مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ میں پھر تقسیم، نظرثانی منظور، جسٹس عقیل اور جسٹس عائشہ کا اختلاف
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ میں پھر تقسیم، نظرثانی منظور، جسٹس عقیل اور جسٹس عائشہ کا اختلاف WhatsAppFacebookTwitter 0 6 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں کو باضابطہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔ کیس کی سماعت کل دوبارہ ہوگی جبکہ توہینِ عدالت کی درخواست بھی اسی کیس کے ساتھ سنی جائے گی۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے جاری فیصلے کے مطابق، 13 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی اور بینچ کے 11 اراکین نے اکثریتی رائے سے نظرثانی درخواستوں پر سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے درخواستوں کو ناقابلِ سماعت قرار دیا۔بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق، جسٹس باقر نجفی اور دیگر شامل ہیں۔
اختلافی نوٹ میں دونوں معزز جج صاحبان نے موقف اختیار کیا کہ نظرثانی کی بنیاد پر فیصلہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اور معاملے میں قانونی طور پر کوئی نئی بات پیش نہیں کی گئی۔عدالت نے تمام متعلقہ فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کل کی تاریخ مقرر کی ہے۔
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 13 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ مسلم لیگ (ن)کے وکیل حارث عظمت نے روسٹرم سنبھالا اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق ہی نہیں تھی۔جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس نکتے کا جواب فیصلے میں دیا جا چکا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے آر او کا آرڈر اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود تھا۔
وکیل حارث عظمت نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وکلا کی فوج تھی لیکن انہوں نے ان آرڈرز کو چیلنج نہیں کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا، کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا پوری قوم کو دیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے نوٹس میں ایک چیز آئی تو اسے جانے دیتے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سارے نکات تفصیل سے سن کر فیصلہ دیا گیا تھا، جبکہ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ نظرثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں، آپ نظرثانی کے گراونڈز نہیں بتا رہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا؟ جس پر جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ توہین عدالت کی درخواست آج لگی ہوئی ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ کیس بہت تفصیل سے سنا گیا تھا، اور پھر سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا یا نہیں؟ وکیل حارث عظمت نے کہا کہ مجھے کنفرم نہیں ہے۔ جس پر جسٹس عائشہ ملک نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے کھڑے ہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کو کنفرم نہیں؟۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بھی بتانا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ہمارے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کا پابند نہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد کے بغیر نظرثانی کیسے فائل کی جا سکتی ہے؟۔
جسٹس عقیل عباسی نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لے رہے ہیں، اسے چھوڑ دیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا، اب آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے؟۔جسٹس عقیل عباسی نے مزید کہا کہ جو باتیں آپ بتا رہے ہیں ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں، کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے؟ انہوں نے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دینے کی ہدایت کی۔جسٹس عقیل عباسی نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ اس فیصلے سے کیسے متاثر ہیں؟ پہلے یہ بتائیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ریلیف لینے کے لیے عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہاں پر سوال پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ اس شخص کا ہے جو اپنے حلقے کی نمائندگی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حلقے کا مینڈیٹ کہتا ہے کہ میں فلاں پارٹی میں جانا چاہتا ہوں تو اسے کیسے روکا جا سکتا ہے؟۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ بنچ کا ایک ہی سوال ہے کہ فیصلے میں خامی کی نشاندہی کریں، اور عدالت سے پانچ منٹ کا وقت مانگا کہ وہ تمام نکات واضح کر دیں گے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے فیصلے پر عملدرآمد کیا ہے؟ اور کہا کہ ہاں یا نہ میں جواب دیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے ایک پیراگراف کی حد تک عمل کیا ہے۔ جس پر جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کیا یہ آپ کی منشا اور مرضی کی بات ہے کہ کس پیراگراف پر عمل کریں گے؟۔جسٹس جمال مندوخیل نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیس کو چھوڑیں، آپ سپریم کورٹ کو لے کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اگر کل کسی کو پھانسی کی سزا دیں تو کیا وہ کہے گا کہ بس سر تک پھندا ڈال کر چھوڑ دیا؟۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ میں نے آپ کی پٹیشن پڑھی ہے اور اس کے قابل سماعت ہونے پر میرا سوال ہے۔ جسٹس عقیل عباسی نے وکیل سے سوال کیا کہ اگر آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست ہٹا لی جائے تو کیا آپ اس کیس میں دلائل دے سکیں گے؟۔بعد ازاں، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے نظرثانی درخواستوں کو باضابطہ طور پر سماعت کے لیے منظور کر لیا اور فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔ تاہم جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے تینوں درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ کے مطابق گیارہ ججز نے نوٹسز جاری کرنے کی حمایت کی اور آج کی سماعت کا تحریری حکمنامہ بھی لکھوا دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں بتایا کہ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا جبکہ گیارہ ججز نے اکثریتی فیصلے سے فریقین کو نوٹسز جاری کیے۔ کیس کی سماعت کل دوبارہ ہوگی اور توہین عدالت کی درخواست بھی اسی کیس کے ساتھ سنی جائے گی۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں میں سپریم کورٹ نے کل دن ساڑھے گیارہ بجے کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس کی سماعت سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کا تحریر کردہ نظرثانی درخواستوں کے دائرہ کار پر اہم فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نظرثانی کی درخواست صرف آئین کے آرٹیکل 188 اور سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط کے تحت ہی کی جا سکتی ہے۔
فیصلے کے مطابق کسی بھی عدالتی فیصلے پر محض ایک فریق کا عدم اطمینان، نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ نظرثانی کی درخواست میں کسی واضح قانونی یا فنی غلطی کی نشاندہی ضروری ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ وہ نکات جو پہلے مقدمے میں مسترد ہو چکے ہوں، انہیں نظرثانی میں دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا، اور نہ ہی یہ دلیل قابلِ قبول ہے کہ فیصلے میں کوئی دوسرا نقطہ نظر شامل کیا جا سکتا تھا۔فیصلے میں اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں اس وقت تقریبا 22 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں سے 56 ہزار سے زائد کیسز سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہیں۔ ان میں ایک بڑا حصہ غیر ضروری اور من گھڑت نظرثانی درخواستوں کا ہے، جن کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل بنچ نے جاری کیا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسندھ سے سینیٹ کی خالی نشست پر پیپلز پارٹی کے وقار مہدی کامیاب سندھ سے سینیٹ کی خالی نشست پر پیپلز پارٹی کے وقار مہدی کامیاب عمران سے ملاقات کا دن، عمر ایوب اور پولیس کے درمیان جھڑپ، عامر ڈوگر پر تشدد اسرائیل کا یمنی دارالحکومت پر فضائی حملہ، صنعا ائیرپورٹ کو مکمل طور پر ناکارہ کرنیکا دعوی مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن گرینڈ الائنس میں شامل ہونے سے انکار کردیا بلوچستان میں کالعدم بی ایل اے کے دہشت گردوں کا حملہ، سیکیورٹی فورسز کے 7 جوان شہید بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا دن، 2بہنوں نورین خانم اور ڈاکٹر عظمی کو اجازت مل گئیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں جسٹس عقیل اور جسٹس
پڑھیں:
مخصوص نشستوں کا کیس: 2 ججز نے ای سی پی، ن لیگ، پی پی کی نظرثانی درخواستیں مسترد کردیں
— فائل فوٹوسپریم کورٹ کے 2 ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی نظرثانی درخواستیں مسترد کردیں۔
نظرثانی درخواستیں 12 جولائی کے فیصلے کے خلاف 2 ججز نے مسترد کی ہیں، سپریم کورٹ کے 11 ججز نے نظرثانی درخواستوں پر نوٹس جاری کردیے۔
نظرثانی درخواستیں مسترد کرنے والے ججز میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی شامل ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ وہ نظرثانی مسترد کر رہی ہیں اور اپنی وجوہات دیں گی۔
اکثریتی ججز نے کہا کہ تفصیلی فیصلے میں تمام تر قانونی و آئینی نکات کا احاطہ کر دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکلا، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے اکثریتی فیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کی۔
سپریم کورٹ نے 11 ججز نظرثانی میں جواب گزاروں کو نوٹس جاری کردیے ہیں، عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان کو سپریم کورٹ آرڈر 27 اے کے تحت نوٹس جاری کیا ہے۔
12 جولائی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا۔