بانی پی ٹی آئی کو جیل میں باسی کھانا دیا جاتا ہے، صاحبزادہ حامد رضا
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
سربراہ سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے الزام لگایا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں باسی کھانا دیا جاتا ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ اگر بانی پی ٹی آئی کو جیل میں مرضی کا کھانا ملنے کی بات سچ ثابت ہوئی تو وہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیں گے۔
پروگرام میں شریک وزیر مملکت برائے ریلوے بلال اظہر کیانی نےحامد رضا کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو نہ صرف مرضی کا کھانا میسر ہے بلکہ انہیں جیل میں ورزش کا سامان، کتابیں اور ٹی وی کی سہولت بھی مہیا کی گئی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی کو جیل میں
پڑھیں:
کیا مفاہمت ممکن ہوسکے گی؟
پی ٹی آئی میں موجود ایک بڑا سیاسی گروپ مفاہمت کی سیاست چاہتا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ لڑائی ،تناؤ اور ٹکراؤ کی سیاست کا خاتمہ ہو۔اس گروپ کے بقول مفاہمت کی سیاست نہ کرنے کی وجہ سے ان کو سیاست میں راستہ نہیں مل سکے گا۔ پی ٹی آئی میں اس سوچ کے حامی عناصر نے کوئی درمیانی راستے نکالنے کی کوشش کی مگر ان کو کامیابی نہیں مل سکی۔
اس حامی گروپ کے بقول بانی پی ٹی آئی کے سخت گیر بیانات کی وجہ سے مفاہمت کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔اس میں کسی حد تک سچائی بھی موجود ہے کیونکہ پی ٹی آئی میں کئی قسم کے ذہن اور لوگ اکٹھے ہیں۔وکلاء کا اپنا گروپ ہے جب کہ کے پی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا اپنا گروپ اور اپنا ایجنڈا ہے جب کہ پنجاب پی ٹی آئی کے لوگوں کی سوچ مختلف ہے۔
ویسے بھی سب سے زیادہ عتاب کا شکار پی ٹی آئی پنجاب کے لوگ ہیں اور پارٹی کے اندر پنجاب کی قیادت کا موقف بھی بہت کمزور ہے اور پارٹی کی لیڈر شپ پر جو چہرے چھائے ہوئے ہیں‘ان سب کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔بلوچستان میں بھی کوئی چہرہ موجود نہیں ہے جب کہ کراچی میں جن لوگوں نے کامیابیاں حاصل کی تھیں وہ بھی کہیںغائب ہو چکے ہیں۔کچھ مفرور صاحبان کے پی حکومت کے زیر سایہ وہاں موجود ہیں‘اس لیے وہ کے پی سے باہر نکل کر سیاست کر ہی نہیں سکتے کیونکہ انھیں اپنی گرفتاریوں کا خطرہ ہے۔
ایک طرف ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں تو دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے بائیکاٹ کر دیا ہے لیکن خیبرپختونخوا میں ضمنی الیکشن میں حصہ لیا جا رہا ہے۔عمر ایوب کی بیگم الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں جب کہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن کو خالی چھوڑ دیا گیا اور ایک حلقے سے مسلم لیگ ن کا امید وار بلامقابلہ کامیابی بھی حاصل کر چکا ہے۔اس قسم کی سیاسی پالیسی بھی پارٹی کے ورکرز اور ہمدردوں میں مایوسی کا باعث بن رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے وہ راہنما جو 9مئی کے واقعات کے بعد پارٹی چھوڑ گئے تھے، وہ مفاہمت کے تناظر میں سیاسی میدان میں کودے ہیں۔ان لوگوں کا خیال ہے کہ وہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطہ کاری کر کے شاید کوئی سیاسی ریلیف دلانے میں کامیاب ہو جائیں۔ لیکن ان کی پارٹی کے اندر کوئی پذیرائی نہیں ہو رہی ہے۔ان میں ایک نمایاں نام سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا ہے جو بدستور پی ٹی آئی کی سیاست سے جڑے ہوئے ہیں ۔وہ مسلسل پارٹی کے ساتھ ہی کھڑے ہیں اور ان کے بقول وہ کل بھی، آج بھی اور مستقبل میں بھی بانی پی ٹی آئی کی سیاست کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے تناظر میں موجودہ سیاسی قیادت کی کارکردگی سے مطمن نہیں ہیں۔ان کے بقول یہ قیادت نہ تو بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں کچھ کرسکی ہے اور نہ ہی پارٹی کی مزاحمتی سیاست میں کوئی جان ڈال سکی ہے۔
فواد چوہدری مسلسل پی ٹی آئی ،بانی پی ٹی آئی،اسٹیبلیشمنٹ سمیت حکومت کے درمیان سیاسی راستے کی تلاش میں ہیں ۔اگرچہ پی ٹی آئی کے بانی نے موجودہ حکومت سے کسی بھی سطح پر مذاکرات سے واضح طور پر انکار کیا ہوا ہے۔اس سے قبل کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کی قیادت نے بذریعہ خط اپنے پارٹی کے بانی سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے تاکہ جیلوں میں قید رہنماؤںکی رہائی کے لیے آسانیاں پیدا ہوسکیں لیکن بانی نے ان راہنماوں کے مطالبے کو بھی مسترد کردیا تھا ۔فواد چوہدری بھی اسی موقف کے ساتھ سامنے آئے ہیں کہ جیلوں میں قید سیاسی قیادت کے باہر آنے کی راہ ہموار ہوسکے اور جو بھی اس میں قانونی رکاوٹیں ہیں ان کو دور کیا جاسکے۔
سیاسی مقدمات کا خاتمہ ہو اور تاخیری حربے ختم ہوں، حکومت بھی نہ صرف اس ڈیڈ لاک کے خاتمہ میں پہل کو یقینی بنائے بلکہ خود پی ٹی آئی بھی اپنے سخت گیر موقف میں لچک کا مظاہرہ کرے۔ وہ حکومت سے بات چیت کے حامی ہیں مگر کیا واقعی مفاہمت کی سیاست کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے قید لیڈروں کو کوئی ریلیف مل سکتا ہے تو جواب نفی میں ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کیونکر ایسا چاہیں گی کہ پی ٹی آئی ،بانی پی ٹی آئی کو غیرمعمولی ریلیف دینے کے لیے راستہ ہموار کیا جائے۔
ممکن ہے کہ فواد چوہدری کی کہیں پس پردہ گفتگو ہوئی ہو لیکن کیا انھیں اس حوالے بانی پی ٹی آئی کی تائید بھی شامل ہے؟ فواد چوہدری نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ وہ کسی ایسے فارمولے کے ساتھ ہیںجس میں مائنس عمران خان ہیں۔ پرویز خٹک ، محمود خان اور جہانگیر ترین کا عمران خان کے بغیر سیاسی انجام سب دیکھ چکے ہیں۔اس لیے اس بات کافی الحال کوئی بھی امکان نہیں کہ فواد چوہدری بانی پی ٹی آئی کے مقابلے میں کسی اور کی سیاست کریں گے۔
اس بات میں سیاسی وزن ہے کہ جو لوگ پی ٹی آئی کے جیلوں میں موجود ہیں ان کو سیاسی طور پر باہر لایا جائے اور وہ موجودہ قیادت کے مقابلے میں اپنا سیاسی کردار ادا کریں تو اس تناظر میں پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو ریلیف مل سکتا ہے ۔لیکن ایک بات اہم ہے کہ مفاہمت کے لیے بانی پی ٹی آئی کو کس حد تک سیاسی سمجھوتہ کرنا پڑے گا؟۔ جہاں تک اس مشورے کا تعلق ہے کہ پہل حکومت کو کرنی چاہیے تو اب تک حکومت نے تو کوئی پہل نہیںکی ہے ہے ۔
پی ٹی آئی کے لوگوں کو دس دس برس کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں، وہ ظاہر کرتی ہیں کہ پی ٹی آئی کے لیے آسانیاں کم اور مشکلات بدستور رہیںگی۔اس میں کوئی شک نہیں کی اس وقت پی ٹی آئی کی موجودہ سیاست اپنی نااہلی کے باعث کچھ نہیںکرسکی ہے اور اس قیادت نے پارٹی اور بانی پی ٹی آئی کی مشکلات میں عملا ًاضافہ ہی کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت اور وہ سابق راہنما جو پارٹی چھوڑ گئے مگر اس کے باوجود پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ان کی دوبارہ پارٹی میں شمولیت پر فیصلہ نہ ہونا بھی مسائل کا باعث بن رہا ہے ۔حالانکہ جو لوگ دوبارہ آنا چاہتے ہیں ان کوغیر مشروط بنیادوں پر شامل کیا جانا چاہیے تاکہ یہ لوگ بھی تنظیمی دائرہ کار میں اپنا فعال کردار ادا کرسکیں ۔لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کچھ ممکن بناسکیں گے جس کا وہ اظہار کررہے ہیں یا کیا حکومت پہل کرتے ہوئے کچھ سازگار حالات پیدا کرسکے گی ۔دراصل فواد چوہدری سمیت بہت سے لوگ دوبارہ پارٹی میںفعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں لیکن موجودہ قیادت ان کی شمولیت کے حق میں نہیں ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ پی ٹی آئی، حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان مفاہمت چاہتے ہیں، اس کی کھل کر حمایت ہونی چاہیے کیونکہ اس وقت قومی سیاست میں داخلی،علاقائی اور عالمی سطح پر جو بڑے بڑے چیلنجز ریاست کو درپیش ہیں، اس کا واحد علاج مفاہمت کی سیاست سمیت سیاسی استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان مفاہمت کا ایک ایسا ایجنڈا سامنے آنا چاہیے جو ملک میں موجود اس وقت کے سیاسی جمود کو ختم کرنے میں مدد دے سکے۔لیکن اہم بات یہ ہی ہوگی کہ مفاہمت کے اس ایجنڈے پر بانی پی ٹی آئی کہاں کھڑے ہوںگے؟ اصل سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے رینک اینڈ فائل میں ایسے لوگوں کا کتنا وزن ہے جو چاہتے ہیں کہ مفاہمت کو لے کر آگے بڑھنا بھی ملک کے مسائل کو حل کرنے کا واحد راستہ ہے ۔خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی قیادت کا رویہ اور بانی پی ٹی آئی کا رویہ تو مفاہمت کے برعکس ہی نظر آتا ہے۔