مقبوضہ کشمیر، صحافیوں کے لیے خطرناک مقام
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
صحافیوں کے حقوق اور صحافتی آزادی کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ” رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز” (آر ایس ایف )نے کہا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیرقبضہ جموںوکشمیر میں صحافی مسلسل دباؤ، دھمکی اور پر خطرماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ مقبوضہ جموںو کشمیر اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ فوجی تعیناتی والے خطوں میں سے ایک ہے ، اگست 2019 کے بعد سے علاقے میں آظہار رائے کی آزادی کے حق کو سلب کر لیا گیا، مئی 2025 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں کے دوران صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اس دوران میر گل نامی صحافی کو سوشل میڈیا پوسٹ پوسٹ پر گرفتار کیا گیا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فوجی کارروائیوں جیسے حساس موضوعات کو کور کرنے والے صحافیوں کو نگرانی، گرفتاریوں اور انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ 2019 کے بعد سے کم از کم 20 صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں ”کشمیر والا ”کے ایڈیٹر فہد شاہ بھی شامل ہیں، فہد شاہ کو تقریبا دو برس قید رکھا گیا۔ ایک اور صحافی عرفان معراج کو بھی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون ”یو اے پی اے” کے تحت 2023 میں گرفتار کیا گیا۔آر ایس ایف کے ساؤتھ ایشیا ڈیسک کی سربراہ Célia Mercier نے کہاجموں و کشمیر میں میڈیا کے پیشہ ور افراد مستقل دھمکیوں کے ماحول میں کام کر رہے ہیں،انہیں شدید پابندیوں اور مسلسل نفسیاتی دباؤ کا سامناہے۔ انہوںنے بھارت پر زور دیا کہ وہ پریس کی آزادی کا احترام کرے۔ پاسپورٹ کی منسوخی، پریس کارڈ کی فراہمی سے انکار اور بھارتی حکام کے دیگر ناروا اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو کو سفری دستاویزات کے باوجود 2022 میں بیرون ملک جانے نہیں دیا گیا۔
2022 میں کشمیر پریس کلب کی بندش نے مقامی رپورٹرز کو پیشہ ورانہ جگہ سے محروم کردیااور انہیں مزید مشکلات کا شکار کر دیا۔ کشمیر میں انٹرنیٹ کی پابندیاں ایک مستقل رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، خدمات کو 2G تک محدود کر دیا گیا۔ فوجی کارروائیوں کے انٹرسروس معطل کر دی جاتی ہے۔آر ایس ایف نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت سے انکار نہ صرف صحافیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ متنازعہ اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے میں لاکھوں لوگوں کو آزادانہ اور قابل اعتماد معلومات کے حق سے بھی محروم کر دیتا ہے۔
گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران متعدد صحافیوں کی تھانوں میں طلبی، گرفتاری اور مقدموں کی وجہ سے پہلے ہی یہاں کی صحافتی برادری عجیب الجھن کا شکار ہے۔ 5 اگست 2019 سے اب تک کم سے کم ایک درجن صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ کام کے لئے یا تو ہراساں کیا گیا یا جسمانی طور پر حملہ کیا گیا۔ 14 اگست 2019 کو عرفان امین ملک کو پولیس نے ترال میں واقع ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا اور بغیر کسی وجہ کے حراست میں لیا۔ 31 اگست 2019 کو، گوہر گیلانی، کو دہلی کے ہوائی اڈے پر حکام نے روک لیا اور بیرون ملک پرواز سے روک دیا گیا۔ یکم ستمبر 2019 کو پیرزادہ عاشق کو پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا اور دبائو ڈالا گیا تاکہ وہ اپنی کہانی کے ذرائع کو ظاہر کرے۔ ایک آزاد صحافی مزمل مٹو کو اس وقت پیٹا گیا جب وہ سری نگر کے پرانے شہر میں کاوجا بازار کے علاقے میں مذہبی اجتماع کی کوریج کر رہے تھے۔ 17 دسمبر 2019 کو، پرنٹ کے اذان جاوید اور نیوز کلیک کے انیس زرگر پر پولیس نے اس وقت جسمانی حملہ کیا جب وہ سری نگر میں احتجاج کی کوریج کررہے تھے۔ 30 نومبر 2019 کو، اکنامک ٹائمز کے حکیم عرفان اور انڈین ایکسپریس کے بشارت مسعود کو پولیس نے طلب کیا اور ان کی خبروں کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ 23 دسمبر 2019 کو، ہندواڑہ میں بشارت مسعود اور اسکرول کے صفوت زرگر کو پولیس نے روک لیا، جب وہ ایک اسائنمنٹ پر تھے۔ انہیں ایس پی ہندواڑہ کے دفتر لے جاکر پوچھ گچھ کی گئی۔ 8 فروری 2020 کو ، آوٹ لک کے نصیر گنائی اور ہارون نبی کو پولیس نے طلب کیا اور جے اینڈ کے لبریشن فرنٹ کے جاری کردہ بیان پر رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ 16 فروری 2020 کو ، نیوز کلیک کے کامران یوسف کو ٹویٹر استعمال کرنے کے شبے میں پولیس نے اس کے گھر سے اٹھایا۔ اپریل 2020 کو، ایک مقامی انگریزی روزنامہ ، کشمیر آبزرور کے ساتھ کام کرنے والے صحافی مشتاق احمد کو جموں و کشمیر پولیس نے اس وقت مارا پیٹا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جب وہ شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع میں اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ پولیس لاک اپ میں اسے دو دن تک حراست میں رکھا گیا۔ 20 اپریل 2020میں جموں و کشمیر پولیس نے مسرت زہرہ اور پیرزادہ عاشق کے بعد معروف ٹی وی پینلسٹ اور صحافی گوہر گیلانی کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ پچھلے سال اے ایف پی کے سینئر فوٹو جرنلسٹ توصیف مصطفی کو سب انسپکٹر عہدے کے ایک پولیس اہلکار نے اس وقت حبس بے جا میں رکھا جب وہ سرینگر ہوائی اڈے پر سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر علیحدگی پسند رہنماوں کی کوریج کررہے تھے۔ حملے کے دوران دیگر صحافیوں – فاروق جاوید اور شعیب مسعودی ، شیخ عمر اور عمران نصار بھی زخمی ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کو پولیس نے اگست 2019 کیا گیا کام کر
پڑھیں:
بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی ریاستی دہشت گردی کو چھپانے کیلئے خود کو ‘دہشت گردی کا شکار’ظاہر کر رہا ہے، ماہرین
ماہرین کے مطابق انسداد دہشت گردی کے بارے میں مغربی طاقتوں کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعاون کا مقصد بنیادی طور پر مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم و بربریت کو چھپانا اور کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت اور امریکہ انسداد دہشت گردی مشترکہ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے دوران دہشت گردی سے متاثرہ ملک ہونے کے بھارت کے دعوے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے اپنے ریکارڈ اور پاکستان کے خلاف جارحانہ عسکری عزائم کی وجہ سے بے نقاب ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھارت اور امریکہ نے مشترکہ طور پر انسداد دہشت گردی کے اقدامات کے طور پر متعدد تنظیموں پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، آبادی کے تناسب کو بگاڑنے اور سیاسی اختلاف کو دبانے میں ملوث ہے۔ماہرین کے مطابق انسداد دہشت گردی کے بارے میں مغربی طاقتوں کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعاون کا مقصد بنیادی طور پر مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم و بربریت کو چھپانا اور کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرنا ہے۔ کشمیری بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے حق خودارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں کشمیر سے متعلق اہم پیش رفت بھارت کے بیانیے کو مزید کمزور کرتی ہے۔ بھارت نے پارلیمنٹ میں اعتراف کیا ہے کہ کالے قانون یو اے پی اے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ 2019ء میں 227، 2022ء اور 2023ء میں 1,200 سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان گرفتاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیری سیاسی کارکنوں، طلباء اور عام شہریوں کو مجرم بنانے کے لیے اس کالے قانون یو اے پی اے کو نافذ کیا گیا ہے۔ بھارتی پولیس کے سربراہ نے کشمیریوں کے قاتل ولیج ڈیفنس گارڈز کو ضم کرنے کے مطالبہ کیا ہے جس سے کشمیریوں کو مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر ظلم و تشدد اور قتل عام کا سلسلہ دوبارہ شروع کئے جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ 2019ء کے بعد سے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ بھارتی فوجی مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کے جعلی مقابلوں اور دوران حراست قتل میں ملوث ہیں۔ ادھر بھارت نے مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر عسکری کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
معروف بھارتی صحافی منیش پرساد کے مطابق بھارتی وزیر دفاع بارڈر روڈز آرگنائزیشن کے 125 نئے منصوبوں کا افتتاح کریں گے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا ہے کہ ان میں تزویراتی طور پر حساس شیوک ٹنل کا منصوبہ بھی شامل ہیں اور یہ منصوبے کشمیریوں کو سہولتوں کی فراہمی یا علاقے کے مفاد کے لیے نہیں ہے۔ ماہرین نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے لداخ کے ساتھ جنگی نقطہ نظر پر مبنی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، پاکستان کے کے بارے میں اس کا جارحانہ طرز عمل اور مقبوضہ کشمیر میں اس کے نوآبادیاتی منصوبوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کا اصل چیلنج دہشت گردی نہیں بلکہ اس کے اپنے توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی خواہاں ہے، تو اسے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر بھارت کو جوابدہ ٹھہرانا ہو گا۔