پائلر کے تحت سانحہ بلدیہ کی یاد میں تقریب
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سانحہ بلدیہ فیکٹری کی 13ویں برسی کے موقع پر، جس میں 260 مزدور جاں بحق ہوئے تھے، مزدور حقوق کے علمبردار، قانونی ماہرین اور متاثرہ خاندانوں نے گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں منعقدہ تقریب میں اس سانحے کی یاد تازہ کی اور پاکستان میں مزدوروں کی سلامتی کے لیے نظامی اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ یہ سیمینار پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کے زیر اہتمام منعقد ہوا، جس میں انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والی اہم شخصیات شریک ہوئیں۔ یہ واقعہ تاریخ کے بدترین صنعتی سانحات میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔
پائلر کی جدوجہد: انصاف اور معاوضے کی فراہمی
پائلر کے جوائنٹ ڈائریکٹر عباس حیدر نے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے ادارے کے کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا:
’’پائلر نے بلدیہ فیکٹری کیس میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت تھی جس کے ذمہ داروں کا احتساب ضروری ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ پائلر نے جرمن ریٹیلر KiK سے معاوضہ حاصل کر کے ایک تاریخی کامیابی حاصل کی۔ یہ وہ کمپنی تھی جس کے لیے علی انٹرپرائزز فیکٹری 90 فیصد پیداوار کرتی تھی۔ پائلر کے بانی مرحوم کرامت علی کی قیادت میں دسمبر 2012 میں KiK سے ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت ایک ملین امریکی ڈالر بطور ابتدائی امداد متاثرین میں عدالتی کمیشن کے ذریعے تقسیم کیے گئے۔ بعد ازاں پائلر اور دیگر قومی و بین الاقوامی تنظیموں کے دباؤ پر KiK نے ستمبر 2016 میں مزید 5.
عباس حیدر نے افسوس کا اظہار کیا کہ 2012 کے سانحے سے مکمل سبق نہیں سیکھا گیا، اگرچہ کچھ بہتری ضرور آئی ہے۔ انہوں نے کہا:
’’قوانین تو بنائے گئے ہیں مگر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ فیکٹری مالکان کے پاس لائسنس تو ہیں مگر سلامتی کے اصولوں پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمیں مزدوروں کے حقوق اور عمارتوں کی حفاظت کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی۔‘‘
پاکستان اکورڈ: فیکٹری سیفٹی کا ایک ماڈل
پائلر کے شریک ڈائریکٹر ذوالفقار شاہ نے پاکستان اکورڈ برائے صحت و سلامتی پر تازہ پیش رفت سے آگاہ کیا۔ یہ معاہدہ سانحہ بلدیہ فیکٹری اور 2013 کے رنا پلازہ حادثے (بنگلہ دیش) سے حاصل شدہ اسباق کی روشنی میں تشکیل دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ معاہدہ جنوری 2023 میں نافذ العمل ہوا اور اس کا مقصد بین الاقوامی برانڈز، ٹریڈ یونینز اور مینوفیکچررز کے درمیان قانونی طور پر پابند شراکت داری کے ذریعے فیکٹریوں میں محفوظ ماحول کو یقینی بنانا ہے۔
’’ہمارے 40 انجینئر مختلف فیکٹریوں کا معائنہ کرتے ہیں۔ ہم برقی خطرات اور فائر ایگزٹ جیسے مسائل کی نشاندہی اور درستگی کرتے ہیں۔ اب تک 900 رپورٹس تیار کی جا چکی ہیں اور 6 لاکھ میں سے 1 لاکھ مزدوروں کو تربیت دی جا چکی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اکورڈ نے ایک شکایتی نظام بھی قائم کیا ہے جس میں اب تک 150 شکایات موصول ہوئی ہیں۔
’’مزدوروں کو اپنے حقوق اور حفاظتی اصولوں سے واقف کرانا بے حد ضروری ہے۔‘‘
ذوالفقار شاہ نے تجویز دی کہ متاثرہ خاندان پاکستان اکورڈ کے ساتھ مل کر ایک آن لائن یادگاری سیکشن قائم کریں تاکہ سانحہ بلدیہ کے شہداء کی جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن سکے۔
قانونی کامیابیاں اور موجودہ چیلنجز
فیصل صدیقی، جو سانحہ بلدیہ کیس کے مرکزی وکیل ہیں، نے کہا:
’’یہ محض حادثہ نہیں بلکہ نظام اور فیکٹری مالکان کے ہاتھوں کیا گیا اجتماعی قتل تھا۔ یہ پاکستان کا 9/11 تھا۔‘‘
انہوں نے 1911 کے ٹریانگل فیکٹری فائر (نیویارک) سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی اسی طرح کے حالات تھے۔ بند کھڑکیاں، کوئی فائر ایگزٹ نہیں، اور کوئی حفاظتی اقدامات نہیں۔
’’اس حادثے کے بعد امریکہ نے نظامی اصلاحات نافذ کیں، ہمیں بھی اسی نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں۔‘‘
فیصل صدیقی نے مرحوم کرامت علی کو خراجس عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا:
’’یہ سب ان کی بدولت ممکن ہوا۔ KiK کے ساتھ مفاہمتی یادداشت کرامت علی نے ہی دستخط کی تھی، مگر افسوس کہ ملک نے ان کی قدر نہ کی۔‘‘
انہوں نے جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی نمایاں کامیابیوں کا ذکر کیا:
1934 کے صحت و سلامتی قانون کی سندھ میں 2017 میں جدید شکل میں اصلاح
جرمنی میں سپلائی چین ڈیو ڈیلیجنس قانون کا نفاذ، جو خریداروں کو سپلائر فیکٹریوں کی حفاظت یقینی بنانے کا پابند کرتا ہے۔
پاکستان کی گارمنٹ فیکٹریاں اب بنگلہ دیش سے زیادہ محفوظ سمجھی جاتی ہیں۔
ILO کے تحت 6 ملین ڈالر سے زائد کا معاوضہ متاثرہ خاندانوں کو دیا گیا۔
عدالت کے حکم پر فیکٹری مالکان سے 5 کروڑ روپے ضبط کیے گئے۔
’’یہ شرم کی بات ہے کہ ہم ان لوگوں کو یاد نہیں رکھتے جن کی جدوجہد نے دنیا میں مثبت تبدیلی لائی۔ خوش قسمتی سے 2012 کے بعد ایسا کوئی بڑا سانحہ نہیں ہوا، یہ آپ سب کی جدوجہد کا ثمر ہے۔‘‘
تاہم انہوں نے نجی انشورنس معاہدے پر اعتراض اٹھایا جو متاثرین کی رضامندی کے بغیر کیا گیا۔
’’ہم نے جنیوا میں ILO کے پاس شکایت درج کرائی ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی لے جا رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے زور دیا کہ اتحاد اور یکجہتی ہی کامیابی کی بنیاد ہیں۔
’’جب عوام متاثرین کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو عدالتیں بھی سنتی ہیں۔‘‘
انصاف پر عدالتی نقطہ نظر
جسٹس (ر) مقبول باقر، جنہوں نے اس کیس کی سربراہی کی، نے کہا:
’’یہ فیکٹری قید خانے جیسی تھی۔ کوئی فائر ایگزٹ نہیں، کوئی وینٹی لیشن نہیں، لکڑی کا فلور، اور آگ بجھانے کے انتظامات کا مکمل فقدان۔‘‘
انہوں نے متاثرین کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ، معاوضہ کمیشن کے قیام، اور فیکٹری مالکان کے اثاثوں کی ضبطی کے احکامات جاری کیے۔ جو پاکستان میں ایک قانونی مثال بنے۔
’’اگر اس جدوجہد کو صحیح انداز میں دستاویزی شکل دی جائے تو یہ دنیا بھر میں پڑھائی جا سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے متاثرہ ماں سعیدہ خاتون اور وکلاء کو خراجِ تحسین پیش کیا، اور کہا کہ ’’کرامت علی کو بھلایا نہیں جا سکتا۔‘‘
مزدور سلامتی پر دیگر آراء
صحافی مہناز رحمان نے کہا کہ
’’یہ جدوجہد این جی اوز کی نہیں بلکہ ترقی پسند عوام کی ہے۔‘‘
انہوں نے خواتین مزدوروں پر غیر متناسب بوجھ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کام کی جگہوں کو محفوظ اور ہراسانی سے پاک بنایا جائے۔
اسد بٹ (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان) نے بتایا کہ وہ فیکٹری کے معائنے کے دوران ’’پہچان سے باہر جلی ہوئی لاشیں‘‘ دیکھ چکے ہیں۔ انہوں نے آڈٹ فرم RINA کو تنقید کا نشانہ بنایا جس نے آگ لگنے سے ایک ماہ قبل فیکٹری کو محفوظ قرار دیا تھا۔
طاہر حسن خان (کراچی یونین آف جرنلسٹس) نے میڈیا کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا:
’’میڈیا نے متاثرین کی کہانیاں سامنے لا کر اس کیس کو توجہ دلائی۔‘‘
سینئر مزدور رہنما حبیب الدین جنیدی نے نظامی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جبکہ قمرالحسن نے بتایا کہ صرف 2024 میں کراچی کے صنعتی علاقوں میں درجنوں آتشزدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ جو مجرمانہ غفلت کا ثبوت ہیں۔
متاثرہ خاتون ناذیہ رحمان، جنہوں نے اپنے شوہر اور بھائی دونوں کو اس سانحے میں کھویا، نے پائلر، جسٹس باقر اور فیصل صدیقی کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ وہ اب بیوٹیشن اور سماجی کارکن کے طور پر سرگرم ہیں۔
’’میرے بچے اب یونیورسٹی جا رہے ہیں، یہ کرامت علی کی تحریک کا نتیجہ ہے۔‘‘
سفارشات
تقریب کے اختتام پر پائلر کے جوائنٹ ڈائریکٹر عباس حیدر نے چند سفارشات پیش کیں:
صحت و سلامتی کے پروٹوکولز اور معائنہ نظام کو مضبوط بنایا جائے
لیبر انسپکٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے
11 ستمبر کو قومی یومِ تحفظِ صحت و سلامتی برائے مزدور قرار دیا جائے۔
تمام مزدوروں کو بلا رکاوٹ صنعتی یونینز میں شمولیت کا حق دیا جائے
معاشی ناہمواری کے خاتمے کے لیے فیکٹری مالکان مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق (کم از کم اجرت، گریجویٹی، اور ہیلتھ انشورنس) فراہم کریں۔ محض خیرات نہیں جو ان لاوارث مزدوروں کاحق ہے اور وہ ان سے محروم ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان اکورڈ فیکٹری مالکان صحت و سلامتی سانحہ بلدیہ نے بتایا کہ مزدوروں کو کرامت علی کرتے ہوئے کی جدوجہد یہ فیکٹری انہوں نے پائلر کے ہوئے کہا کے لیے کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
ٹی ٹی پی صرف پاکستان نہیں پورے خطے کے لیے خطرہ ہے، میجر جنرل زاہد محمود
دفاعی تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے ماہر میجر جنرل (ر) زاہد محمود کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پورے خطے کے لیے خطرہ ہے اور اس کی کارروائیاں نہ صرف پاکستان بلکہ خود افغانستان کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے دہشتگردی کا سلسلہ فی الفور بند ہوگا، قطر اور ترکیہ کے مشکور ہیں، خواجہ آصف
وی نیوز کو دیے گئے اپنے خصوصی انٹرویو میں میجر جنرل (ر) زاہد محمود نے کہا کہ افغان حکومت اگر ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی کرے تو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کی عالمی ساکھ بھی بہتر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین پر موجود دہشتگرد گروہوں کو خاموشی سے برداشت کرنا افغانستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
’افغانستان کو اپنی پالیسی بدلنی ہوگی‘میجر جنرل (ر) زاہد محمود نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری علاقائی امن اور انسداد دہشتگردی کے لیے ناگزیر ہے تاہم اس کے لیے افغانستان کو اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی لانی ہوگی۔
مزید پڑھیے: سعودی عرب کی جانب سے پاک افغان جنگ بندی کا خیرمقدم، قیام امن کے لیے اہم پیش رفت قرار دیدیا
انہوں نے کہا کہ ’اگر افغان حکومت اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے نہیں روکتی تو خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں‘۔
میجر جنرل (ر) زاہد محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان کی افغان پالیسی ہمیشہ 2 نکات (سیکیورٹی اور معاشی روابط) پر مرکوز رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے ہر حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی مگر طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد صورتحال پیچیدہ ہوگئی ہے۔
’ٹی ٹی پی فیکٹر نے پاکستان اور افغانستان کے بیچ بداعتمادی بڑھائی‘انہوں نے کہا کہ ’افغان طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود پاکستان نے انسانی بنیادوں پر مدد جاری رکھی لیکن ٹی ٹی پی کے معاملے نے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی بڑھا دی ہے‘۔
مزید پڑھیں: افغانستان کے لیے پاکستان لائف لائن، جنگ کے سبب افغانستان کو کتنا بڑا معاشی نقصان ہورہا ہے؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے داخلی سکیورٹی اداروں نے گزشتہ چند برسوں میں دہشتگردی کے خلاف کامیابیاں سمیٹی ہیں لیکن حالیہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ افغان سرزمین سے دراندازی ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔
میجر جنرل (ر) زاہد محمود نے کہا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ سفارتی ذرائع سے مسئلہ حل کرنے کو ترجیح دی ہے مگر اب وقت آ گیا ہے کہ کابل کے ساتھ تعلقات کی نئی بنیاد رکھی جائے جو صرف اعتماد اور عملی اقدامات پر قائم ہو‘۔
’سی پیک میں افغانستان کی شمولیت خطے کے لیے نیا باب کھول سکتی ہے‘ان کا کہنا تھا کہ علاقائی طاقتوں بالخصوص چین، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کو بھی اس عمل میں کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ افغانستان کی غیر مستحکم صورتحال پورے خطے کے امن کو متاثر کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: وزیر دفاع نے افغانستان سے سیزفائر برقرار رکھنے کی شرط بتادی
سی پیک حکمت عملی میں افغانستان کو شامل کرنا خطے کے لیے ایک نیا باب کھول سکتا ہے مگر اس کے لیے سیاسی استحکام بنیادی شرط ہے۔
’افغانستان سے عالمی دنیا کی دوری خلا پیدا کردے گی‘عالمی منظرنامے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا افغانستان سے دور رہنے کی پالیسی اپنا رہی ہے جس سے خلا پیدا ہوا ہے۔
میجر جنرل (ر) زاہد محمود نے کہا کہ امریکا اور یورپی طاقتیں اب افغانستان کو ترجیحی ایجنڈے سے باہر کرچکی ہیں اس لیے خطے کے ممالک کو خود اپنے مفادات کے مطابق نئی پالیسی ترتیب دینی ہوگی۔
پاکستان کی داخلہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کو اپنی پالیسیوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ خارجہ، داخلہ اور دفاعی پالیسیوں میں تسلسل اور واضح پیغام ضروری ہے تاکہ ہم اپنی سرحدوں پر مؤثر کنٹرول اور سفارتی سطح پر مضبوط مؤقف رکھ سکیں۔
’پاکستان کو افغانستان پر اثر انداز ہونے کا خیال دماغ سے نکالنا ہوگا‘میجر جنرل (ر) زاہد محمود کہا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات میں ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: پاکستان پر افغانستان میں رجیم چینج کی کوششوں کا الزام بے بنیاد ہے: وزیر دفاع خواجہ آصف
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سوچ سے نکلنا ہوگا کہ افغانستان پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے اور اب تعلقات کو برابری، احترام اور باہمی مفادات کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان افغانستان کی آئیسولیشن پاک افغان تعلقات ٹی ٹی پی سی پیک