بھارت؛ کرکٹ میچ کے دوران جھگڑا، 18 سالہ کھلاڑی تشدد سےہلاک
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
UTTAR PRADESH:
بھارت کی ریاست اترپردیش میں کرکٹ میچ کی آخری گیند پر ہونے والا جھگڑا جان لیوا ثابت ہوا اور بیٹ سے کیے گئےتشدد کے نتیجے میں 18 سالہ کھلاڑی دم توڑ گیا۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اترپردیش کے علاقے بلند شہر میں کرکٹ کے میچ کی آخری گیند پر دو کھلاڑیوں کے درمیان جھگڑا ہوا اور اس دوران 18 سالہ کھلاڑی کو بیٹ سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
پولیس نے بتایا کہ مقتول کے چچا کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، جس کے مطابق میچ کی آخری گیند پر جھگڑا دو کھلاڑیوں ونیش شرما اور شکتی کے درمیان ہوا۔
ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ ونیش شرمار نے شکتی پر بیٹ سے حملہ کیا اور اس وقت تک تشدد کرتے رہے تھے جب تک شکتی نے دم نہیں توڑا۔
مقتول کے چچا موہت کمار نے بتایا کہ وہ رسالپور گاؤں میں کرکٹ سے تھوڑی دوری پر کام کر رہے تھے اور اطلاع ملتے ہی جائے وقوع پر پہنچ گیا اور زخمی لڑکے کو اسپتال منتقل کیا جہاں ان کے دم توڑنے کی تصدیق کردی گئی۔
پولیس کی بھاری نفری گاؤں میں تعینات کردی گئی ہے تاکہ کسی قسم کے ناخوش گوار واقعے سے نمٹا جاسکے اور ملزم کی تلاش بھی جاری ہے۔
انوپشہر کے ڈی ایس پی رام کرن نے بتایا کہ ملزم کو تلاش کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں اور گرفتاری کے بعد ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارت میں مسلمانوں پر تشدد: پہلگام واقعے کی آڑ میں ہندو مسلم فساد پھیلانے کی کوشش
مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح حملے کے نتیجے میں شادی کے محض 6 روز میں ہی بیوہ ہوجانے والی ہیمانشی بیگناہ افراد کے خلاف نفرت انگیز کارروائیاں نہیں چاہیتیں لیکن دوسری جانب بھارت میں انتہا پسند افراد اپنے ہی ملک کے مسلمان شہریوں کو بیجا تشدد کا نشانہ بناکر انہیں متنفر کرنے اور ہندو مسلم فساد پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں مسلمانوں کے خلاف قتل، تشدد، نفرت انگیز رویے میں شدت آگئی
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پہلگام واقعے میں ہلاک ہونے والے انڈین نیوی کے افسر لیفٹیننٹ ونے نروال کی بیوہ ہیمانشی کا کہنا ہے کہ لوگ کشمیریوں اور بھارت کے مسلمان شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن وہ یہ سب نہیں چاہتیں وہ کسی کے خلاف نفرت نہیں بلکہ امن چاہتی ہیں بس ان کی خواہش یہ ہے کہ ان کے شوہر کے قاتلوں کو سزا مل جائے۔
ونے نروال اور ہیمانشی کی شادی پہلگام حملے سے 6 روز پہلے یعنی 16 اپریل کو ہوئی تھی اور یہ جوڑا کشمیر میں اپنا ہنی مون منانے گیا ہوا تھا۔
ہیمانشی کی مسلمانوں اور کشمیروں کو نشانہ نہ بنانے سے متعلق اپیل ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پہلگام حملے کے تناظر میں انڈیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کے واقعات تواتر سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔
مختلف حصوں میں آباد کشمیری طلبا اور کاروباری افراد نے بھی انڈین شہریوں کی جانب سے دھمکیاں دیے جانے اور تشدد جیسی شکایات کی ہیں۔
بیشتر کشمیری طلبا اور کاروباری افراد کا دعویٰ ہے کہ ان حالات کے پیشِ نظر وہ اپنے علاقے واپس جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
یاد رہے کہ پہلگام واقعے سے بہت پہلے ہی انسانی حقوق کی تنظیموں نے دعوے کیے تھے کہ حالیہ برسوں میں انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
واشنگٹن میں مقیم تنظیم ’سینٹر فار دی سٹڈی آف آرگنائزڈ ہیٹ‘ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلگام حملے کے بعد پورے انڈیا میں دائیں بازو کے ہندو گروپس کی طرف سے نفرت انگیز تقاریر میں زبردست اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔
تنظیم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر رقیب حمید نائیک کا کہنا ہے کہ اب تک ہم نے گزشتہ 8 دنوں میں 35 سے زیادہ ایسے واقعات ریکارڈ کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلگام حملے کو مسلم دشمنی کو فروغ دینے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیے: بھارت میں مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر میں حیران کن اضافہ
پہلگام حملے کے بعد انڈین میڈیا میں ایسی بہت سی رپورٹس شائع اور نشر ہوئی ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز وائرل ہیں جن میں مسلمانوں کو دھمکانے یا مشتعل افراد کی جانب سے ان پر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ایسی ہی ایک وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں اسکول سے گھر لوٹنے ہوئے ایک 15 سالہ مسلمان لڑکے کو مبینہ طور پر دائیں بازو کی ایک تنظیم کے ارکان نے گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا اور اسے سڑک پر چسپاں پاکستان کے جھنڈے کی بیحرمتی کرنے پر مجبور کیا۔
اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکے نے ہجوم کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رحم کی اپیل کی لیکن اسے مجبور کیا گیا کہ وہ ’ہندوستان زندہ باد‘ اور ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے بھی لگائے۔ مقامی پولیس کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
اسی طرح اتوار کے روز جنوبی ریاست کرناٹک میں مشتعل ہجوم نے ایک مسلمان شخص کو کرکٹ میچ کے دوران مبینہ طور پر ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔
’سینٹر فار دی اسٹڈی آف آرگنائزڈ ہیٹ‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رقیب حمید نائیک کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے کو ایک وسیع تر فرقہ وارانہ فلیش پوائنٹ میں تبدیل کرنے کی واضح اور فعال کوششیں کی جا رہی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات آن لائن پھیلائی جانے والی نفرت اور حقیقی زندگی میں کمزور گروہوں کو پہنچنے والے نقصان کے درمیان تعلق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلگام حملوں کے بعد آن لائن نفرت انگیزی اور انسان مخالف بیانیہ تشدد کے اِن واقعات کے لیے چنگاری کا کام کر رہا ہے۔
تشدد کے مبینہ واقعات کے علاوہ اہم رہنماؤں کی جانب سے بھی اس نوعیت کے بیانات سامنے آ رہے ہیں جنہیں مقامی مسلمان نفرت پر مبنی قرار دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارتی مسلمانوں کو ’پاکستانی‘ کہنا گالی اور جرم نہیں، بھارتی سپریم کورٹ
حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے مشرقی ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرمانے کہا ہے کہ ان کی ریاست میں مقامی پولیس نے کم از کم 34 ’ملک دشمنوں‘ کو جیل بھیج دیا ہے۔
24 اپریل کو انہوں نے اعلان کیا تھا کہ پولیس نے امین الاسلام نامی ایک ریاستی اسمبلی کے رکن کو غداری کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
یاد رہے کہ ممبر ریاستی اسمبلی امین الاسلام نے مبینہ طور پر دعویٰ کیا تھا کہ سنہ 2019 کا پلوامہ حملہ اور پہلگام حملہ حکومت کی سازشیں تھیں۔ امین الاسلام کی پارٹی نے ان کے بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
پہلگام حملے کے بعد ہونے والے تشدد کے پہلے واقعے میں اتر پردیش کے شہر آگرہ میں ایک نوجوان مسلمان شخص کو مبینہ طور پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ایک وائرل ویڈیو میں اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایک شخص نے خود کو ’چھتریہ گؤ رکھشا دل‘ (گایوں کی حفاظت کے نام پر بنایا گیا ایک گروپ) کا رکن بتایا تھا اور کہا تھا کہ یہ حملہ پہلگام حملے کے ردعمل میں تھا۔
اسی طرح انڈیا کے مختلف حصوں میں کئی کشمیری طلبا پر بھی حملے ہوئے ہیں یا انہیں علاقہ چھوڑ کر جانے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔
گزشتہ ہفتے پولیس نے ہمالیائی شہر دہرادون میں ایک دائیں بازو کے رہنما کے خلاف مقدمہ درج کیا جنہوں نے کشمیری طلبا کو فوری علاقہ چھوڑ کر چلے جانے کی دھمکی دی تھی۔
ان واقعات میں مبینہ طور پر اضافے کے بعد کشمیر اور ریاست کے باہر کے کئی طلبا گروپوں نے طلبا کی مدد کے لیے ہیلپ لائن قائم کی ہے تاہم کشمیری رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ طلبا پر تشدد کے واقعات ابھی بھی جاری ہیں۔
اسی طرح گذشتہ ہفتے شمالی انڈیا کے پہاڑی شہر مسوری میں شال فروخت کرنے کے کاروبار سے منسلک افراد کو مارا پیٹا گیا۔ اس حوالے سے ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد پولیس نے 3 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
تبصرہ نگار اپورواناد کا کہنا ہے کہ پورے انڈیا میں کشمیری طلبا کو تشدد کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کشمیر میں انھوں (کشمیریوں) نے ہمارے لیے اپنے گھر کھولے، یہاں ہم ان پر حملہ کر رہے ہیں اور انھیں بھگا رہے ہیں۔ کیا اب انڈین ہونے اور انسان ہونے میں فرق ہو سکتا ہے؟
یاد رہے کہ اس نوعیت کے معاملات میں حکمراں جماعت اور اس سے منسلک گروہوں کا نام لیا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت بھارت میں انتخابات بھارتی مسلمان کشمیری مسلمان