اسلام ٹائمز: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 5 کروڑ مسلمانوں کیجانب سے وقف ترمیمی بل کیخلاف مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کو ای میل بھیجنے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ، ممتاز قومی اور ریاستی سطح کی مسلم تنظیموں اور اہم افراد کی وسیع نمائندگی کے باوجود مودی حکومت نے نہ صرف اپنے موقف پر نظرثانی کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ اس بل کو مزید سخت اور متنازع بنا دیا ہے۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی

وقف ترمیمی بل کے خلاف جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کو 5 کروڑ مسلمانوں کے ای میل، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور تمام اہم مرکزی و ریاستی مسلم تنظیموں اور اہم افراد کی "جے پی سی" میں نمائندگی اور ترمیمی بل کے ایک ایک شق پر مدلل گفتگو اور تحریری دستاویزات جمع کرنے کے باوجود مودی حکومت کے موقف میں تبدیلی آنے کے بجائے اسے مزید سخت اور متنازعہ بنا دیا گیا۔ جمہوری ملکوں میں کسی بھی قانون یا بل کو مقننہ میں پیش کرنے سے قبل ان لوگوں سے مشاورت کی جاتی ہے، جو اس کے اصل فریق ہوتے ہیں، تاہم مودی حکومت کا رویہ وقف ترمیمی بل کے حوالے سے بھی روز اول سے ہی تاناشاہی پر مبنی ہے۔ وقف قانون میں اس سے پہلے جتنی بار بھی ترامیم ہوئیں، مسلمانوں کے ارباب حل و عقد سے نہ صرف مشورہ کیا گیا بلکہ ان کی مدلل آراء و تجاویز کو ہمیشہ پیش نظر رکھا گیا۔

تاہم اس بار پارلیمنٹ میں بل پیش ہونے سے قبل مسلمانوں کے ذمہ داروں سے کوئی مشورہ نہیں لیا گیا اور جب بل کو پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تو اس پر 31 ممبران کی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنا دی گئی۔ البتہ حکمران جماعت کی اکثریت پر مبنی جے پی سی نے سوائے بل کو مزید سخت بنانے کے کوئی اور کام نہیں کیا۔ مسلمانوں کی مدلل آراء اور معقول تجاویز نہ صرف رد کر دی گئیں بلکہ کمیٹی میں شامل حزب اختلاف کے ممبران نے جو ترامیم پیش کی تھیں، انہیں بھی مسترد کر دیا گیا۔ بھارتی مسلمانوں کی ایک اہم نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپوزیشن کے لیڈروں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی حلیف سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے بھی خصوصی ملاقات کرکے انہیں وقف ترمیمی بل پر مسلمانوں کے مدلل موقف سے واقف کرایا تھا۔ پورے ملک میں مسلم تنظیموں نے بڑے بڑے احتجاجی جلسے منعقد کئے اور وقف ترمیمی بل کی پُرزور مخالفت کی۔

اس سب کے باوجود مسلمانوں کے اعتراضات کو خاطر میں نہیں لایا گیا اور "این ڈی اے" حکومت وقف املاک کو ہڑپنے اور برباد کرنے کے اپنے مذموم ایجنڈے پر تاحال پوری طرح گامزن ہے۔ بی جے پی کے اس فرقہ وارانہ ایجنڈے کا "این ڈی اے" میں شامل اس کی حلیف پارٹیاں بھی ساتھ دے رہی ہیں، جو خود کو سیکولر اور انصاف پسند کہتی ہیں اور مسلمانوں کا بھی بھرپور ووٹ حاصل کرتی ہیں۔ بی جے پی کی سیاست فرقہ وارانہ منافرت اور لڑاؤ اور حکومت کرو کے ذریعہ ووٹ پولارائزیشن کے ایجنڈے پر چلتی ہے، البتہ اس کی حلیف سیاسی پارٹیوں کو بہرحال یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس حد تک اس کا ساتھ دیں گی۔ ان حالات میں اب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، تمام دینی و ملی جماعتیں اور ملک کے تمام انصاف پسند لوگ ایک بار پھر سیکولر سیاسی پارٹیوں، این ڈی اے کی حلیف جماعتوں اور ملک کے ضمیر پر دستک دینے کے لئے اپنے جمہوری اور دستوری حق کا استعمال کرتے ہوئے 17 مارچ کو جنتر منتر (نئی دہلی) پر ایک دھرنا دے رہے ہیں۔

شاید اس طرح ممکن ہے کہ کچھ برف پگھلے اور مسلمانوں کا موقف پارلیمنٹ ممبران کو سمجھایا جاسکے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بہت ہی پُرامن طریقہ پر اور نظم و ضبط اور امن کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور برادران وطن کے جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے احتجاج میں شرکت کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دھرنا حکومت کے اڑیل رویئے اور وقف ترمیمی بل کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ کروڑوں مسلمانوں کے دینی جذبات و احساسات کو یکسر نظرانداز کرکے ایک ایسا قانون ان پر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو کہ پوری طرح تصور وقف کے خلاف اور وقف املاک کو تباہ و برباد کرنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ احتجاج عین جمہوری تقاضوں اور دستور کی عطا کردہ اظہار رائے کی آزادی کے تحت اور ملکی قانون کے تقاضوں کے تحت ہوگا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر اور جنرل سیکرٹری دونوں نے بھارتی مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کثیر تعداد میں اس احتجاج میں شریک ہوکر مودی حکومت کے جارحانہ رویئے پر اپنی ناراضگی کا بھرپور اظہار کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ملک بھر کے انصاف پسند شہریوں کے ساتھ مل کر 17 مارچ کو جنتر منتر پر احتجاج کرکے اپنے جمہوری اور آئینی حقوق کا استعمال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس مظاہرے کا مقصد سیکولر سیاسی جماعتوں، این ڈی اے کے اتحادیوں اور خود قوم کے ضمیر پر دستک دینا ہے، شاید ہمیں اپنے موقف کو مؤثر طریقے سے اراکین پارلیمنٹ تک پہنچانے میں مدد ملے گی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پانچ کروڑ مسلمانوں کی جانب سے وقف ترمیمی بل کے خلاف مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کو ای میل بھیجنے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ، ممتاز قومی اور ریاستی سطح کی مسلم تنظیموں اور اہم افراد کی وسیع نمائندگی کے باوجود حکومت نے نہ صرف اپنے موقف پر نظرثانی کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ اس بل کو مزید سخت اور متنازع بنا دیا ہے۔

مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے کہا کہ جمہوری ممالک میں، کسی بھی قانون یا بل کو مقننہ میں پیش کرنے سے پہلے عام طور پر اس کے بنیادی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بحث کی جاتی ہے۔ تاہم اس حکومت نے شروع سے ہی آمرانہ روش اختیار کی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقف ترمیمی بل کو مسلمانوں پر براہ راست حملہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے کہا کہ بی جے پی کی سیاست فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی حکمت عملی پر پروان چڑھتی ہے، تاہم اس کی اتحادی جماعتوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اس تفرقہ انگیز ایجنڈے کے ساتھ کس حد تک بی جے پی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے تیار ہیں۔ بورڈ نے کہا ہے کہ وہ وقف ایکٹ 2013ء میں ایسی کسی بھی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے، جس سے وقف املاک کی حیثیت اور نوعیت میں تبدیلی آئے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مزید کہا کہ وقف بورڈ کے حقوق میں کسی قسم کی کمی یا حد بندی کو بھی ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔

امارت شرعیہ کے معاون ناظم مولانا احمد حسین قاسمی مدنی نے بھی وقف ترمیمی بل کے نقصانات پر کہا کہ اوقاف میں ترمیم کرنے کا بل مودی حکومت کے گذشتہ تمام منصوبوں سے زیادہ خطرناک ہے اور صاف لفظوں میں کہیں تو اوقاف کی جائیداد کو ہڑپنے کا منصوبہ ہے، اس لئے یہ بل جب تک واپس نہیں لیا جاتا، ہمیں اس کے خلاف جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔ اس دوران آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ مودی حکومت کی طرف سے اس بل کو لانے کا واحد مقصد مسلمانوں سے ان کی وقف جائیدادوں کو چھین لینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت وقف بورڈ کی خود مختاری کو چھیننا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا "میں کہہ سکتا ہوں کہ اس مجوزہ ترمیم کے بارے میں میڈیا میں جو کچھ بھی لکھا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت وقف بورڈ کی خود مختاری چھیننا چاہتی ہے اور مداخلت کرنا چاہتی ہے، جو کہ مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔"

انہوں نے کہا کہ مقصد ایک ہی ہے کہ وقف کی جائیدادوں کو مسلمانوں سے چھین لیا جائے، شروع سے ہی آر ایس ایس و بی جے پی اس کی کوشش کر رہی ہیں۔ اسد الدین اویسی نے بھارتی شہریوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کے خلاف 17 مارچ کو جنتر منتر میں ہونے والے احتجاج کو کامیاب بنائیں۔ واضح رہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں وقف بورڈ کے پاس آٹھ لاکھ 72 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انڈیا میں ریلوے اور وزارتِ دفاع کے بعد سب سے زیادہ جائیداد وقف بورڈ کی ملکیت میں ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے وقف ترمیمی بل کے پارلیمانی کمیٹی انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے مسلمانوں کے مسلمانوں کی بل کے خلاف کے باوجود کرتے ہوئے اور مسلم بی جے پی جے پی سی کے ساتھ

پڑھیں:

امریکا: ٹیکساس کے گورنر نے مسلمانوں کو گھروں اور مساجد کی تعمیر سے روک دیا

امریکی میڈیا کے مطابق عام حالات میں ٹیکساس کے شہر جوزفین کے باہر 400 ایکڑ زمین پر رہائشی منصوبہ کوئی غیر معمولی بات نہ ہوتی لیکن حالیہ مہینوں میں گورنر گریگ ایبٹ نے اس مجوزہ منصوبے کو روکنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ گورنر کی جانب سے گھروں کی تعمیر کو روکنے کی وجہ ایک ہزار گھروں پر مشتمل اس منصوبے کو ایک مسجد کے گرد بنایا جانا ہے۔

ٹیکساس کے شہر پلانو میں ایسٹ پلانو اسلامک سینٹر (EPIC) نے 400 ایکڑ پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا، جس میں مسجد، مکانات، اسکول اور دیگر سہولیات شامل تھیں۔ ریاستی گورنر گریگ ایبٹ اور اٹارنی جنرل کین پیکسن نے اس منصوبے کو روکنے کی کوشش کی، جس پر EPIC نے اسے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔

امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے دفاع کے لیے اسلامی سینٹر کے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ کوئی جرم نہیں، گورنر کا ردِ عمل دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ نائن الیون ہو۔

مزید پڑھیں: نائیجر: شدت پسندوں کا مسجد پر حملہ، بازار و گھر نذر آتش، درجنوں افراد ہلاک

حالیہ برسوں میں امریکا میں مسلمانوں کو مساجد اور اسلامی مراکز کی تعمیر میں مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں بعض اوقات مقامی حکام کی جانب سے امتیازی سلوک بھی شامل رہا ہے۔ یہ رکاوٹیں اکثر زوننگ قوانین، تکنیکی مسائل یا مقامی آبادی کی مخالفت کی آڑ میں سامنے آئیں، لیکن متعدد معاملات میں عدالتوں نے ان اقدامات کو مذہبی آزادی کے خلاف قرار دیا ہے۔

 

مساجد کی تعمیر میں رکاوٹیں، چند نمایاں واقعات

1: نیوجرسی: برنارڈز ٹاؤن شپ

برنارڈز ٹاؤن شپ نے 2015 میں اسلامی سوسائٹی آف باسکنگ رج کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، جس کے بعد تنظیم اور امریکی محکمہ انصاف نے ٹاؤن شپ پر مذہبی امتیاز کا مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ ٹاؤن شپ نے دیگر مذاہب کے عبادت گاہوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا۔ نتیجتاً، ٹاؤن شپ نے 3.25 ملین ڈالر ہرجانے کی ادائیگی پر اتفاق کیا اور مسجد کی تعمیر کی اجازت دی گئی۔

2: ورجینیا: کلپیپر کاؤنٹی

کلپیپر کاؤنٹی نے 2016 میں اسلامی سینٹر آف کلپیپر کو مسجد کی تعمیر کے لیے ضروری سیوریج پرمٹ دینے سے انکار کر دیا، حالانکہ اس سے قبل 20 برس میں 25 میں سے 24 ایسے پرمٹس منظور کیے جا چکے تھے۔ امریکی محکمہ انصاف نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے کاؤنٹی کے فیصلے کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں مستحقین کے لیے جامع مسجد کا فری راشن اسٹور

3:مشی گن: اسٹرلنگ ہائٹس

اسٹرلنگ ہائٹس میں 2015 میں ایک مسجد کی تعمیر کی درخواست کو مقامی پلاننگ کمیشن نے مسترد کر دیا۔ سرکاری طور پر ٹریفک اور پارکنگ کے مسائل کو وجہ بتایا گیا، لیکن عوامی اجلاسوں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب آمیز بیانات سامنے آئے۔ امریکی محکمہ انصاف نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔

4: مسسیپی: ہورن لیک

2021 میں ہورن لیک شہر نے ابراہیم ہاؤس آف گاڈ مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کیا، حالانکہ زمین عبادت گاہوں کے لیے مختص تھی اور درخواست تمام تقاضے پورے کرتی تھی۔ ایک مقامی عہدیدار نے کہا، اگر آپ انہیں تعمیر کی اجازت دیں گے، تو اور لوگ آئیں گے۔ امریکی سول لبرٹیز یونین (ACLU) نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔

5: ٹیکساس: پلانو میں EPIC سٹی منصوبہ

ٹیکساس کے شہر پلانو میں ایسٹ پلانو اسلامک سینٹر (EPIC) نے 400 ایکڑ پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا، جس میں مسجد، مکانات، اسکول اور دیگر سہولیات شامل تھیں۔ ریاستی گورنر گریگ ایبٹ اور اٹارنی جنرل کین پیکسن نے اس منصوبے کو روکنے کی کوشش کی، جس پر EPIC نے اسے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔

مزید پڑھیں: چترال کے ریاستی دور کی شاہی مسجد جس کے 100 سال مکمل ہوگئے ہیں

قانونی چارہ جوئی اور مذہبی آزادی کا تحفظ

ان واقعات کے بعد، عدالتوں نے اکثر انکار کے فیصلوں کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔ امریکی محکمہ انصاف نے بھی کئی معاملات میں مداخلت کی اور مقامی حکام کے خلاف مقدمات دائر کیے۔ ان فیصلوں نے یہ واضح کیا کہ مذہبی آزادی امریکی آئین کا بنیادی حق ہے، اور کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو عبادت گاہیں تعمیر کرنے سے روکنا غیر قانونی ہے۔

اگرچہ امریکا میں مذہبی آزادی کا آئینی تحفظ موجود ہے لیکن مسلمانوں کو مساجد اور اسلامی مراکز کی تعمیر میں مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم، عدالتوں اور وفاقی اداروں کی مداخلت سے ان رکاوٹوں کو دور کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا امریکی میڈیا ٹیکساس ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی مسجد مسلمان نیوجرسی

متعلقہ مضامین

  • بھارتی اقدامات، مرکزی مسلم لیگ کاملک گیر احتجاج، مودی سرکار کیخلاف عوام سڑکوں پر، قوم کو متحد و بیدار کریں گے، مقررین
  • وفاقی حکومت نے او پی ایف کے بورڈ آف گورنرز کی تشکیل نو کردی
  • خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ترمیمی بل 2025 منظور کرلیا گیا
  • قومی اسمبلی کمیٹی برائے داخلہ میں پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ ترمیمی بل منظور،پاکستانیوں کو شہریت نہیں چھوڑنی پڑے گی،ڈی جی پاسپورٹس
  • قومی اسمبلی کمیٹی برائے داخلہ میں پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ ترمیمی بل منظور
  • امریکا: ٹیکساس کے گورنر نے مسلمانوں کو گھروں اور مساجد کی تعمیر سے روک دیا
  • امریکا، مسلمانوں کو گھروں اور مسجد کی تعمیر سے روک دیا گیا
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
  • متنازع کینالز منصوبے پرپیپلزپارٹی کے تحفظات، وفاقی حکومت کا مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ