤ پڑ سکتا ہے۔
دوسری جانب، ایک سینیئر یوکرینی عہدیدار نے ان پابندیوں کو ’زبردست خبر‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہی کمپنیوں ہیں جنہیں کیف حکومت پہلے سے امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
2022 کے حملے کے بعد سے مسلسل دباؤروس نے فروری 2022 میں یوکرین پر مکمل حملہ کیا تھا، جس کے بعد مغربی ممالک نے روسی مالیاتی اداروں اور توانائی کے شعبے پر درجنوں پابندیاں عائد کیں۔
تاہم ٹرمپ انتظامیہ اب تک روس پر نئی پابندیاں عائد کرنے سے گریزاں تھی اور تجارتی محصولات کو ترجیح دیتی رہی۔
اس سے قبل ٹرمپ حکومت نے بھارت پر 25 فیصد اضافی ٹیرف لگایا تھا کیونکہ بھارت روس سے سستا تیل خرید رہا تھا۔ تاہم چین، جو روسی تیل کا بڑا خریدار ہے، اس پر فی الحال کوئی نئی امریکی پابندیاں نہیں لگائی گئیں۔
نئی حکمتِ عملی: دباؤ کے ذریعے امن کی کوششامریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ امریکا اب بھی روس سے مذاکرات کا خواہاں ہے، لیکن اس کے لیے ’جنگ بندی کی سنجیدہ نیت‘ ضروری ہے۔
ناٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے نے وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملاقات کے بعد کہا ’روس پر مسلسل دباؤ ہی پیوٹن کے رویے کو بدل سکتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو ’پاگل‘ قرار دے دیا
یوکرین کی سفیر اولگا اسٹیفانیشینا نے کہا کہ یہ اقدام ’امن کے لیے طاقت اور دباؤ کے استعمال کا واضح اشارہ‘ ہے۔
امن کی امید یا معاشی جنگ کا نیا دور؟اگرچہ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ جلد از جلد پابندیاں ہٹانا چاہتے ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ روس اور مغرب کے درمیان نئے معاشی تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
روس کی توانائی برآمدات میں کمی اور مغربی منڈیوں سے اخراج ماسکو کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ دباؤ پیوٹن کو جنگ بندی پر مجبور کر سکے گا یا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روسی صدر ولادی میر پیوٹن