ملتان ٹیسٹ کے آخری روز پاکستانی بلے باز وکٹ کیپر محمد رضوان جومل واریکن کی گیند پر کلین بولڈ ہوتے ہوئے
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
ملتان ٹیسٹ کے آخری روز پاکستانی بلے باز وکٹ کیپر محمد رضوان جومل واریکن کی گیند پر کلین بولڈ ہوتے ہوئے.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
راوی کی موجوں کے ساتھ ڈوبتی ایک روایت، لکڑی کی کشتیوں کا آخری کاریگر
لاہور:دریائے راوی کے کنارے بیٹھا عبدالمجید لکڑی کو کھرچتے ہوئے ماضی کی گونج کو تازہ کرتا ہے، ایک ایسا ماضی جو اب صرف یادوں میں باقی ہے، مون سون کی حالیہ بارشوں نے راوی میں زندگی کی عارضی لہر دوڑائی تو عبدالمجید کا برسوں پرانا ہنر بھی چند ہفتوں کے لیے جاگ اٹھا، پانی آیا تو کشتی سازی کی بھولی بسری گونج بھی لوٹ آئی۔
اسی راوی کنارے 80 سالہ عبدالمجید آج بھی لکڑی کی کشتی بنانے میں مشغول ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ ہنر محض 10 برس کی عمر میں سیکھنا شروع کیا تھا، ان کی بنائی پہلی کشتی گورنمنٹ کالج لاہور کے لیے تھی، جس کی قیمت اس وقت صرف 250 روپے تھی اور آج وہی کشتی اگر بنائی جائے تو اس کی قیمت 8 سے 10 لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے۔
عبدالمجید بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب راوی اپنے جوبن پر تھا، اس وقت لاہور میں کئی بوٹس کلب ہوا کرتے تھے، جن کے لیے وہ باقاعدگی سے کشتیاں بناتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بوٹس کلب بند ہوتے گئے اور ان کا کام بھی ماند پڑ گیا۔
انہوں نے کہا کہ اوپر سے بھارت نے دریا کا پانی روک دیا تو راوی کا حسن اور زندگی دونوں مانند پڑ گئے، اب یہ دریا صرف مون سون کے دنوں میں سانس لیتا ہے، باقی سال یہاں لاہور کی سیوریج بہتی ہے۔
عبدالمجید کی آواز میں فخر بھی ہے اور تلخی بھی، وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کئی نامور شخصیات کے لیے کشتیاں بنائی ہیں، ممتاز بھٹو، غلام مصطفیٰ کھر اور وزیراعظم شہباز شریف کے والد میاں محمد شریف ان کے گاہکوں میں شامل رہے اور میاں شریف ان سے خاص محبت رکھتے تھے۔
وقت کی سختی نے صرف روزگار ہی نہیں، ان کی دستکاری کے وسائل کو بھی محدود کر دیا ہے، پہلے دیودار کی لکڑی استعمال ہوتی تھی، مگر اب اس کی قیمت 14 سے 16 ہزار روپے فی فٹ تک پہنچ چکی ہے، اسی لیے وہ اب پائن اور شیشم کی لکڑی استعمال کرتے ہیں جو نسبتاً سستی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سات سے آٹھ افراد کی گنجائش والی کشتی کی لاگت اب تقریباً آٹھ لاکھ روپے تک جا پہنچی ہے لیکن راوی کے آلودہ پانی میں یہ کشتیاں زیادہ عرصہ نہیں ٹک پاتیں۔
عبدالمجید کے مطابق انہیں یہ کام تین سال بعد ملا ہے، وہ افسردگی سے کہتے ہیں کہ اب وہ یہ ہنر کسی کو کیوں سکھائیں؟ جب خود بے روزگار ہیں تو اور کون یہ فن سیکھنا چاہے گا؟ نہ دریا ویسا رہا، نہ وہ شہر اور نہ وہ خریدار رہے۔
بارشیں ہوئیں، تو دریا میں پانی آیا، آس پاس کے لوگ سیر کے لیے راوی کا رخ کرنے لگے، پرانی اور ناکارہ کشتیاں مرمت کی گئیں، چند دنوں کے لیے سرگرمی لوٹی، رونق واپس آئی لیکن عبدالمجید جانتے ہیں کہ یہ خوشی وقتی ہے اور جب بارشیں تھم جائیں گی، پانی اتر جائے گا تو راوی ایک بار پھر خاموش ہو جائے گا۔
یہ چند ہفتوں کی زندگی شاید عبدالمجید کے ہاتھوں سے بننے والی آخری کشتیاں بھی ہو سکتی ہیں، ان کے ہاتھوں سے نکلنے والی لکڑی کی ہر ضرب، ایک روایت کی آخری دھڑکن جیسی محسوس ہوتی ہے، راوی کے کنارے ایک ہنر، ایک عہد اور ایک کاریگر رفتہ رفتہ رخصت ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ وہ کہانیاں بھی جو کبھی اس دریا کی موجوں میں بہتی تھیں۔