پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے متعدد قوتیں کام کر رہی ہیں، جو سیاسی، معاشی، سیکیورٹی اور خارجی سطح پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ یہ قوتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور ملک کے مجموعی استحکام کو کمزور کررہی ہیں۔

حالیہ دنوں میں حکومت اور فوجی قیادت کی جانب سے واضح پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان اب ایک ہارڈ اسٹیٹ کی طرف جا رہا ہے جس کا مطلب صاف ہے کہ اب دہشتگردی اور ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں کے لیے زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنائی جائے گی، اور ایسی قوتوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائےگا۔

یہ بھی پڑھیں: سیاسی عدم استحکام کے باعث پاکستان اسٹاک مارکیٹ کریش کرگئی

پاکستان کے اس عزم کا عملی اظہار ہمیں 11 اور 12 اکتوبر کو افغانستان کے ساتھ فوجی کشیدگی اور اس سے قبل جنوری 2024 میں پاکستان کے ایران پر آپریشن مرگ بر سرمچار کے دوران دیکھنے میں آیا۔

عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتیں کیا ہیں اور کیسے کام کررہی ہیں؟

یہ گروہ پاکستان کی سیکیورٹی کو سب سے بڑا چیلنج پیش کررہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ نیشنلسٹ گروہ جیسے (بی ایل اے) حملوں کے ذریعے کام کرتے ہیں، جو سیاسی انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

مثال کے طور پر ٹی ٹی پی نے 2021 سے اب تک 70 سے زیادہ مختلف دہشتگرد گروہوں کو خود میں جذب کیا ہے، جو افغانستان سے آپریٹ کرتے ہیں اور پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ اِسی طرح سے آئی ایس آئی ایس یا داعش جس کی افغانستان کے دو صوبوں میں بڑی موجودگی جنہیں وہ ریکروٹمنٹ، ٹریننگ اور ریکوری کے لیے استعمال کرتا ہے۔

یہ گروہ مقامی غصے جیسے معاشی عدم مساوات اور فوجی آپریشنز کو بھڑکاتے ہیں، جس سے داخلی تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔ 2025 میں ٹی ٹی پی کی طرف سے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جس سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان 19 اپریل سے جو اعتماد سازی کا عمل شروع ہوا تھا اس کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔

جہاں ایک طرف افغانستان پاکستان میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی کارروائیوں کے خلاف خود کو بے قصور کہتا رہا لیکن حالیہ 11 اور 12 اکتوبر کی شدید جھڑپوں کے بعد انہوں نے دوحہ میں تسلیم کیا اور ٹی ٹی پی کو روکنے کی یقین دہانی کروائی۔

بھارت جو مختلف حربوں کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے اندر خلیج کو اور گہرا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مئی 2025 میں پاکستان سے شکست کے بعد بھارت نے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات میں زیادہ مضبوطی اور گہرائی پیدا کرنے کی کوشش کی۔

اِس وقت بھارت کی مالی مدد سے افغانستان میں ڈیم بنانے کے بیانات زیرِگردش ہیں جو آبی جارحیت کے زمرے میں آتے ہیں اور بھارت پوری کوشش کررہا ہے کہ کس طرح سے پاکستان کو مشرقی اور مغربی محاذ پر انگیج کرکے اس کی معاشی ترقی کے عمل کو سبوتاژ کیا جائے۔

’سوشل میڈیا کمپنیز دہشتگرد تنظیموں کے اکاؤنٹ بلاک کریں‘

جولائی 2025 میں پاکستان نے سوشل میڈیا کمپنیز پر زور دیا کہ وہ دہشتگرد تنظیموں جیسا کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بند کریں کیونکہ یہ تنظیمیں اِن اکاؤنٹس کے ذریعے سے پروپیگنڈا پھیلاتی ہیں۔

پاکستان نے اپنی ریڈ لائنز بتا دی ہیں، بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون

دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کہتے ہیں کہ پاکستان اپنی حکمتِ عملی پہلے ہی واضح کر چکا ہے، اور اپنی ریڈ لائنز بتاتے ہوئے مؤقف کھل کر بیان کردیا ہے کہ ٹی ٹی پی سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ امریکا اور اقوام متحدہ بھی ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو دہشتگرد تنظیمیں قرار دے چکے ہیں لیکن افغان طالبان حکومت اِن کو دہشتگرد ماننے کو تیار نہیں تھی۔ ہم نے نہ صرف اپنا مؤقف واضح کر دیا بلکہ دو روزہ فوجی کشیدگی میں واضح بھی کر دیا۔

’پاکستان ٹی ٹی پی کو فتنہ الخوارج جبکہ بی ایل اے کو فتنہ الہندوستان کہتا ہے جو صاف ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی اِن تنظیموں کے لیے پالیسی اب کیا ہے۔ ہم یہ واضح کر چُکے ہیں کہ ہم نہ صرف ان دہشتگردوں کو بلکہ اِن کے معاونت کاروں خواہ وہ پاکستان میں ہوں یا افغانستان میں، اِن کو ماریں گے۔‘

’ہم نے افغانستان کے اندر جاکر اہداف کو نشانہ بنایا‘

آصف ہارون نے کہاکہ اب ہماری پالیسی واضح ہو گئی ہے، ہم نے سپن بولدک میں افغان طالبان کا پورا بریگیڈ ہیڈ کوارٹر اُڑایا ہے، قندھار میں ملا عمر کے وقت کا ایک بہت بڑا کیمپ جس کا ایک حصہ خودکُش بمبار تیار کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور دوسرا دہشتگردی کی تربیت کے لیے استعمال ہوتا تھا، ہم نے دونوں حصے اُڑا دیے۔

’کابل میں نور ولی محسود کی گاڑی پر میزائل فائر کیا گیا لیکن کچھ وقت پہلے گاڑی سے نکل جانے کی وجہ سے وہ بچ گیا۔ حافظ گُل بہادر جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے، ہم نے اُس کے کیمپوں کو پکتیا، پکتیکا اور خوست میں نشانہ بنایا جس میں وہ خود بھی مارا گیا اور 70 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔‘

آصف ہارون نے مزید کہاکہ بی ایل اے اپنی سرگرمیاں سیستان سے کرتا ہے وہاں بھی ہم نے حملے کیے ہیں، جہاں تک مذاکرات کی پالیسی کا تعلق ہے تو اِس وقت پاکستان ایک مضبوط پوزیشن سے بات کر رہا ہے جبکہ افغان طالبان اپنے بھارتی مشیران کے زیرِاثر پاکستان کا پانی روکنے کی باتیں کرکے اپنی مضبوط پوزیشن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو وہ کر نہیں سکتے کیوںکہ اِس وقت افغانستان معاشی اور غذائی بحران کا شکار ہے۔

بات چیت اور فوجی آپریشنز ساتھ ساتھ ہونے چاہییں، طاہر خان

افغان اُمور کے حوالے سے معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتوں کے خلاف دونوں ٹریکس استعمال ہونے چاہییں یعنی بات چیت اور ملٹری آپریشنز ساتھ ساتھ ہونے چاہییں، اِس وقت ہماری ریاست کی پالیسی ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز جتنے بڑے پیمانے پر آپریشنز کرتی ہیں اُتنا ہی اُن کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اور اُتنی ہی قیمتی جانیں جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر 23 اکتوبر کو ہنگو میں خیبرپختونخوا پولیس کے 3 اہلکار شہید ہوئے۔

’دہشتگردوں کے خلاف آپریشنز پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوگئے‘

’پہلے ایک دھماکا ہوا، جب پولیس وہاں پہنچی تو دہشتگرد اپنی پوزیشنیں سنبھال چُکے تھے اور اُنہوں نے 3 پولیس والوں کو شہید کیا۔ یہ اب ایک پیٹرن ہے کہ پہلے ایک دھماکا کیا جاتا ہے اور جب سیکیورٹی اہلکار وہاں پہنچتے ہیں تو پھر اُن پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی فوری رہائی ممکن نہیں، عدم استحکام کی سازش ناکام بنائیں گے، رانا ثنا اللہ

طاہر خان نے کہاکہ اب دہشتگردی کے خلاف آپریشنز پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوگئے ہیں کیونکہ دشمن اب آبادیوں اور عام لوگوں کے اندر رہتا ہے، اُس کے پاس اسلحہ اور مین پاور بھی زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے آپریشنز اور بات چیت کے دونوں ٹریکس ساتھ ساتھ چلنے چاہییں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اندرونی قوتیں پاک افغان جنگ ٹی ٹی پی دہشتگردی سازشیں سیاسی و عسکری قیادت عدم استحکام ہارڈ اسٹیٹ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اندرونی قوتیں پاک افغان جنگ ٹی ٹی پی دہشتگردی سیاسی و عسکری قیادت عدم استحکام ہارڈ اسٹیٹ وی نیوز عدم استحکام پیدا کرنے افغان طالبان افغانستان کے پاکستان میں کہ پاکستان ا صف ہارون بی ایل اے انہوں نے نے کہاکہ کے لیے ا ٹی ٹی پی ہیں اور کوشش کر بات چیت کرنے کی کرتا ہے کی کوشش کے خلاف

پڑھیں:

چین کی پاکستان اور افغانستان سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل

چین نے پاکستان اور افغانستان پر زور دیا ہے کہ وہ بات چیت اور مشاورت کے ذریعے اختلافات کو حل کریں اور صورتحال کو کشیدہ ہونے سے بچائیں۔

چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گو جیاؤکن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، چین، افغان وزرائے خارجہ کا اجلاس، سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق

ان کا بیان 5 دسمبر کی رات پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بعد سامنے آیا، جو اکتوبر کے وسط میں طے پانے والی فائر بندی کے بعد پہلا بڑا تصادم تھا۔

ان جھڑپوں میں متعدد شہری ہلاکتوں کی بھی اطلاعات ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب

منگل کے روز اپنی معمول کی پریس بریفنگ میں گو جیاؤکن نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان روایتی طور پر چین کے دوست پڑوسی ہیں اور یہ دونوں ایسے پڑوسی ہیں جنہیں ’کہیں ہلایا نہیں جا سکتا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ چین بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بہتری اور ترقی کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان امن و استحکام پاکستان چین گو جیاؤکن وزارت خارجہ

متعلقہ مضامین

  • قوم برسوں فیض حمید اور جنرل باجوہ کے بوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی، وزیر دفاع۔ ساتھ دینے والے سیاستدانوں کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہونا چاہیے، رانا ثناء اللہ
  • پاکستان شدید ترین موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما:  مصدق ملک
  • پاکستان اور افغانستان سفارت کاری سے مسائل حل کریں‘روسی سفیر
  • فیض حمید نے بطور پی ٹی آئی کے سیاسی مشیر ملک میں سازشیں کیں، آج کا فیصلہ تاریخی ہے: عطا تارڑ
  • فرقہ واریت کا خاتمہ ہونا چاہیے، مگر کچھ علماء آج بھی تفریق کی بات کرتے ہیں، وزیراعظم
  • پاکستان کی حقیقی ترقی کیسے ممکن ہے؟
  • فرقہ واریت کا خاتمہ ہونا چاہیے مگر کچھ علما آج بھی تفریق کی بات کرتے ہیں، وزیراعظم
  • فرقہ واریت کا خاتمہ ہونا چاہیے مگر کچھ علما آج بھی تفریق کی بات کرتے ہیں، وزیراعظم
  • کسی کو خدا یا دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنے کیلئے کیسے مجبور کیا جاسکتا ہے، اسد الدین اویسی
  • چین کی پاکستان اور افغانستان سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل