data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: سعودی عرب نے پاکستان کے لیے نئے مالی تعاون کے پیکیج کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت رواں مالی سال 2025-26 میں ایک ارب ڈالر کی آئل فیسیلٹی فراہم کی جائے گی جب کہ پانچ ارب ڈالر کے ڈیپازٹس بھی رول اوور کیے جائیں گے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ میں وزارتِ خزانہ کے حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ اقدام پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے اور مالی دباؤ کو کم کرنے کے لیے نہایت اہم ہے۔

تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے دی جانے والی آئل فیسیلٹی کی مالیت 290 ارب روپے کے مساوی ہوگی۔ وزارتِ خزانہ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس سہولت کے تحت سعودی عرب ہر ماہ 10 کروڑ ڈالر کی آئل فیسیلٹی فراہم کر رہا ہے، جو پاکستانی کرنسی میں 28 ارب 37 کروڑ روپے ماہانہ بنتی ہے۔

اس سلسلے میں رواں مالی سال کے ابتدائی 3 ماہ کے دوران پاکستان کو 30 کروڑ ڈالر یعنی 85 ارب روپے سے زائد کی سہولت پہلے ہی فراہم کی جا چکی ہے۔

دستاویزات کے مطابق سعودی عرب نے پاکستان کو 5 ارب ڈالر کے ٹائم ڈیپازٹس بھی دے رکھے ہیں، جو 4 فیصد شرح سود پر دستیاب ہیں۔ ان فنڈز کی ادائیگی ہر سال رول اوور کی جاتی ہے تاکہ پاکستان کو قرض واپس کرنے کے فوری دباؤ سے بچایا جا سکے۔

ان سعودی ڈیپازٹس کی مالیت پاکستانی کرنسی میں تقریباً 1450 ارب روپے بنتی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق سعودی عرب نے یہ قرض بجٹ سپورٹ کی مد میں دیا ہے، جو معیشت کو سہارا دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق سعودی عرب دسمبر میں 2 ارب ڈالر جب کہ جون 2026 میں مزید 3 ارب ڈالر کے قرض کو رول اوور کرے گا، جس سے پاکستان کو آئندہ برسوں میں بیرونی ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے میں آسانی ہوگی۔

وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا یہ قدم دونوں ممالک کے درمیان مالی تعاون کے مضبوط تعلقات کو ظاہر کرتا ہے اور یہ پیکیج پاکستان کی بیرونی مالی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ سعودی عرب کی جانب سے آئل فیسیلٹی اور ڈیپازٹس کے تسلسل سے پاکستان کو درآمدی بل کم کرنے، روپے کے استحکام اور مہنگائی میں کمی میں بھی مدد ملے گی۔ اگر حکومت ان سہولتوں کو دانشمندی سے استعمال کرے تو یہ مالی سال پاکستان کے لے معاشی استحکام کا سال بن سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے مطابق سعودی عرب پاکستان کو ارب ڈالر

پڑھیں:

بھارتی معیشت کا جھوٹ؟ آئی ایم ایف رپورٹ کی روشنی میں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251210-03-5

 

وجیہ احمد صدیقی

بھارتی روپے کی حالت دیکھ کر یہی لگا کہ جیسے ہاتھ سے نکلتی ہوئی چیز کو پکڑنے کی کوشش کی جا رہی ہو، جتنا زور لگا کر تھاما جائے، اتنا ہی زیادہ گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ 2014 میں وزیراعظم مودی نے وعدہ کیا تھا کہ ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں چلتی پھرتی جائے گی اور روپے کی قیمت چالیس روپے تک آجائے گی، لیکن آج دیکھیں کہ کس طرح روپیہ نیچے گرا اور اب ڈالر پہنچ چکا ہے، 90 کے قریب۔ اب ریزرو بینک آف انڈیا والے بھی سمجھ گئے ہیں کہ گرتے ہوئے خنجر کو پکڑنا ناممکن ہے، اس لیے فاریکس ریزرو بچانے کے لیے بس دیکھتے رہنا بہتر ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا روپیہ اگرچہ 280 روپے پر ہے، مگر اس میں کمزوری کے باوجود حقیقت چھپی ہے، کیونکہ پاکستانی کرنسی کی قدر مارکیٹ میں جو قیمت ملنی چاہیے، وہ زیادہ حقائق کے قریب ہے، جب کہ بھارت کے روپیہ کی مصنوعی اونچائی کے پردے میں بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ جی ڈی پی جتنی چاہو بڑا دکھا لو، بازار میں قوم کے روپے کی عزت وہی ہوتی ہے جو لوگ اسے دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ پاکستانی روپے سے قریبی موازنہ کر کے دیکھا جائے تو بھارت کا روپیہ کئی اعتبار سے کمزور اور بے بس نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ ہمیں اس گھٹیا حکمرانی کے نقصانات کی یاد دہانی کرواتا ہے جس نے صرف بکواس کے ساتھ عوام کا وقت ضائع کیا ہو اور حقیقت کو چھپایا ہو۔ درمیانے سے بڑے ہر بندے کا سوال یہ ہے کہ کب یہ دھوکے بازی کا کھیل ختم ہوگا اور روپے کی حقیقت سامنے آئے گی، جسے دنیا خود دیکھ سکے اور پاکستان کے روپیہ کے ساتھ اس کا موازنہ کر کے صحیح فیصلہ کر سکے۔ اس حال سے نکلنے کے لیے دونوں ملکوں کو صفائی اور دیانتداری سے اپنی کرنسی کی قدر سنبھالنی ہوگی۔

آج کے عالمی معاشی منظر نامے میں کرنسی کی قدر کا تعین نہ صرف ناممکن (nominal) ایکسچینج ریٹ سے ہوتا ہے بلکہ قوت خرید کی مساوات (PPP) پر بھی مبنی ہوتا ہے۔ پاکستان میں امریکی ڈالر کی قیمت تقریباً 280 پاکستانی روپے ہے جبکہ بھارت میں یہ 89 بھارتی روپے تک محدود ہے۔ یہ فرق بظاہر بھارتی معیشت کی برتری کی نشاندہی کرتا ہے مگر حقیقت میں بھارتی روپے کی قدر پاکستان سے بھی کم ہونی چاہیے کیونکہ بھارت کی معیشت 2011-12 کے پرانے بنیادی سال پر قائم ہے اور 85 کروڑ افراد قوت خرید سے محروم ہیں۔ آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹس اس دھوکا دہی کو بے نقاب کرتی ہیں۔ یہ تجزیہ مستند ذرائع سے ثابت کرے گا کہ بھارتی اعداد و شمار میں جو ہیرا پھیری ہے اس کی وجہ سے روپے کی قدر مصنوعی طور پر کم دکھائی جا رہی ہے، جبکہ پاکستان کی صورتحال زیادہ حقیقی ہے۔

بھارت کی معاشی بنیاد 2011-12 کے بیس (بنیادی) سال پر قائم ہے، جو 14 سال پرانا ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی اکتوبر 2025 کی ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بھارت کا قومی اکاؤنٹس سسٹم ‘C’ گریڈ کا ہے کیونکہ بیس سال اپ ڈیٹ نہیں ہوا۔ نئی معاشی ساخت، جیسے ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز، انفارمل سیکٹر کی تبدیلیاں اور انفلیشن، کو نظر انداز کر کے جی ڈی پی کو اوور اسٹی میٹ کیا جاتا ہے۔ ماہرین ارون کمار اور پرناب سین کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ’’کم سے کم قابل اعتماد‘‘ ہیں اور 8.2 فی صد کی حالیہ گروتھ بھی مشکوک ہے۔ اس پرانے بیس سال (بنیادی) کی وجہ سے بھارتی جی ڈی پی per capita PPP 9817 ڈالر دکھایا جاتا ہے جو 2024 کا ہے مگر حقیقی طور پر یہ 55 فی صد عالمی اوسط سے کم ہے۔

پاکستان کی کرنسی PKR/USD 280-282 کے قریب ہے جو REER  (Real Effective Exchange Rate) کے مطابق undervalued ہے، مگر بھارتی روپے کو PPP ایڈجسٹمنٹ میں مصنوعی طور پر مضبوط رکھا جاتا ہے۔ اگر بھارت نیا بیس سال اپنائے تو اس کا روپیہ 300 PKR سے زیادہ کا ہونا چاہیے کیونکہ انفلیشن ڈفرینشل اور غربت PPP کو متاثر کرتی ہے۔

غربت کا بھوت: 85 کروڑ افراد بغیر قوت خرید بھارت کی آبادی 140 کروڑ سے زائد ہے اور آئی ایم ایف؍ ورلڈ بینک کے مطابق 16.4 فی صد ملٹی ڈائمینشنل غربت (2019-21) ہے جو لگ بھگ 23 کروڑ افراد بنتے ہیں۔ صارفین کی قوت خرید نہ ہونے سے PPP تباہ ہو جاتی ہے۔ ورلڈ بینک کی 2025 PPP ریٹ پر انتہائی غربت لائن 62 روپیہ؍ دن ہے مگر 84 فی صد ہندوستانی $6.85 ؍دن سے کم پر زندہ ہیں، استعمال کنندہ کا دعویٰ کہ 85 کروڑ قوت خرید نہیں رکھتے، UNDP کی 2025 MPI سے قریب ہے جو بھارت کو شدید غربت والا قرار دیتی ہے۔ یہ غریب آبادی GDP اور PPP کی تردید کرتی ہے کیونکہ ان کی ضروریات (کھانا، رہائش) کو ایڈجسٹ نہیں کیا جاتا۔ آئی ایم ایف 2022 رپورٹ میں بھارت نے انتہائی غربت کو 0.8 فی صد تک کم کیا مگر یہ پرانی PPP پر مبنی ہے۔ نئی رپورٹس میں انفارمل سیکٹر کی تباہی اور COVID اثرات کو چھپایا گیا، جس سے حقیقی PPP rate بھارتی روپے کو 300 PKR سے اوپر لے جائے گا۔  بظاہر پاکستان میں غربت زیادہ ہے مگر اعداد و شمار زیادہ شفاف ہیں، جو PKR کی کمزوری کو جائز بناتا ہے۔

PPP بمقابلہ ناممکن ایکسچینج ریٹ: پاکستان اور بھارت کا موازنہ کرتے ہوئے قوت خرید کی مساوات (PPP) کہتی ہے کہ

ایکسچینج ریٹ انفلیشن اور پرائس لیولز کے مطابق ہونا چاہیے۔ بھارت میں 1 INR = 3.13 PKR ہے مگر USD/INR 89.9 اور USD/PKR 281 سے حساب لگائیں تو 1 USD = 89.9 INR اور 281 PKR، یعنی 1 INR = 3.13 PKR۔ یہ ریٹ PPP کے مطابق نہیں کیونکہ بھارت کی انفلیشن ہائی ہے اور غربت PPP کو کم کرتی ہے۔ پاکستان کا REER بتاتا ہے کہ PKR undervalued ہے مگر بھارتی روپے overvalued دکھتا ہے کیونکہ بنیادی سال پرانا اور WPI ڈیفلیٹر استعمال ہوتا ہے۔ کوانٹیگریشن ٹیسٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان- پاکستان PPP میں ایکسچینج ریٹس پرائس موومنٹس سے ہم آہنگ ہوتے ہیں مگر بھارت کی ہیرا پھیری سے انڈین روپے کی قدر بڑھائی جاتی ہے۔ اگر 85 کروڑ غریبوں کو ایڈجسٹ کریں اور نیا بیس سال لیا جائے تو بھارتی روپے کی USD قیمت 100+ ہونی چاہیے، یعنی PKR سے زیادہ کمزور۔ یہ ٹیبل ظاہر کرتا ہے کہ بھارتی اعداد و شمار مصنوعی ہیں۔ آئی ایم ایف اور عالمی اداروں کی تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق بھارتی وزارت خزانہ کی دھوکا دہی کا ثبوت ہیں۔ آئی ایم ایف کی 2025 WEO میں بھارت کے جی ڈی پی کو اوور اسٹی میٹ قرار دیا گیا، جہاں discrepancies 2-4% تک ہیں۔ بھارتی وزیر خزانہ سیتارامن نے بھی تسلیم کیا کہ ‘C’ گریڈ بیس سال کی وجہ سے ہے۔ ایک تحقیق میں بھارتی جی ڈی پی کو 4 فی صد تک محدود بتایا گیا جبکہ آفیشل 8+ فی صد ہے۔ ورلڈ بینک کی پرانی رپورٹس غربت کم دکھاتی ہیں مگر نئی PPP ($3/دن) پر 40 فی صد اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان پر آئی ایم ایف نے REER کی بنیاد پر PKR کو undervalued کہا، جو 7 فی صد اوپر ہے مگر بھارت کی خاموشی دھوکا دہی کی نشاندہی

کرتی ہے۔ یہ رپورٹیں ثابت کرتی ہیں کہ بھارتی روپے کی قدر 300 PKR سے زیادہ ہونی چاہیے۔ عالمی معیشت پر بھارتی دھوکا دہی اور ہیرا پھیری سرمایہ کاروں کو گمراہ کرتی ہے، جیسے انڈین اسٹاکس میں انفلو $38-61 فی صد گراوٹ کا باعث۔ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرامز میں سختی سے پابند کیا جاتا ہے جبکہ بھارت بچ جاتا ہے۔

بھارت کو نیا بیس سال اپنانے کا پابند بنایا جائے، غربت کو PPP میں ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی روپے کی قدر پاکستان سے زیادہ نہیں بلکہ مزید کمزور ہونی چاہیے۔ آئی ایم ایف رپورٹس اسے واضح کرتی ہیں۔ عالمی برادری کو شفافیت کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ معاشی اعداد و شمار کے جھوٹ پر مبنی بھارتی معیشت دنیا کو دھوکا نہ دے۔

 

وجیہ احمد صدیقی

متعلقہ مضامین

  • ملک پر قابض کرپٹ ٹولے نے ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا: سہیل آفریدی
  • پاکستان میں مہنگائی، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے، قرضوں کا بوجھ، سرمایہ کاری کم ہونے کا امکان: آئی ایم ایف
  • پاکستان میں مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے‘ آئی ایم ایف کا انتباہ
  • واپڈاکے تعمیراتی منصوبوں کی مالی معاونت جاری رکھیں گے ، اے ایف ڈی
  • آئی ایم ایف نے خبردار کردیا ،پاکستان میں مہنگائی دوبارہ بڑھنے کا خدشہ
  • امریکا کے ایگزم بینک کا پاکستان کےلیے 1.25 ارب ڈالر کی مالی معاونت کا اعلان
  • پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے: آئی ایم ایف
  • بھارتی معیشت کا جھوٹ؟ آئی ایم ایف رپورٹ کی روشنی میں
  • مالی بدعنوانی سے پاک معاشرہ ہی ملکی ترقی، خوشحالی اور معیشت کی مضبوطی اور عوامی اعتماد کو یقینی بناتا ہے؛ وزیراعظم
  • وزیر خزانہ کا ملکی معیشت مضبوط بنانے کا عزم