وزیراعظم آزاد کشمیر کا جانا ٹھہر چکا، پی پی کو 28ممبران کی حمایت مل گئی
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 52 کے ایوان میں 17 ممبران اسمبلی پہلے سے ہی موجود ہیں جبکہ اتوار کو بیرسٹر سلطان محمود گروپ کے چھ وزرا نے فریال تالپور سے زرداری ہاؤس میں ملاقات کر کے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم چوہدری انوار الحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کو 27 کے بجائے 28 ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل ہو گی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 52 کے ایوان میں 17 ممبران اسمبلی پہلے سے ہی موجود ہیں جبکہ اتوار کو بیرسٹر سلطان محمود گروپ کے چھ وزرا نے فریال تالپور سے زرداری ہاؤس میں ملاقات کر کے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری گروپ کے محمد حسین، چوہدری اخلاق، چوہدری ارشد، یاسر سلطان، ملک ظفر اور چوہدری محمد رشید نے پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما چوہدری ریاض کی موجودگی میں فریال تالپور کے ساتھ ملاقات کے بعد انہیں یقین دلایا کہ وہ تحریک عدم اعتماد اور پیپلز پارٹی کے وزارت اعظمی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دیں گئے۔ اِدھر فارورڈ بلاک کے چار وزرا عبدالماجد خان، چوہدری اکبر ابراہیم، عاصم بٹ اور فہیم ربانی نے بھی فریال تالپور کے ساتھ ملاقات کے بعد بتایا کہ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت سازی میں ان کی غیر مشروط حمایت کریں گے، سابق وزیر اطلاعات پیر مظہر سعید شاہ پہلے ہی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
مسلم لیگ نواز کے صدر شاہ غلام قادر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کو حکومت سازی کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر حزب اختلاف کا کردار ادا کریں گے، 52 کے ایوان میں مسلم لیگ نواز کے پاس 9 ارکان اسمبلی موجود ہیں۔ شاہ غلام قادر کا کہنا تھا کہ مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے ایک ایک ووٹ کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا کہ آیا سردار عتیق احمد خان اور حسن ابراہیم پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں گے یا اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے بھی اپنے قریبی رفقا اور ساتھیوں کے ساتھ مشورہ شروع کر دیا ہے کہ آیا انہیں وزیراعظم کے منصب سے استعفیٰ دینا چاہے یا وہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں گے۔ دوسری جانب غالب امکان یہی ہے کہ وزیراعظم چوہدری انوار الحق اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیں گے، اگر اںہوں نے اگلے چوبیس گھنٹوں میں استعفیٰ نہ دیا تو پاکستان پیپلز پارٹی آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں اتحادی حکومت کو ختم کرنے کے لئے تحریک عدم اعتماد جمع کرے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: تحریک عدم اعتماد پیپلز پارٹی کے پاکستان پیپلز فریال تالپور کی حمایت کے ساتھ
پڑھیں:
خطرہ
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ 18 ویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ آگ سے کھیلنے جیسا ہوگا، پیپلز پارٹی ایسی کسی ترمیم یا اقدام کی حمایت نہیں کرے گی جو وفاق کو کمزور کرے اور صوبوں کے حقوق پر ڈاکے کے مترادف ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو جمہوریت سے 1973 کا متفقہ آئین اور پسماندہ طبقات کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کا فلسفہ دیا۔
بلاول بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے 58 ویں یوم تاسیس پر میڈیا سیل بلاول ہاؤس میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ڈیجیٹل جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی تاریخی سیاسی جدوجہد آج کی سیاسی صورت حال اور مستقبل پر اس کے ممکنہ اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف اس وقت دشمن سازش کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے ذریعے دشمن پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کر رہا ہے۔
ایک جانب بھارت ہے جو میلی آنکھ سے پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے تو دوسری طرف افغانستان کے ساتھ تلخیاں بڑھ رہی ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بجا طور پرکہا کہ ہمیں دشمن کی سازشوں کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا اور سیاست کو اس رخ پر لے جانا ہوگا کہ دشمن ہمارے اندرونی سیاسی اختلافات سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
بلاول بھٹو نے آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے یہ موقف اختیارکیا کہ ملک میں ایک آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کا حصہ تھا۔
واضح رہے کہ یہ میثاق جمہوریت آج سے 19 سال پہلے 14 مئی 2006 کو پاکستان کی دو سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان لندن میں ہونے والا معاہدہ ہے جس میں مشرف حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی آئینی ترمیم، جمہوریت میں غیر سیاسی اداروں کی حیثیت، نیشنل سیکیورٹی، احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں دونوں سیاسی جماعتوں کے نکتہ نظر کو بیان کیا گیا ہے۔
یہ معاہدہ آٹھ صفحات پر مشتمل ہے جس پر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے دستخط بھی موجود ہیں، اسے عرف عام میں چارٹر آف ڈیموکریسی بھی کہا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے یوم تاسیس پر اپنے خطاب میں جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ نہایت اہم اور سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہیں۔
بالخصوص ملک میں امن و امان کی صورت حال، دہشت گردی کے واقعات، بھارت اور افغانستان گٹھ جوڑ سے ہونے والی دراندازی جس نے کے پی کے اور بلوچستان کو طویل عرصے سے نشانہ بنا رکھا ہے، اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے افسر اور جوان اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر، کے پی کے اور بلوچستان میں امن کے قیام اور فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن چالاک، مکار اور عیار دشمن وقفے وقفے سے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو لمحہ فکریہ بھی ہے ۔
بلاول بھٹو نے بالکل درست کہا کہ ہمیں دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے یک جان ہو کر مقابلہ کرنا ہوگا اور سیاست کو اس رخ پر لے جانا ہوگا کہ دشمن ہمارے اندرونی سیاسی اختلافات سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
اس تناظر میں جب ملک کے سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو صورت حال ہرگز تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی۔ اتحادی حکومت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پی پی اور مسلم لیگ (ن) میں اعتماد کا گہرا فقدان ہے۔
سندھ میں نہروں کی تقسیم سے لے کر 18 ویں ترمیم تک پیپلز پارٹی کے مطالبات کو حکمران (ن) لیگ توجہ دینے میں ناکام ہیں۔ کے پی کے میں پی پی پی کے گورنر کی تبدیلی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔
گورنر سندھ کو ہٹانے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور کہیں سندھ کی تقسیم اور نئے صوبوں کی بحث چھیڑی جا رہی ہے اور صوبوں کے حقوق اور 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ ادھر اپوزیشن کے ساتھ بھی حکمران اتحاد کے تعلقات میں اعتماد کی کوئی جھلک پروان چڑھتی نظر نہیں آ رہی ہے۔
کے پی کے میں گورنر راج لگانے کی افواہوں نے حکومت اپوزیشن کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جو گورنر راج کی صورت میں سخت ردعمل دینے کی تیاری کر رہی ہے۔
ایسے حالات میں ملک میں نہ تو سیاسی استحکام آ سکتا ہے اور نہ ہی معاشی ترقی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ سیاسی اختلافات وطن عزیز اور قومی یکجہتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔