Express News:
2025-12-10@22:20:13 GMT

ایئر لائن جو دنیا کو اڑان سکھاتی تھی

اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT

پی آئی اے (پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز) کی بنیاد دراصل اورینٹ ایئرویز کے انضمام سے 10 جنوری 1955 کو ایک سرکاری ادارے کے طور پر رکھی گئی، اس طرح یہ ایک ایسا منجھا ہوا تجربہ کار قومی فضائی ادارہ بن گیا جس نے جلد ہی دنیا کو بھی اڑان سکھانا شروع کردیا۔


آج کی یہ کہانی ایک ایسے پرندے کی ہے جو کبھی نیلے آسمان پر سب سے اونچا اڑتا تھا اور پھر دوسروں کو بھی اڑنا سکھاتا تھا۔ اس کے پروں پر PIA لکھا ہوتا تھا اور دنیا اسے پاکستان کے نام سے پہچانتی تھی۔

آج اس پرندے کو ہاتھوں میں پکڑے بیٹھے ہیں اور اعلان کر رہے ہیں کہ PIA کی بولی 23 دسمبرکو ہوگی۔ یہ ادارہ ہے جو اس خطے کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا ایک قابل فخر نام تھا۔ 1960 میں PIA وہ پہلی ایئرلائن بنی جس نے چین تک فضائی سروس کا آغاز کیا۔

1962 میں دنیا کی کئی فضائی کمپنیوں نے PIA سے ٹریننگ مانگی۔ جی ہاں، وہ ایئرلائن جو دنیا کو اڑنا سکھاتی تھی۔ آج ہم نے اسے نیچے بٹھا دیا ہے۔

1970 کی دہائی میں PIA کا نام معیار کی علامت تھا۔ صرف نعرہ نہیں "Great People to fly with"حقیقت تھی۔ دبئی، لندن، نیویارک، ٹوکیو، اوساکا، ٹورانٹو جہاں بھی PIA اترتی، پاکستانی پرچم کی مسکراہٹیں اس میں شامل ہوتی تھیں۔

اس قومی فضائی کمپنی نے 13 سے زائد عالمی ایئرلائنز کمپنیوں کو ٹریننگ دی۔ کئی سال ایسے بھی گزرے جب سالانہ آمدن 100 ارب روپے کے قریب بھی پہنچتی تھی اور پھر یہ نفع نقصان میں بدلتا چلا گیا اور بالآخر اس قومی ادارے کو اس مقام پر لاکھڑا کردیا گیا کہ نجکاری کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔

اخبارکی سرخی چیخ رہی ہے کہ PIA کی نجکاری کے لیے بولی 23 دسمبر کو ہوگی۔ یہ تاریخ نہیں ہے، یہ اعلان ہے کہ قوم نے اپنی سب سے قیمتی اور اونچی بلند ترین علامت پر فاتحہ پڑھ دی ہے۔ اس قومی ادارے نے پاکستان کے بننے کے کچھ سالوں کے بعد ہی دنیا کو بلند ترین پرواز دکھا کر باورکرا دیا تھا پاکستانی قوم کمزور نہیں ہے۔

آج وہی ادارہ مایوس کھڑا ہے، ٹوٹے ہوئے پروں کے ساتھ، گری ہوئی پلکوں کے ساتھ، حسرت بھری نگاہوں کے ساتھ جیسے پوچھ رہا ہو میرا کیا قصور تھا؟ یہ قوم کے لیے سوچنے کا وقت ہے کہ ہم اپنی عظمت کو خود نیلام کرنے جا رہے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر نجکاری کو صرف مالی بیل آؤٹ سمجھا گیا ہے، یعنی قرض صاف ہو جائے، اثاثے بیچے جائیں، تو یہ محض عارضی تسکین ہوگی اور اگر نجکاری کو ایک اصلاحی منصوبہ سمجھا جائے کہ نیا ڈھانچہ، جدید فلیٹ، منتظم مینجمنٹ، بین الاقوامی روابط ہوں تو شاید قومی فضائی کمپنی دوبارہ اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائے۔

ضروری ہے کہ نجکاری شفاف ہو جس کے لیے کوششوں کا عرصہ ہوا آغازکردیا گیا ہے اور نجی شعبے کو صرف منافع نہیں بلکہ ذمے داری قبول کرنے کا پابند کیا جائے۔ پی آئی اے جیسی کمپنی کا بتدریج نقصان میں جانا، ایک قومی المیے سے کم نہیں ہے۔

وہ بھی کیا دن تھے جب پی آئی اے کا نام سنتے ہی قوم کا سر فخر سے بلند ہو جاتا تھا۔ پرچم پاکستان ہر طیارے کی دم پر تھا اور ہر پرواز کے ساتھ امیدوں کا سفر۔ مگر آج وہی پروازیں قوم کے زخموں کا بوجھ بن گئی ہیں۔

یہ خسارہ دراصل انتظامی غفلت، سستی کاہلی کی بدولت تھا۔ مجھے ایک ذمے دار شخص نے بتایا کہ جب کوئی پرزہ خراب ہو جاتا تو ایک دور دراز کے صنعتی ملک کو بھیج کر درست کرایا جاتا تھا۔ حالانکہ یہ کام پاکستان میں موجود انجینئرز سے بھی لیا جا سکتا تھا۔

اس طرح دوسرے ملک کو بھیج کر درست کرانے میں کئی دن بھی لگ جاتے اور رقم بھی بہت زیادہ خرچ ہوا کرتی تھی۔ بہرحال بھرپور منافع دینے والی فخر قوم کمپنی کا درجہ رکھنے والی کمپنی کو بتدریج نقصان ہونے لگا۔

پچھلی کئی دہائیوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نفع و نقصان کے ساتھ ساتھ بالآخر مسلسل نقصان کا سلسلہ شروع ہوگیا اور PIA پر مسلسل مالی دباؤ بڑھتا چلا گیا۔ پرزوں کی بیرون ملک روانگی کے باعث مینٹیننس کی تاخیر، فضائی جہازوں کا پرانا ہو جانا، موثر مینجمنٹ کی کمی یا پھر ان کی طرف سے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جانا اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس ادارے کو پے در پے نقصان ہوتا چلا گیا اور بالآخر فیصلہ کرنا پڑا کہ اب اس کی نیلامی کر دی جائے۔

درآمد شدہ انجن، پرزے اور بیرونی ادائیگیوں نے زرمبادلہ کے ذخائر پر جب دباؤ بڑھایا تو اس ادارے کو قرض اور بینکنگ سہولیات کی جانب مڑنا پڑا۔

نتیجتاً خسارہ ہی خسارہ نکلتا چلا گیا۔ اس سلسلے میں بیرونی عناصر کو الزام نہیں دے سکتے بلکہ ادارے کی داخلی کمزوری، پالیسی کے عدم تسلسل، کسی حکومت کی ترجیح میں یہ بات شامل نہ تھی کہ PIA کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔

نجکاری کو میرے خیال میں ایک جرأت مندانہ قدم کہہ سکتے ہیں، لیکن اس میں بیل آؤٹ کا مقصد شامل ہو جائے ، قرض معاف کرانا، اثاثے منتقلی اور بنیادی ڈھانچے کی مرمت نہ ہو، عملے کی تنزلی ہو، عملی معیار کی قربانی اور قومی شناخت کی فروخت شامل ہو جائے تو ایسا ہے کہ جیسے ہم اپنے فخر کی پرواز کو بیچ رہے ہیں، اگر ہم نے اسے صرف خسارے کی فائل بنا دیا اور اسے نجکاری کی غیر فکری، مختصر مدتی تسکین جانا تو ہم نے اپنی فضائی تاریخ کا نقصان کر ڈالا ہے۔

اس وقت نجکاری کے لیے تیاری کی جا رہی ہے، حکومت اور متعلقہ محکمے نجکاری کے دوران عوامی مفاد، ملازمین کے حقوق اور قومی فضائی معیار کو بحال رکھنے کے معاملات پر غور کیے ہوئے ہیں تاکہ نجکاری ’’بیچ دو، اور بھول جاؤ‘‘ کا عمل نہ بن جائے بلکہ ایسی ساختی اصلاح قرار پائے۔

نجکاری کے بعد اگر عملے کی تعداد یا ان کی تنخواہیں کم کی جاتی ہیں تو معیار متاثر ہو سکتا ہے۔ نجی شعبے کو براہ راست منافع بنانا ہوگا اس کے لیے نہ صرف پروازیں بلکہ کارگو، بین الاقوامی نیٹ ورک اور مالی ڈھانچہ مستحکم بنانا ہوگا۔

حکومت کو چاہیے کہ نجکاری کو ایک موقع کی نظر سے دیکھے اور اس کے تقاضے پورے کرے، تب جا کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پی آئی اے کی یہ نجکاری امید کی کرن بن سکتی ہے۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نجکاری کے کہ نجکاری نجکاری کو پی آئی اے چلا گیا کے ساتھ دنیا کو ہو جائے کے لیے کو بھی

پڑھیں:

ٹنڈوالٰہیار،واپڈا کی نجکاری کے خلاف یونین کے اراکین سراپا احتجاج ہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251210-11-18

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • انسانی حقوق کوئی تحفہ نہیں‘ ہر انسان کا فطری حق ہیں،منورحمید
  • دنیا امن و استحکام کیلئے انسانی حقوق کا احترام کرے، ڈاکٹر طاہر القادری
  • ٹنڈوالٰہیار،واپڈا کی نجکاری کے خلاف یونین کے اراکین سراپا احتجاج ہیں
  • واپڈا کی نجکاری کسی بھی صورت قبول نہیں،روشن علی
  • ہلکا سفید رنگ ’کلر آف دی ایئر‘ قرار، امریکی کمپنی پنٹون پر تعصب کا الزام
  • کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے،شرجیل میمن
  • ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن ریڈ لائن کراس کرنے کی کسی کو اجازت نہیں، شرجیل میمن
  • کراچی سے لاہور جانے والی گرین لائن میں کھٹملوں کی بھرمار، ویڈیوز وائرل
  • سکھر،پریم یونین کے تحت مزدور کنونشن کا انعقاد ،احتجاجی ریلی نکالی گئی