بنگلا دیش بحریہ کے نیول چیف کا نیول ہیڈ کوارٹرز کا دورہ ،سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
راولپنڈی ( ڈیلی پاکستان آن لائن )بنگلا دیش بحریہ کے نیول چیف ایڈمرل محمد نظم الحسن نے نیول ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا ۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف سے مہمان نیول چیف نے ملاقات بھی کی ۔نیول ہیڈکوارٹرز آمد پر پاک بحریہ کے چاق و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا ۔بعد ازاں معزز مہمان نے یادگار شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھائی ۔
سربراہ بنگلہ دیش بحریہ نے نیول ہیڈکوارٹرز کے پرنسپل سٹاف آفیسرز سے ملاقات کی ۔ ملاقات میں خطے کی سیکیورٹی صورتحال، باہمی دلچسپی کے امور اور دو طرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ سربراہ بنگلا دیش بحریہ نے خطے میں بحری سیکیورٹی اور استحکام کے حوالے سے پاک بحریہ کی کاوشوں کو سراہا۔
منہ کی صفائی کا آپ کی مجموعی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟
آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں سربراہان نے دو طرفہ دفاعی تعلقات کے دائرہ کار کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف نے امن ڈائیلاگ میں شرکت پر چیف آف دی نیول اسٹاف بنگلہ دیش کا شکریہ ادا کیا۔
سربراہ بنگلا دیش بحریہ کے حالیہ دورے سے دونوں ممالک بالخصوص بحری افواج کے مابین تعلقات کو مزید فروغ ملے گا۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: بنگلا دیش بحریہ پاک بحریہ بحریہ کے
پڑھیں:
SDF کو شامی افواج میں ضم ہونا چاہئے، عبدالله اوجلان
اپنے ایک بیان میں کُردستان ورکرز پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ میں، شام میں گزشتہ برس 10 مارچ کو جولانی رژیم اور کُرد فورسز کے درمیان ہونے والے معاہدے کی حمایت کرتا ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ کُردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے رہنماء "عبدالله اوجلان" نے کہا کہ میں، شام میں گزشتہ برس 10 مارچ کو جولانی رژیم اور کُرد فورسز کے درمیان ہونے والے معاہدے کی حمایت کرتا ہوں۔ اس معاہدے پر عمل ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ SDF کے نام سے معروف کُرد فورس کا شامی فوج میں ضم ہونا ایک اہم مسئلہ ہے، تاہم کُردوں کے زیر انتظام علاقوں کی سیکورٹی سنبھالنے والے "آسایش" نامی ادارے کو اپنا کام جاری رکھنا چاہئے۔ یاد رہے کہ سیرین ڈیموکریٹک فورس یعنی SDF کے سربراہ، کمانڈر مظلوم عبدی اور شام پر قابض باغیوں کے سربراہ "احمد الشرع" المعروف ابو محمد الجولانی نے گزشتہ برس 10 مارچ کو ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ جس کی رو سے خود ساختہ کُرد حکومت کے سول اور فوجی اداروں کو سال کے آخر تک قومی اداروں میں ضم ہونا تھا۔ لیکن دونوں فریقوں کے درمیان شدید اختلافات کے باعث یہ معاہدہ اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کُردستان ورکرز پارٹی، ترکیہ میں عسکری کارروائیاں کرتی تھی۔ اس گروہ نے حال ہی میں ہتھیار ڈالے ہیں۔ اس لئے تُرک حکومت کے ساتھ اس گروہ کے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ درنتیجہ اس گروہ کے سربراہ عبدالله اوجلان کا مذکورہ بیان، شام میں ترکیہ کے نفوذ کو ظاہر کرتا ہے۔