تھائی لینڈ میں بارشوں کا 300 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا؛ معمولاتِ زندگی ٹھپ؛ ہلاکتیں
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
تھائی لینڈ میں ہونے والی بارشوں نے ملک کے 9 صوبوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچادی جسے میں معمولاتِ زندگی معطل ہوکر رہ گئے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق تھائی لینڈ کے متاثرہ صوبوں میں 400 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ کی گئی جو 3 سو سال بعد ہونے والی سب سے زیادہ بارشیں ہیں۔
اس ریکارڈ توڑ شدید بارشوں کے بعد دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی آگئی اور پانی نے سیلابی ریلے کی صورت اختیار کرتے ہوئے رہائشی علاقوں کا رخ کرلیا۔
سیلابی ریلے نے اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ سڑکیں تالاب کا منظر پیش کر رہی ہیں اور جگہ جگہ درخت، ہورڈنگز اور مکانات کی چھتیں گری ہوئی ہیں۔
وزارتِ صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے اور دیگر حادثات میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی جہاں 100 سے زائد زخمیوں کو لایا گیا۔ میونسپل ادارے ریڈ الرٹ ہیں اور ریسکیو ادارے امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔
متاثرہ صوبوں میں اسکولوں اور دفاتر میں حاضری نہ ہونے کے برابر رہی۔ شہریوں کو ساحل سے دور رہنے اور بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں غیر متوقع، خطرناک حد تک اور بے موسم بارشوں، سیلاب، برفباری اور زلزلوں کو ماہرین نے موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جین زی کمزور ترین پاس ورڈز استعمال کرنے والی نسل قرار؛ ماہرین پریشان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آج کے ڈیجیٹل دور میں جب ہر شخص اپنی نجی معلومات، تصاویر، مالی لین دین اور روزمرہ رابطوں کے لیے آن لائن سسٹمز پر انحصار کرتا ہے، وہاں پاس ورڈ ایک ایسی بنیادی حفاظتی دیوار ہے جس کی مضبوطی پر ہی صارف کی پرائیویسی اور ڈیٹا کی سلامتی قائم ہوتی ہے۔
تازہ تحقیقی رپورٹ نے اس حوالے سے نوجوان نسل کے رویّے پر سنگین سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ اگرچہ عمومی تاثر یہ ہے کہ جین زی ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے، مگر رپورٹ نے بتایا کہ یہ نسل پاس ورڈ کے انتخاب میں نہایت لاپروائی کا مظاہرہ کررہی ہے، بلکہ ان کے منتخب کردہ پاس ورڈز اتنے غیر محفوظ ہیں کہ انہیں سیکنڈوں میں توڑا جاسکتا ہے۔
ٹیکنالوجی سے وابستہ اداروں کے مطابق پاس ورڈ مینیجمنٹ ٹولز تیار کرنے والی ایک بڑی کمپنی نے ہزاروں صارفین کے استعمال شدہ پاس ورڈز کا جائزہ لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان طبقے کی اکثریت اب بھی ’12345‘ یا ’123456‘ جیسے پاس ورڈز استعمال کر رہی ہے۔
حیرت انگیز طور پر جب انہیں مزید ہندسوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے تو وہ بھی سیدھی ترتیب میں ایک سے سات یا ایک سے نو تک کے نمبروں کو ملا کر پاس ورڈ بنالیتے ہیں۔ ماہرین اسے سب سے کمزور اور خطرناک طرزِ عمل قرار دے رہے ہیں، کیونکہ ایسے پاسورڈز عام ہیکنگ سافٹ ویئر کے ذریعے چند لمحوں میں ٹوٹ سکتے ہیں۔
تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ 1997 کے بعد پیدا ہونے والے افراد اپنی یادداشت پر کم بھروسا کرتے ہیں اور اس وجہ سے غیر پیچیدہ، آسان اور یاد رہ جانے والے پاسورڈز کا انتخاب کرتے ہیں جو درحقیقت انہیں ہیکرز کا آسان شکار بنا دیتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ سابقہ نسلیں، خصوصاً 1946 سے 1964 کے درمیان پیدا ہونے والے لوگ بھی یہی نمبرز استعمال کرتے تھے، مگر اُس دور میں ٹیکنالوجی کی رفتار، ڈیٹا کی نوعیت اور ہیکنگ کے ہتھکنڈے اتنے پیچیدہ نہیں تھے، اسی لیے ان پاس ورڈز کو اُس وقت نسبتاً محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ آگاہی مہمات، میڈیا کمپینز اور مختلف پلیٹ فارمز پر چلائے جانے والے سیکورٹی الرٹس کے باوجود نوجوانوں نے اپنی پاس ورڈ عادات میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں کی۔ اگرچہ کچھ صارفین نے غیر روایتی ہندسوں، علامات اور بڑے حروف کے امتزاج سے نئے پاس ورڈز تشکیل دینے کی کوشش کی ہے، لیکن ان کی تعداد اب بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
تحقیق میں امریکا، جاپان، جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے ہزاروں افراد کا ڈیٹا شامل تھا جن میں زیادہ تر جین زی شامل تھے، اور ان سب کا رجحان تقریباً ایک جیسا پایا گیا۔
ماہرین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ نئے دور کی نوجوان نسل پاس ورڈ کے بجائے بائیومیٹرک سیکورٹی، پاس کیز، فیس آئی ڈی، فنگر پرنٹ اور ٹو فیکٹر آتھنٹیکیشن جیسے جدید حفاظتی طریقے استعمال کر رہی ہے، جس سے ان کے اکاؤنٹس کے براہِ راست ہیک ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں، تاہم کمزور پاس ورڈ کا استعمال اب بھی ایک سنگین کمزوری ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔