بھارتی فلم سازوں کی بھارت-پاکستان لڑائی سے منافع کمانے کی کوشش
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اگست 2025ء) جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں حریف ممالک بھارت اور پاکستان نے مئی میں ایک دوسرے پر توپ خانے، ڈرون اور فضائی حملے کیے، جب بھارتی حکومت نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے ایک مسلح حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی اور غیر جانبدارانہ تفتیش کرانے کا مطالبہ کیا۔
لڑائی اس وقت ختم ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک جنگ بندی کا اعلان کیا۔اب بالی وڈ کے کچھ فلم ساز اس لڑائی کو ایک نفع بخش موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ’آپدا میں اوسر‘ یعنی ’مصیبت میں مواقع تلاش کرنے‘ کی تلقین کرتے رہے ہیں۔
(جاری ہے)
بھارت نے پاکستان کے خلاف اپنی فوجی کارروائی کو ’’آپریشن سیندور‘‘ کا نام دیا، جو ہندی میں اس سرخ رنگ کے پاؤڈر کو کہتے ہیں جو شادی شدہ ہندو عورتیں اپنی مانگ میں لگاتی ہیں اور جسے سہاگ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
اس نام کو ان خواتین کی بیوگی کا انتقام لینے کے لیے بھارت کے پختہ عزم کی علامت سمجھا گیا جن کے شوہر 22 اپریل کو کشمیر کے پہلگام میں حملے میں مارے گئے تھے، جس کے نتیجے میں یہ جھڑپیں شروع ہوئی تھیں۔
فلم ساز کمپنیوں نے اس آپریشن سے متاثر ہو کر کئی فلمی ٹائٹلز رجسٹر کروا لیے ہیں، جن میں ’مشن سیندور‘، ’سندور: دی ریونج‘، ’دی پہلگام ٹیرر‘ اور’سیندور آپریشن‘ شامل ہیں۔
ہدایت کار وویک اگنی ہوتری نے کہا، ’’یہ ایک کہانی ہے جسے سنایا جانا چاہیے۔ اگر یہ ہالی ووڈ ہوتا تو وہ اس موضوع پر دس فلمیں بنا چکے ہوتے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ پردے کے پیچھے کیا ہوا تھا۔‘‘
رنگین بیانیہحکمران دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اگنی ہوتری کی موقف کی بھرپور تائید کی، حالانکہ اس پر یہ الزام لگا کہ یہ بھارت کی اقلیت مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتی ہے۔
تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ 2014 میں جب ہندو قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی اقتدار میں آئے، تب سے بالی وڈ پرحکومت کے نظریات کی ترویج کا دباؤ بڑھا ہے۔
فلم نقاد اور اسکرین رائٹر راجہ سین کا کہنا ہے کہ فلم ساز خود کو حکومت کے موافق ماحول میں محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
راجہ سین نے پاکستان کے ساتھ جھڑپوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے جنگ چھیڑنے کی کوشش کی اور جب ٹرمپ صاحب نے ہمیں روک دیا تو ہم چپ ہو گئے۔
تو یہاں بہادری کہاں ہے؟‘‘معروف ہدایت کار انیل شرما، جو جذباتی فلمیں بنانے کے لیے مشہور ہیں، نے پہلگام حملے پر فلمیں بنانے کی دوڑ پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بھیڑ چال ہے … یہ موسمی فلم ساز ہیں، ان کی اپنی مجبوریاں ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’میں کسی واقعے کے ہونے کا انتظار نہیں کرتا کہ اس پر فلم بناؤں۔
ایک موضوع خود سے جذبات ابھارے تو تب جا کر سینما وجود میں آتا ہے۔‘‘انیل شرما کی تاریخی ایکشن فلم ’غدر: ایک پریم کتھا‘ (2001) اور اس کا سیکوئل ’غدر 2 ‘(2023)، دونوں سنی دیول کی اداکاری سے مزین، باکس آفس پر شاندار کامیابیاں حاصل کر چکی ہیں۔
بالی وڈ میں فلم ساز اکثر قومی دنوں جیسے یومِ آزادی کے آس پاس اپنی فلمیں ریلیز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب عوام میں حب الوطنی کا جوش عروج پر ہوتا ہے۔
فلم 'فائٹر‘، جس میں ہریتک روشن اور دیپیکا پاڈوکون نے مرکزی کردار نبھایا ہے، گذشتہ سال بھارت کے یوم جمہوریہ سے ایک دن پہلے، 25 جنوری کو ریلیز ہوئی تھی۔ مسلم مخالف رجحاناتاگرچہ فلم 'فائٹر‘حقیقت پر مبنی نہیں تھی، مگر یہ بھارت کے 2019 میں پاکستان کے بالا کوٹ پر کیے گئے فضائی حملے سے متاثر تھی۔ فلم کو ملے جلے سے مثبت تبصرے ملے لیکن یہ بھارت میں 2.
اسی سال فلم ’چھاوا‘، جو مراٹھا سلطنت کے حکمران سمبھاجی مہاراج کی زندگی پر مبنی ہے، سال کی سب سے بڑی ہٹ ثابت ہوئی۔ تاہم اس پر مسلمانوں کے خلاف تعصب ابھارنے کے الزامات بھی لگے۔
راجہ سین نے کہا،’’یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سینما میں مسلمان بادشاہوں اور رہنماؤں کو شدت پسند اور پرتشدد طریقے سے دکھایا جا رہا ہے۔
‘‘انہوں نے کہا کہ فلم ساز ایسے موضوعات سے اجتناب کرتے ہیں جو ''حکومت کے خلاف‘‘ ہوں۔
راجہ سین کا کہنا تھا،’’اگر عوام کو ایسے درجنوں فلموں کے ذریعے ایک ہی نظریہ بار بار دکھایا جائے، اور دوسرے فریق کو اپنا موقف بیان کرنے کی اجازت نہ ہو، تو یہ پروپیگنڈا اور غلط معلومات عوامی شعور میں رچ بس جاتی ہیں۔‘‘
معروف ہدایتکار رکیش اوم پرکاش مہرا نے کہا کہ حقیقی حب الوطنی یہ ہے کہ سینما کے ذریعے امن و ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔
مہرا کی سماجی وسیاسی فلم ’رنگ دے بسنتی‘ (2006) کو قومی ایوارڈ ملا اور اسے ’گولڈن گلوب‘ اور’آسکر ایوارڈز‘ میں بھارت کی جانب سے نامزد بھی کیا گیا۔
انہوں نے سوال کیا، ’’ہم کیسے امن حاصل کریں اور بہتر سماج قائم کریں؟ ہم اپنے ہمسایوں سے محبت کرنا کیسے سیکھیں؟ میرے لیے یہی حب الوطنی ہے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارت کے کے خلاف فلم ساز نے کہا
پڑھیں:
پاکستان نے بھارتی رافیل طیارہ کیسے گرایا؟ برطانوی میڈیا نے لمحے لمحے کی روداد بتادی
7 مئی کو نصف شب کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی ایک غیرمعمولی فضائی جھڑپ میں بھارت کے جدید ترین لڑاکا طیارے رافیل کی تباہی نے دنیا بھر کے عسکری حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں اس واقعے کی اصل وجوہات، تکنیکی پہلوؤں اور خفیہ معلومات کی ناکامیوں پر روشنی ڈالی ہے۔
پس منظر: کشیدگی اور حملے کی فضاہاک بھارت کا آغاز پہلگام حملے کے بعد ہوا جس میں 26 بھارتی سیاح ہلاک ہوگئے تھے اور بھارت روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کسی ثبوت کے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا۔
جس پر پاکستان نے اس الزام کو یکسر مسترد کر دیا تھا تاہم بھارت نے اس واقعے کی آڑ میں 7 مئی کی صبح پاکستان پر فضائی حملہ کیا جس کے ردِعمل میں پاکستان نے غیر معمولی فوجی چابک دستی کا مظاہرہ کیا۔
آپریشن روم میں پاک فضائیہ کے سربراہ ہر وقت موجود رہےرائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر کئی روز سے ایئر آپریشن روم میں موجود تھے اور لمحے لمحے کی نگرانی کر رہے تھے۔
جیسے ہی بھارتی طیاروں کی بڑی تعداد ریڈار پر ظاہر ہوئی پاک فضائیہ کے چیف نے فوری طور پر چینی ساختہ جے-10 سی (Vigorous Dragon) طیارے روانہ کرنے کا حکم دیا اور خاص طور پر رافیل طیاروں کو نشانہ بنانے کی ہدایت کی۔
چینی میزائل PL-15: گیم چینجر ثابت ہوارائٹرز نے انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ رافیل کی تباہی کی سب سے اہم وجہ بھارتی انٹیلیجنس کی غلطی بنی، جس نے چینی ساختہ PL-15 میزائل کی اصل رینج کا غلط اندازہ لگایا۔
بھارتی پائلٹ یہ سمجھتے رہے کہ وہ پاکستانی میزائلوں کی پہنچ سے باہر ہیں، حالانکہ اصل میں PL-15 کی رینج 200 کلومیٹر یا اس سے زیادہ نکلی۔ اس میزائل کو پاکستانی جے-10 سی طیارے نے فائر کیا، اور یہی وار رافیل کو لے ڈوبا۔
پاکستانی الیکٹرانک وارفیئر؛ بھارت پر کاری وارپاکستان نے نہ صرف میزائلوں کے ذریعے برتری حاصل کی بلکہ اس نے ایک جدید "کِل چین" (Kill Chain) نظام بھی ترتیب دیا۔
رائٹرز کے بقول چار پاکستانی حکام نے تصدیق کی کہ یہ نیٹ ورک زمین، فضا اور خلا میں موجود سینسرز کو جوڑتا ہے، جس میں پاکستانی ساختہ Data Link-17 اور سویڈن کا ساختہ نگرانی کرنے والا طیارہ بھی شامل تھا۔
اس نظام کے تحت، پاکستانی جے-10 سی طیارے ریڈار بند رکھ کر دشمن کی نظروں سے چھپ کر پرواز کرتے رہے، جب کہ دور پرواز کرتا نگرانی طیارہ انہیں ریئل ٹائم فیڈ دیتا رہا۔
عالمی اثرات: فرانس اور چین کا موازنہرافیل طیارے کو گرائے جانے کی خبر کے بعد فرانسیسی کمپنی Dassault کے شیئرز میں کمی دیکھی گئی۔
انڈونیشیا جیسا ملک، جو رافیل خریدنے والا تھا، اب چینی جے-10 سی میں دلچسپی لینے لگا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ چین کے اسلحہ برآمدات میں ایک بڑی پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے۔
رافیل طیارے کی تباہی؛ بھارت کا انکار، فرانس کا اقراراگرچہ بھارت نے باضابطہ طور پر رافیل کے گرنے کی تصدیق نہیں کی، لیکن فرانسیسی فضائیہ کے سربراہ اور Dassault کے اعلیٰ حکام نے جون میں اشارہ دیا کہ بھارت نے ایک رافیل اور دیگر دو طیارے (جن میں ایک روسی ساختہ سخوئی شامل تھا) کھو دیے ہیں۔
بھارتی حکمت عملی میں تبدیلی7 مئی کی اس شکست کے بعد بھارت نے اپنی فضائی حکمت عملی تبدیل کی۔ 10 مئی کو بھارتی فضائیہ نے پاکستان کے 9 ایئربیسز اور ریڈارز پر حملے کیے جن میں ایک نگرانی کا طیارہ بھی شامل تھا۔
بھارتی برہموش میزائل نے بار بار پاکستانی دفاعی نظام میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں کیں لیکن ناکام رہا اور اس ناکامی کے چند دن بعد امریکا کی ثالثی میں پاکستان کے ساتھ جنگ بندی پر مجبور ہوا۔
چین کا کردار اور تعاونرائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس شکست فاش کے بعد بھارتی حکام نے بارہا الزام عائد کیا کہ پاکستان کو لڑائی کے دوران چین سے "لائیو ان پٹ" یعنی سیٹلائٹ اور ریڈار ڈیٹا ملتا رہا،
تاہم پاکستان نے بھارت کے اس بے بنیاد الزام کو مسترد کر دیا۔
رائٹرز کے بقول بعدازاں چینی فضائیہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل وانگ گینگ نے پاکستان کا دورہ کیا اور چینی ہتھیاروں کے "Kill Chain" میں استعمال پر دلچسپی کا اظہار کیا۔
بھارتی رکن اسمبلی نے رافیل طیارہ گرنے کے شواہد لوک سبھا میں پیش کردیئے
یاد رہے کہ لوک سبھا میں رکن اسمبلی امریندر سنگھ نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود "BS001 رافیل" کو بھارتی پنجاب میں گرتے دیکھا۔
انھوں نے اپنی اس بات کے شواہد بھی ایوان میں پیش کیے تاہم بھارتی حکومت نے اب تک اس واقعے پر کوئی باضابطہ مؤقف اختیار نہیں کیا ہے۔