Jasarat News:
2025-10-30@18:26:24 GMT

ملالہ یوسف زئی کا مشن: ہم جنس پرستی کا فروغ

اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ملالہ یوسف زئی آج کل امریکا کے دورے پر ہیں، ایک نہایت متنازع واقعے کے بعد نہایت کم عمری میں نوبل پرائز کا ملنا دنیا کے لیے حیران کن تھا ہی لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں انسانی اخلاق کے اسلامی اصول معیار کی حیثیت رکھتے ہوں وہاں بدکاری کو فروغ دینے کے لیے ملالہ نے جوائے لینڈ جیسی ہم جنس پرستی پر مشتمل فلم بنائی تاکہ پاکستانی معاشرے میں ہم جنس پرستی کو نہ صرف فروغ دیا جا سکے بلکہ اس کو گناہ سمجھنے والوں کے ذہن سے یہ بھی مٹا دیا جائے کہ یہ غلط کام ہے بلکہ یہ کام کرنے والے اس کام کا حق رکھتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کرنٹ مارنے والے پلگ میں اپنی انگلیاں ڈال دیں اور یہ کہیں کہ پلگ میں انگلیاں ڈالنا میرا حق ہے اور کرنٹ کی غلطی ہے جو مجھے تکلیف پہنچا رہا ہے۔ یہ مثال ہم جنس پرستی کے غیر فطری اعمال پر بالکل صادق آتی ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے نوبل انعام پاتے ہی اپنے اس عزم کا اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کی وزیراعظم بننا چاہتی ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ اپنے اس مشن کو پورا کرنے سے پہلے وہ پاکستان کو جنسی طور پر ایک آزاد خیال ملک دیکھنا چاہتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ منشیات کے حوالے سے بھی ملالہ کا نظریہ بالکل مختلف ہے۔
ملالہ یوسف زئی نے برطانیہ میں تعلیم کے دوران پیش آنے والے ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران انہوں نے دوستوں کے ساتھ بھنگ (ویڈ پائپ) کا نشہ کیا تھا۔ اس بات کا انکشاف نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ملالہ نے گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا۔ اس نشے کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے ملالہ کے مطابق جب اس کا اثر ظاہر ہونے لگا تو انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اچانک لندن سے واپس اپنے گائوں سوات پہنچ گئی ہوں اور پھر وہی خوف، وہی چیخیں، وہی خون آلود مناظر آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دوران انہیں شدید گھبراہٹ کا سامنا ہوا، دوستوں نے انہیں ایک کمرے میں لے جا کر سنبھالنے کی کوشش کی، جبکہ انہیں مسلسل الٹیاں ہو رہی تھیں۔ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ اسپتال نہ جاؤ، کیونکہ خون میں اثر کی وجہ سے مسئلہ ہو سکتا ہے۔
ملالہ یوسف زئی نے اعتراف کیا کہ اْس رات وہ پوری رات جاگتی رہیں، نیند کوسوں دور تھی، اور انہیں یہی خوف لاحق تھا کہ شاید وہ دوبارہ زندہ نہ اُٹھ سکیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملالہ عادی نشئی ہیں اگر انہوں نے اتفاقاً نشہ کیا تھا تو اسپتال جانے میں کیا حرج تھا لیکن اگر وہ اسپتال جاتیں تو شاید یہ بات مْستند ہو جاتی کہ ملالہ ڈرگز کی عادی ہیں۔ وہ آج سے نہیں بلکہ سوات سے اس کی عادی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دوستوں نے منع کیا ہوگا باقی کہانی انہوں نے گارڈین میں اپنی پارسائی کے لیے بیان کر دی ہے۔
اب ذرا ذکر ہو جائے جوائے لینڈ کا۔ ملالہ یوسفزئی نے فلم ’’جوائے لینڈ‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ کوئی سرگرمی یا کسی مسئلہ کے حق میں دلیل نہیں بلکہ فن کا ایک شاہکار ہے۔ یہ فلم پاکستان کے لیے ایک محبت بھرے خط کی مانند ہے، جو پاکستانی معاشرے کے اندر آزادی کی خواہش اور مردانگی کے کلچر کے منفی اثرات کو عکاسی کرتی ہے۔ ملالہ کے الفاظ میں، ’’جوائے لینڈ‘‘ کسی خاص نقطہ نظر کی تائید یا مخالفت نہیں کرتی بلکہ ہر کردار کو ہمدردی کے ساتھ پیش کرتی ہے، چاہے وہ بوڑھا خاندان کا سردار ہو یا وہ نوجوان بیوی جو اپنے حقوق کی طالب ہو۔ یہ فلم جنسی تعصبات، خاندان کے نظام، اور عورتوں کی دوستی اور یکجہتی جیسے موضوعات کو سامنے لاتی ہے۔ ملالہ کا کہنا ہے کہ یہ فلم پاکستانی ثقافت، کھانے، فیشن، اور سب سے بڑھ کر لوگوں کی عکاسی کرتی ہے، جسے بعض ناقدین نے ملک کی منفی تصویر پیش کرنے کے بہانے بند کرایا۔ حقیقت میں، یہ فلم پاکستانی عوام کی خواہشات، ان کی آزادی اور خوشیوں کی کہانی ہے۔ ملالہ جوائے لینڈ کی ایگزیکٹو پروڈیوسر بھی ہیں، فلم جوائے لینڈ کے ایگزیکٹو پروڈیوسرز میں ملالہ کے ساتھ جمائمہ خان بھی شامل تھیں۔ اور یہ فلم پاکستان میں ٹرانس جینڈر لوگوں کے مسائل پر روشنی ڈالتی ہے، جس کا مقصد خواتین، رنگین لوگوں، اور نوجوان فنکاروں جیسی آوازوں کو اُجاگر کرنا ہے۔
آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ملالہ کا مشن کیا ہے؟ ملالہ قطعی طور پر پاکستان کا فخر نہیں ہے وہ پاکستان کو ایک بدکار ہم جنس پرست ملک کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے اور وہ ہم جنس پرستوں کی ہی وزیر اعظم بننا چاہتی ہے۔ ’’ملالہ کی حالیہ یادداشتیں کسی حقیقت کا اظہار کرنے سے زیادہ اپنی شخصیت کو ایک خاص انداز میں پیش کرنے کا موقع حاصل کر رہی ہیں۔ وہ مغرب کے لیے اپنی شخصیت کو ایک ہم جنس پرست کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جس میں ثقافتی بغاوت کے ذریعے خود کو انسانیت کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ’بھنگ‘ والا لمحہ، ’سیکس بم‘ کی کہانی، اور دیگر ذاتی اعترافات، عالمی سیاسی سرگرمی سے ذاتی کہانی کی جانب ایک تیز تبدیلی کا اظہار ہیں۔ ملالہ کی کہانی ہمیشہ دو دنیائوں سے جْڑی تھی، ایک جس نے اسے تربیت دی، اور دوسری جس نے اسے بیچا۔ ملالہ یہ سب کچھ اپنے آپ کو مغرب کے لیے قابل قبول بنانے اور اپنی ضرورت کو برقرار رکھنے کے لیے کر رہی ہے۔
یہ باہر داد حاصل کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، اور گھر میں بے چینی پھیلانے کا سبب ہے۔ طالبان کی گولی سے لے کر اوکسفورڈ کے ’بھنگ‘ تک کا سفر کہیں نہ کہیں اپنی رہنمائی سے محروم ہو چکا ہے، جو صدمے اور ڈراما کے درمیان راستہ کھو چکا ہے۔ یہ کہنا کہ اس کے شوہر نے شادی سے پہلے اسے سیکس بم کہا تھا یہ سب اپنے آپ کو مکمل طور پر مغرب زدہ ثابت کرنے کی کوشش ہے ایسا لگتا ہے کہ مغرب کے پاس اب ملالہ کی کوئی افادیت نہیں رہی اور ملالہ اپنا چورن بیچنے کے لیے ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے۔

وجیہ احمد صدیقی سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ملالہ یوسف زئی یہ فلم پاکستان ہم جنس پرستی جوائے لینڈ کے ساتھ کیا تھا اپنے ا کے لیے

پڑھیں:

یوسف تاریگامی کا بھارتی جیلوں سے کشمیری قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ

یوسف تاریگامی نے کہا کہ انہیں غیر قانونی طور پر نظر بند سینئر حریت رہنما شبیر احمد شاہ کے اہلخانہ کی طرف سے ایک کال موصول ہوئی جس میں ان کی بگڑتی ہوئی صحت پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سی پی آئی (ایم) کے رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے بھارتی جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو وادی کشمیر کی جیلوں میں منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یوسف تاریگامی نے سرینگر میں قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گھروں سے دور مسلسل نظربندی سے ان کے اہلخانہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں جیلوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور اگر ضرورت ہو تو مقامی طور پر نظربندوں کو رکھنے کے لیے مزید جیلیں تعمیر کی جانی چاہیں۔ یوسف تاریگامی نے کہا کہ انہیں غیر قانونی طور پر نظر بند سینئر حریت رہنما شبیر احمد شاہ کے اہلخانہ کی طرف سے ایک کال موصول ہوئی جس میں ان کی بگڑتی ہوئی صحت پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے شبیر شاہ کے اہل خانہ کی طرف سے فون آیا جو انتہائی پریشان ہیں اور انہوں نے کہا کہ بھارت کی تہاڑ جیل میں ان کی حالت تشویشناک ہے۔ تاریگامی نے کہا کہ بدنام زمانہ آمریتوں میں بھی اہلخانہ کو قیدیوں سے ملنے کی اجازت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری قیدیوں کو کشمیر سے باہر کی جیلوں میں رکھنا اہلخانہ کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے قابض حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس پالیسی پر نظرثانی کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ جموں و کشمیر کے قیدیوں کو علاقے میں ہی رکھا جائے تاکہ وہ اپنے اہلخانہ سے ملاقات کر سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • کوٹ رادھا کشن;   ٹرین کی زد میں آ کر  نوجوان جاں بحق
  • سیکٹر 8 کے مسائل کے حل کیلیے کوشاں ہوں‘ محمد یوسف
  •  پنجاب سیاحت و ورثہ اتھارٹی ایکٹ 2025 اسمبلی میں پیش
  • یوسف تاریگامی کا بھارتی جیلوں سے کشمیری قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ
  • لیو انکیشمنٹ ہر ملازم کا بنیادی حق ہے ‘محمدیوسف
  • سندھ میں ایڈز کے بڑھتے کیسز پر تشویش ،ہم جنس پرستی قرار
  • سندھ میں ایڈز کے بڑھتے کیسز، ہم جنس پرستی اہم وجوہات میں سے ایک قرار
  • ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر ڈیجیٹل ادائیگی کا نیا نظام فعال، مسافروں کو جدید سہولت میسر
  • فنانس کی تعلیم کے فروغ کیلئے شرکت داری قائم کرنے کی دستاویزت کا تبادلہ کیا جارہا ہے