بریتھ پاکستان: جسٹس منصور علی شاہ کی عالمی ماحولیاتی عدالت کے قیام کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
بریتھ پاکستان: جسٹس منصور علی شاہ کی عالمی ماحولیاتی عدالت کے قیام کی تجویز WhatsAppFacebookTwitter 0 6 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے عالمی ماحولیاتی عدالت کے قیام کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماحولیاتی انصاف اب دور کی بات نہیں ہے، یہ موجودہ اور بڑھتا ہوا بحران ہے جو کہ بالخصوص عالمی جنوب کے ممالک کے لیے خطرہ ہے،ماحولیاتی احتساب کا نظام فوری قائم کرنا چاہیے۔
کنونشن سینٹر اسلام آباد میں عالمی موسمیاتی کانفرنس ’بریتھ پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ پاکستان موسمیاتی تباہی کے تناظر میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے اور اس کا شمار خطرے سے سب سے زیادہ دوچار 5 ممالک میں ہوتا ہے، جسے شدید موسمی حالات، گلیشیئرز کے پگھلاؤ، پانی کی قلت اور تباہ کن سیلابوں کا سامنا ہے۔
سینئر پیونی جج نے کہا کہ مجھے سیلابوں اور تباہی کی مثالیں دینے کی ضرورت نہیں ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ 2022 کے سیلاب نے ایک تہائی ملک کو ڈبو دیا تھا،3 کروڑ 30 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے اور ملک کو 30 ارب ڈالر کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ہندوکش ہمالیہ گلیشئرز کے دامن میں واقع ہے جو کہ خطرناک تیزی سے پگھل رہے ہیں اور دریائے سندھ کے لیے خطرہ بن رہے ہیں جو کہ پاکستانی زرعی نظام کی لائف لائن ہے اور ملک کو پانی کے سنگین بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز، شدید ہیٹ ویوز،خشک سالی، جیکب آباد میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے کچھ علاقوں کو ناقابل رہائش بنادیا ہے، صحت کو درپیش خطرات بڑھ رہے ہیں، توانائی اور پانی کے وسائل میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً 40 فیصد افرادی قوت کو روزگار دینے والی زراعت غیر یقینی مون سون کا شکار ہے جس کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ، نقل مکانی اور معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ
پڑھیں:
وفاقی بجٹ میں ماحولیاتی ایمرجنسی کو نظر انداز کر دیا گیا: شیری رحمان
—فائل فوٹوپیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں ماحولیاتی ایمرجنسی کو نظرانداز کر دیا گیا ہے، وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کا بجٹ 3.5 ارب سے کم کر کے 2.7 ارب کر دیا گیا۔
اسلام آباد میں ’پاکستان میں موسمیاتی چیلنجز‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے فنڈنگ 7.2 ارب سے گھٹا کر 3.1 ارب کر دی گئی، بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا گیا۔
شیری رحمان کا کہنا ہے کہ محکمۂ موسمیات اور این ڈی ایم اے اکیلے ماحولیاتی بحران سے نہیں نمٹ سکتے، نجی اداروں کو ساتھ ملا کر نیشنل کلائمیٹ ایکو سسٹم بنانا ناگزیر ہے، جرمن واچ کے کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، میرے خیال سے ایران نے یورینیم کو کسی اور مقام پر منتقل کردیا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ گرمی، ژالہ باری اور اچانک سیلاب معمول بن چکے، 5 سال میں 16فیصد گلیشیئر ماس ختم ہو چکا، دریاؤں میں غیرقانونی مائننگ اور جنگلات کی کٹائی نے ماحولیاتی تناؤ کو بڑھا دیا۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر نے کہا کہ 90 فیصد پانی کی کھپت زراعت میں ہے جو ماحولیاتی جھٹکوں کی زد میں ہے، ملک کی 37 فیصد افرادی قوت زراعت پر انحصار کرتی ہے مگر وہ بحران کا شکار ہے، 45 فیصد پاکستانی غربت اور 21 فیصد غذائی قلت کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فضائی آلودگی پاکستان میں سالانہ 1.28 لاکھ افراد کی جان لے رہی ہے، فضائی آلودگی معیشت کو سالانہ 7 فیصد نقصان پہنچا رہی ہے، ہم ان تباہ کاریوں کو اب قدرتی نہیں انسان ساختہ جرائم کہیں گے۔