Daily Sub News:
2025-07-08@17:43:54 GMT

پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی

اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT

پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی

پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی WhatsAppFacebookTwitter 0 7 March, 2025 سب نیوز


تحریر سدرہ انیس

جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں ایک بد نام زمانہ مہم چلی جس کا نام خاندانی منصوبہ بندی تھا۔ جس کا سلوگن تھا بچے دو ہی اچھے پھر جب ہمارے دور میں اس سے متعلق کوئی ٹیلی ویژن پر اشتہار چلتا تھا تو کافی معیوب سمجھا جاتا تھا اور اِسے مغربی سازش مانا جاتا۔ بہر حال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمجھ میں آیا کہ بچے دو ہی اچھے سے کیا مراد ہے۔ حالیہ مہنگائی کے دور میں پاکستان میں بہت ذیادہ تعداد میں ایسے لوگ بھی ہے جو دو بچوں کا بھی خرچ بامشکل پورا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں 2.

6 ملین پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں چونکہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمی ہے اور جوں جوں آبادی بڑھ رہی ہے پاکستان کے مسائل میں اضافہ اور وسائل میں کمی آتی جارہی ہے تو آج اُس دور میں چلنے والی مہم کا مطلب واضح طور پر سمجھ آتا ہے۔
حالیہ مارچ 2025 کے سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی دنیا کی آبادی کا 3.1 فیصد ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ دنیا میں ہر 33 میں سے ایک شخص پاکستانی ہے۔ مارچ 2025 تک پاکستان کی آبادی 253,900,224 ہے۔ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ پاکستان میں آبادی کی کثافت 331 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان میں اوسط عمر 20.6 سال ہے۔
تقریباً 97% پاکستانی مسلمان ہیں، اور 90% آبادی سنی اسلام کی پیروی کرتی ہے۔ اور اگلے تیس سال میں پاکستان دنیا کا آبادی کے لحاظ سے تیسرا سب سے بڑا ملک ہو گا۔پاکستان میں آبادی بڑھنے کی وجہ سے جن مسائلِ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ان مسائل میں وسائل کی کمی، سماجی بدامنی، اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات شامل ہیں۔ دنیا کے ممالک میں پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ شرح پیدائش والا مُلک ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے ایک آرٹیکل کے مطابق پاکستان میں شرح پیدائش 2.5% ہے اور یہ ہمارے لیے ایک تشویشناک صورتحال ہے۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کی سب سے بڑی وجہ خاندانی منصوبہ بندی اور مانع حمل ادویات کا کم استعمال ہے اس کی بڑی وجہ مذہبی عقائد ہیں بعض مذہبی اسکالرز مانع حمل اور بچوں کی منصوبہ بندی کے بارے میں ایک محدود نظریہ رکھتے ہیں۔ چونکہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں ایک اچھی خاصی کثیر تعداد ان عقائد کو مانتی ہیں۔
اِس لیے وہ خاندانی منصوبہ بندی اور مانع حمل کو اسلامی تعلیمات کے خلاف سمجھتے ہیں۔پاکستانی خواتین خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں سے آگاہ ہیں،لیکن مانع حمل کی ادویات کے کم استعمال میں سماجی، ثقافتی، مذہبی، اور اقتصادی رکاوٹوں سمیت متعدد عوامل شامل ہیں۔شوہر کی مخالفت اور مشترکہ خاندانی نظام کی مداخلت عام رکاوٹیں ہیں۔ مذہبی پابندیاں اور مانع حمل ادویات کی قیمت FP طریقوں کے بارے میں آگاہی کی کمی اور استمعال کے بعد جسمانی صحت کو متاثر کرنے کا خوف شامل ہے۔ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ہم نے اِس بڑھتی ہوئی آبادی پر کوئی اقدامات نہ کیے تو مستقبل میں ہمیں پریشانی سے دوچار ہونا پڑےگا ۔ بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے ہمیں چاہیے کہ بیٹے کی پیدائش کے لئے مزید بچے پیدا کرنا اور بیٹیوں میں تفریق کے تصور کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کو گھر کی دہلیز پر مانع حمل خدمات کی مشاورت کو فروغ دینے کے لیے گروپس کو منظم کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ملک کے معاشی استحکام اور اپنے لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے اپنی شرح نمو کو کنٹرول کریں اور ایک ٹیم کے طور پر کام کریں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کے اِس جدید دور میں بھی ہم اس بات سے آگاہ نہیں کہ وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے لیے مسائل کا سبب ہے جس سے ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد نہیں رکھ سکتے ۔بڑھتی ہوئی آبادی اور ہمارے غیر زمہ دارانہ رویہ کو دیکھ کر مجھے حاطب صدیقی کی نظم یاد آتی ہے۔ جو ہمارے آجکل کے حالات پر سہی بیٹھتی ہے۔
کبوتر بولا غٹرغوں۔ یا اللہ میں کیا کروں
دو افراد کے کنبے کو۔ آخر میں کیسے پالوں
کیا لاؤں خود کھانے کو۔ کیا اُن کے منہ میں ڈالوں
کس کس سے فریاد کروں کس کس سے دانہ مانگوں
روتا کُرتا رہتا ہوں غوں غوں غوں غٹرغوں

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: بڑھتی ہوئی آبادی اور پاکستان میں پاکستان کی کی کمی

پڑھیں:

آڈیٹر جنرل رپورٹ، مالی سال 24-2023 کی سب سے بڑی مالی بے ضابطگی کہاں ہوئی؟

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے ہر سال رپورٹ جاری کی جاتی ہے جس میں وفاقی وزارتوں، سرکاری ادارے میں مالی بے ضابطگیوں، قواعد کے خلاف ورزیوں اور سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کی نشان دہی کی جاتی ہے، سال 24-2023 کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتوں میں 1100 ارب سے زائد مالیت کی مختلف بے ضابطگیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق اس سال کی سب سے بڑی بے ضابطگی 35 لاکھ 90 ہزار ٹن گندم امپورٹ کرنے کے فیصلے کو قرار دیا گیا ہے، اس فیصلے سے 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے، یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا کہ جب ملک بھر میں گندم کی پیداوار ہو چکی تھی اور گندم وافر مقدار میں موجود تھی اس فیصلے سے کاشتکاروں کو بھی شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے دور حکومت میں جنوری 2023 میں گندم کا بحران شدت اختیار کرگیا تھا، افغانستان اسمگل ہونے کے باعث ملک بھر میں گندم کی قلت ہوگئی تھی اور آٹے کی قیمت کنٹرول سے باہر ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پہلے اجلاس میں کیا کچھ زیربحث آیا؟

آٹے کی قیمت میں 60 روپے کلو اور گندم کی قیمت میں 1500 روپے فی من کا اضافہ ہوا تھا، جس پر گندم کی طلب پوری کرنے کے لیے حکومت نے 30 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دی تھی جس کے بعد گندم کا بحران حل ہوگیا۔

گندم درآمد کے لیے مجموعی طور پر 98 ارب 51 کروڑ روپے باہر بھیجے گئے، اور 6 ممالک سے گندم سے بھرے 70 جہاز منگوائے گئے، یہ اتنی گندم تھی کہ کئی ماہ گزرنے کے بعد کچھ جہاز بندرگاہ پر لنگرانداز رہے اور لاکھوں ٹن گندم ان پر لدی رہی تھی۔

گندم درآمد کرنے کے بعد ملک بھر میں گندم اتنی وافر مقدار میں موجود تھی کہ جن کسانوں سے ماضی میں 40 لاکھ ٹن گندم خریدی جاتی تھی، ان سے حکومت نے کوئی خریداری نہیں کی ہے، اور گندم کا ریٹ 5 ہزار 500 روپے فی من سے کم ہو کر 3 ہزار روپے تک آ گیا، بعد ازاں مارکیٹ میں خریدار موجود نہ ہونے کے باعث ریٹ 2200 روپے فی من تک گر گیا۔

مزید پڑھیں:بلوچستان کے سرکاری افسران  زکوٰۃ کی رقم ڈکار گئے، آڈٹ جنرل کی رپورٹ میں انکشاف

پاکستان میں ہر سال گندم کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جاتا ہے، پاکستان کی گندم کی سالانہ ضرورت 2.40 ملین میٹرک ٹن ہے جبکہ جو گندم پاکستان نے درآمد کی تھی اس کے بعد پاکستان کے پاس 3.59 ملین میٹرک ٹن گندم کا ذخیرہ ہو گیا تھا۔

گندم اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد پہلے تو کہا گیا کہ نگراں حکومت نے ضرورت نہ ہونے کے باوجود اضافی گندم درآمد کرنے کی اجازت دی، پھر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے خلاف تحقیقات کی بات کی گئی تھی۔

گندم اسکینڈل کی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق گندم بحران کی بنیاد پی ڈی ایم دور میں رکھی گئی، پی ڈی ایم دور حکومت میں 13 جولائی 2023 کو وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک طارق بشیر چیمہ نے سرکاری سطح پر 10 لاکھ ٹن گندم خریدنے کی سمری کی منظوری دی۔

مزید پڑھیں:بلوچستان میں اربوں روپے کی مالی بےضابطگیاں سامنے آگئیں

تاہم 8 اگست کو پی ڈی ایم حکومت کے آخری 2 دنوں میں اقتصادی رابطہ کمیٹی یعنی ای سی سی نے اس سمری کو مؤخر کردیا اور یوں یہ معاملہ اس وقت ٹل گیا، نگراں حکومت کے قیام سے قبل ہی گندم افغانستان اسمگل ہونے کے باعث ملک بھر میں گندم کی قلت کے باعث اس کے نرخ بڑھ رہے تھے۔

ایسی صورتحال میں گندم کی بڑھتی قیمت کو لگام دینے کے لیے گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ستمبر 2023 کو گندم خریداری کے لیے سمری وزیراعظم آفس بھیجی گئی، جس پر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بطور وزیر تحفظ خوراک دستخط کیے۔

گندم درآمد کرنے کی سمری منظوری کے لیے 12 ستمبر کو ای سی سی کو بھیجی گئی تاہم ایک مرتبہ پھر سے سمری مسترد کر دی گئی، تاہم ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد ای سی سی نے 23 اکتوبر 2023 کو گندم درآمد کرنے کی منظوری دیدی۔

مزید پڑھیں:وزارت خارجہ کے اکاؤنٹس میں 16 ارب سے زائد کی بے قاعدگیوں کا انکشاف

ای سی سی سے منظوری کے بعد باہر ممالک سے گندم خریدنے کا عمل شروع ہوا اور 24 نومبر کو ٹریڈ کارپوریشن پاکستان نے 11 لاکھ ٹن گندم خریداری کا ٹینڈر دیا تاہم کسی نے بولی نہ دی، جس کے بعد گندم پرائیویٹ سیکٹر کو درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

دسمبر 2023 تک یوکرین اور دیگر ممالک سے 12 لاکھ ٹن گندم پاکستان آ چکی تھی اس کے باوجود وہیٹ بورڈ کے اجلاس میں مزید 15 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی، اس کے فوری بعد ملک بھر میں گندم آنا شروع ہوگئی اور 25 جہاز گندم لے کر پاکستان آ گئے تاہم یہ گندم پرائیویٹ پارٹیوں کی تھی۔

فلور ملز ایسوسی ایشن اور گندم درآمدکنندگان نے بیرون ملک سے گندم خریدی ہوئی تھی، تاہم فروری میں گندم درآمد کرنے کا وقت ختم ہو رہا تھا جس پر درآمد کنندگان نے کہا کہ گندم خریدی جاچکی ہے اور کچھ توسیع دی جائے، جس پر گندم کی درآمد کی تاریخ میں 31 مارچ تک کی توسیع کر دی گئی۔

مزید پڑھیں:

عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل سے قبل 23 فروری 2024 کو وفاق نے وہیٹ بورڈ کے گندم درآمد کرنے کے فیصلے کی توثیق کی، جس کے بعد گندم پاکستان آتی رہی اور موجودہ حکومت کی تشکیل کے بعد بھی گندم کے پاکستان پہنچنے کا سلسلہ جاری رہا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آڈیٹر جنرل پی ڈی ایم ٹریڈ کارپوریشن پاکستان سرکاری فنڈز فلور ملز ایسوسی ایشن گندم وہیٹ بورڈ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ساری منصوبہ بندی ناکام ہو رہی ہے:مصطفی کمال
  • پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ساری منصوبہ بندی ناکام ہو رہی ہے، مصطفی کمال
  • آڈیٹر جنرل رپورٹ، مالی سال 24-2023 کی سب سے بڑی مالی بے ضابطگی کہاں ہوئی؟
  • ہمارے بغیر حکومت بنتی ہے نہ چلتی، غلط پالیسیاں غربت میں اضافہ کر رہی ہیں: فضل الرحمن 
  • مٹیاری،آبادی کے عالمی دن پر آگاہی سیشن کا انعقاد
  • ہماری آبادی کے مراکز، فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کی  کسی بھی کوشش کا سخت جواب دیا جائے گا؛ آرمی چیف
  • دیہی ترقی قومی خوشحالی کی ضمانت ہے، وزیراعظم کا دیہی آبادی کی ترقی کے عالمی دن پر پیغام
  • بھارت کیساتھ اسرائیل تھا، چین اور ترکیہ ہمارے دوست، جنگ خود لڑی: خواجہ آصف
  • بھارت کی بڑھتی ہوئی تنہائی
  • ترکیے اور چین ہمارے دوست ممالک ہیں لیکن جنگ پاکستان نے خود لڑی: وزیردفاع