چکوال میں قتل کی سنسنی خیز واردات: 8 ماہ قبل تالاب سے ملنے والے انسانی اعضا قبر سے غائب
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال میں پولیس نے ایک 65 سالہ شخص کو قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے، جس نے 7 ماہ قبل مبینہ طور پر ایک 34 سالہ مزدور کو انتہائی سفاکی سے قتل کر کے لاش کے ٹکڑے کیے اور پھر ان ٹکڑوں کو ایک ویرانے میں پھینک دیا۔
یہ بھی پڑھیں:شادی سے 2 روز قبل شہید ہونے والا چکوال کا سپوت، کیپٹن راجہ تیمور
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چکوال احمد محی الدین کے مطابق اپنے بھیانک جرم کو چھپانے کے لیے ملزم نے مقتول اور اس کے بھائی پر ڈکیتی کا جھوٹا پرچہ درج کروا دیا تھا۔
اس جھوٹے پرچے کا حیرت انگیز پہلو یہ تھا کہ پولیس نے جس ڈکیتی کا وقوعہ ہوا ہی نہیں، اس کی برآمدگی بھی مقتول کے بھائی سے دکھا دی۔
اس سنسنی خیز واردات میں ایک اور چکرا دینے والا موڑ 21 اکتوبر کو اس وقت آیا جب 8 ماہ قبل امانتاً دفن کیے گئے مقتول کے اعضا کو نکالنے کے لیے قبر کھودی گئی تو قبر سے مقتول کی ہڈی بھی نہ ملی۔
23 مارچ کو کیا ہوا؟وی نیوز کو موصول ہونے والی پولیس دستاویزات کے مطابق رواں سال 23 مارچ کی سہ پہر پولیس ہیلپ لائن 15 پر ایک خاتون نے اطلاع دی کہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی ’نیو چکوال سٹی‘ کے قریب واقع تالاب میں انسانی اعضا تیر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:نوشکی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 4 افراد قتل
تھانہ صدر پولیس کی ٹیم موقع پر پہنچی اور دیکھا کہ تالاب میں کٹے ہوئے 2 بازو اور 2 ٹانگیں تیر رہی ہیں۔ 23مارچ کو درج ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق دونوں ٹانگیں گھٹنوں سے اور دونوں بازو کہنیوں سے کسی تیز دھار آلے سے کاٹے گئے تھے۔
پولیس نے پنجاب ایمرجنسی سروس 1122 کو طلب کیا اور اہلکاروں نے کٹے ہوئے اعضا کو تالاب سے نکالا۔ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر معائنے کے لیے سیمپل لیے۔
تھانہ صدر چکوال کے ایس ایچ او کے مطابق اعضا سے جلد اتر چکی تھی، پاؤں میں کالے رنگ کی جرابیں تھیں مگر جوتے نہیں تھے۔
پولیس نے تالاب کا سارا پانی نکالا لیکن جسم کے باقی اعضا نہ ملے۔ اگلے دن 24 مارچ کو قریب ہی سرکنڈوں کے جھنڈ سے کھوپڑی اور کولہے کی ہڈیاں ملیں۔
یہ بھی پڑھیں:ڈیگاری غیرت کے نام پر دوہرا قتل: سردار شیر باز ضمانت پر رہا، مرکزی ملزم اب بھی مفرور
کسی تھانے میں کسی گمشدگی کی رپورٹ درج نہ تھی، چنانچہ ان ہڈیوں کو امانتاً شہر کے ایک لاوارث قبرستان میں دفنا دیا گیا۔
23 مارچ سے 15 روز قبل یعنی 8 مارچ کو تھانہ صدر کے نواحی گاؤں چکوڑہ کے ایک 65 سالہ شخص محمد اسحاق عرف پیر خاک گورا کی درخواست پر ڈکیتی کا مقدمہ درج ہوا۔
ایف آئی آر کے مطابق محمد اسحاق نے بتایا کہ اس نے مویشی پال رکھے ہیں اور سحری کے وقت 3 نامعلوم افراد نے اسے ستون سے باندھ کر 25 لاکھ 60 ہزار روپے اور ایک موبائل فون چھین لیا۔
پولیس نے اس کے ڈیرے پر کام کرنے والے فرمان اللہ اور ان کے بھائی عبدالرحمن کو گرفتار کر لیا۔ فرمان اللہ اور ان کے والد فضل نبی کے مطابق پولیس نے چھاپے کے دوران خواتین سے بدتمیزی کی اور گھر سے نقدی، زیورات اور کپڑے اٹھا لیے۔
29 مارچ کو پولیس نے ایک پریس ریلیز میں دعویٰ کیا کہ ڈکیتی کیس کے ملزم سے 7 لاکھ 25 ہزار روپے اور پسٹل برآمد کر لیے گئے ہیں۔
تاہم بعد میں یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا کیونکہ وہ ڈکیتی ہوئی ہی نہیں تھی۔
23 مارچ کو ملنے والے اعضا کا ڈی این اے ٹیسٹفرمان اللہ کے مطابق جب میں 22 اپریل کو جیل سے باہر آیا تو مجھے شک ہوا کہ میرے بھائی عمران خان کو محمد اسحاق نے قتل کیا ہے۔
ڈی پی او چکوال کو دی گئی درخواست پر ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا، جس کی رپورٹ یکم اکتوبر کو آئی اور اس نے تصدیق کر دی کہ اعضا عمران خان ہی کے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد میں پولیس مقابلہ، ڈائریکٹر لینڈ احسان الٰہی قتل کیس کے 2 ملزمان ہلاک
اس رپورٹ کے بعد پولیس کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا کہ برآمدگی کسی حقیقی ڈکیتی سے متعلق تھی۔
ملزم محمد اسحاق کی گرفتاریپولیس ریکارڈ کے مطابق محمد اسحاق کو 14 اکتوبر کو گرفتار کیا گیا، مگر ذرائع کے مطابق اسے ڈی این اے رپورٹ کے فوراً بعد یکم اکتوبر کی رات ہی حراست میں لے لیا گیا تھا۔
پولیس نے ملزم کے ڈیرے سے ایک کدال، ٹوکہ، مقتول کا پاسپورٹ، پرس، شناختی کارڈ، موبائل فون اور موٹر سائیکل برآمد کیا۔
ایس ایچ او کے مطابق ملزم نے اعتراف کیا کہ اس نے یکم مارچ کو سحری کے وقت عمران کے سر پر کدال ماری، لاش کے ٹکڑے کیے، تھیلوں میں بند کیے اور رات کے اندھیرے میں تالاب کے قریب پھینک دیے۔
اپنا جرم چھپانے کے لیے عمران اور اس کے بھائیوں پر جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا۔
قتل کی وجہملزم کے مطابق اس کے بھانجے اسرار احمد کا مارچ 2023 میں قتل ہوا تھا۔ عمران اس وقت گاڑی چلا رہا تھا مگر بعد میں عدالت میں گواہی نہ دی۔ ملزم کو شک تھا کہ عمران قاتلوں سے ملا ہوا ہے۔
دوسری طرف عمران کے بھائیوں کا کہنا ہے کہ وہ گواہی نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے قاتلوں کو دیکھا ہی نہیں تھا۔
عمران خان کے اعضا قبر سے غائبفضل نبی کی درخواست پر عدالت نے 16 اکتوبر کو قبر کشائی کا حکم دیا، مگر 21 اکتوبر کو جب قبر کھولی گئی تو صرف پھٹا ہوا کفن اور چند انگلیوں کی ہڈیاں ملیں۔ بازو، ٹانگیں، کھوپڑی اور دیگر ہڈیاں غائب تھیں۔
ایس ایچ او ملک احمد نواز نے حیرت سے کہا کہ پورے بازو تھے، پوری ٹانگیں تھیں، وہ کہاں گئیں؟
فضل نبی اور فرمان اللہ کے مطابق ان کے ساتھ ظلم کے باوجود صرف ایک پولیس افسر، سب انسپکٹر نور خان نے تعاون کیا اور ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لاہور لے گئے۔
ڈی پی او احمد محی الدین کے مطابق پولیس نے اندھے قتل کا سراغ لگا لیا ہے اور جھوٹی برآمدگی ڈالنے والے اہلکاروں کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔
خاندان کا دردناک انتظارفرمان اللہ کے مطابق ان کا بھائی عمران محنت کش تھا، جس کی فروری کے آخر میں منگنی ہوئی تھی۔ 28 فروری کو جمعہ کی نماز سے قبل اس نے اپنی ہونے والی اہلیہ کے لیے تصویر بنوائی، وہی اس کی زندگی کی آخری تصویر تھی۔
سوال اب یہ ہے کہ فضل نبی کو انصاف کیسے ملے گا، جب اسی ایس ایچ او کے ہوتے ہوئے نہ صرف ان کے مقتول بیٹے پر جھوٹا مقدمہ درج ہوا بلکہ اس مقدمے کی جھوٹی برآمدگی بھی کر لی گئی؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news احمد محی الدین اندھا قتل تھانہ صدر چکوال چکوال ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چکوال فضل نبی قبر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احمد محی الدین اندھا قتل چکوال یہ بھی پڑھیں فرمان اللہ ایس ایچ او ہونے والی اکتوبر کو تھانہ صدر ڈی این اے مقتول کے کے بھائی پولیس نے کے مطابق مارچ کو قتل کی کے لیے
پڑھیں:
ڈیجیٹل کرنسی لوٹنے کا واقعہ، ملزمان کی فوٹیج غائب کرنے کی دھمکی
—فائل فوٹوکراچی ایئر پورٹ پر ڈیجیٹل کرنسی لوٹنے کے واقعے میں متاثرہ شہری کو ملزمان کی جانب سے سی سی ٹی وی فوٹیج غائب کرنے کی دھمکی دینے کا انکشاف ہوا ہے۔
کراچی ایئرپورٹ پر شہری سے ڈیجیٹل کرنسی لوٹنے کے واقعے کی عدالتی حکم پر ایس ایس پی ملیر نےانکوائری کا آغاز کر دیا، ڈی ایس پی رینک کے افسر کو تحقیقاتی افسر مقرر کر دیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ شہری سے ایئرپورٹ پر ساڑھے 8 لاکھ امریکی ڈالرز ڈیجیٹل کرنسی لوٹ لی گئی تھی، متاثرہ نوجوان سے رابطہ کیا گیا ہے، پیر کو شہری کا بیان قلم بند کیا جائے گا۔
پولیس کے مطابق واقعہ 30 ستمبر کو پیش آیا تھا جب شہری کراچی سے پشاور جارہا تھا، متاثرہ شہری نے عدالت سے رجوع کیا تھا، جس پر عدالت نے ایس ایس پی ملیر کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
کراچی ایئرپورٹ کی عمارت میں شہری لٹ گیا ،2 سادہ لباس افراد نے کروڑوں روپےکی ڈیجیٹل کرنسی لوٹ لی۔
واضح رہے کہ حبسِ بے جا میں رکھنے اور ڈیجیٹل والٹ سے ساڑھے 8 لاکھ امریکی ڈالرز منتقل کرنے کے معاملے پر متاثرہ شہری نے چیف جسٹس پاکستان، سندھ ہائی کورٹ اور پولیس حکام کو خط لکھا تھا۔
شہری نے خط میں کہا کہ ایئر پورٹ پولیس کی جانب سے مقدمے کے اندراج سے انکار پر عدالت سے رجوع کیا تھا، عدالت نے ایس ایس پی ملیر کوڈی ایس پی رینک کے افسر کو تفتیشی افسر مقرر کرنے اور تحقیقات کا حکم دیا۔
خط کے مطابق نامزد ملزمان نے رابطہ کر کے سی سی ٹی وی فوٹیج کو غائب کرنے کی دھمکیاں دی ہیں، 48 گھنٹوں کے دوران ایس ایچ او ایئر پورٹ نے لیپ ٹاپ پر سی سی ٹی وی فوٹیج کے کلپ دکھائے۔
شہری کے خط کے متن میں استدعا کی گئی ہے کہ کراچی ایئرپورٹ کے سی سی ٹی وی کیمروں کا سسٹم فوٹیج 28 سے 30 دنوں تک محفوظ رکھتا ہے، کیمروں کی ریکارڈنگ کو محفوظ کرنے کا حکم دیا جائے۔
خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ پنجاب فارنزک لیبارٹری یا نادرا ویڈیو لیب سے سی سی ٹی وی فوٹیج میں ٹیمپرنگ کی جانچ کرائی جائے، فوٹیج کو محفوظ کرنے کی رپورٹ ٹرائل کورٹ میں پیش کی جائے۔
واضح رہے کہ 22 اکتوبر کو کراچی ایئر پورٹ پر شہری سے 2 سادہ لباس افراد نے کروڑوں روپےکی ڈیجیٹل کرنسی لوٹ لی تھی۔
مبینہ واردات میں 2 سادہ لباس افراد نے پشاور جاتے ہوئے شہری کو روکا اور اُسے ایک کمرے میں لے گئے، سادہ لباس افراد نے کمرے میں شہری سے پہلے موبائل فون چھینا اور پھر ڈیجیٹل کرنسی اکاؤنٹ سے ساڑھے 8 لاکھ ڈالرز ٹرانسفر کر لیے تھے۔