فسطائیت کے خلاف عالمی جنگ میں چینی اور روسی عوام نے شانہ بشانہ جنگ لڑی، چینی صدر
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
فسطائیت کے خلاف عالمی جنگ میں چینی اور روسی عوام نے شانہ بشانہ جنگ لڑی، چینی صدر WhatsAppFacebookTwitter 0 7 May, 2025 سب نیوز
بیجنگ : روس کے سرکاری دورے اور عظیم حب الوطنی کی جنگ میں سابق سوویت یونین کی فتح کی 80 ویں سالگرہ کے جشن کے موقع پر روسی اخبار میں صدر شی جن پھنگ کا دستخط شدہ مضمون “تاریخ سے سبق سیکھنا اور مستقبل کی تخلیق کرنا ” شائع کیا گیا۔بد ھ کے روزمضمون میں کہا گیا ہے کہ اس سال جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ، سوویت یونین کی عظیم حب الوطنی کی جنگ اور عالمی فاشسٹ مخالف جنگ کی فتح کی 80 ویں سالگرہ کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے قیام کی 80 ویں سالگرہ بھی ہے۔
فسطائیت کے خلاف عالمی جنگ میں چینی اور روسی عوام نے شانہ بشانہ جنگ لڑی اور ایک دوسرے کی حمایت کی۔ آج 80 سال بعد انسانیت ایک بار پھر اتحاد یا تقسیم، مکالمے یا تصادم، باہمی جیت یا زیرو سم کے چوراہے پر کھڑی ہے۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے، ہر قسم کی بالادستی اور اقتدار کی سیاست کی سختی سے مخالفت کرنی چاہیے اور بنی نوع انسان کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ ہمیں دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کے بارے میں ایک درست نقطہ نظر کو برقرار رکھنا چاہئے۔ دوسری جنگ عظیم میں ایشیا اور یورپ کے اہم میدان جنگ کے طور پر ، چین اور سوویت یونین جاپانی عسکریت پسندی اور جرمن نازی ازم کے خلاف جدوجہد کی مرکزی بنیاد تھے ، اور دونوں نے عالمی فاشسٹ مخالف جنگ کی فتح میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ دوسری جنگ عظیم کی تاریخی سچائی کو مسخ کرنے، اس کی کامیابیوں کی نفی کرنے اور چین اور سوویت یونین کی تاریخی کاوشوں کو بدنام کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوں گی!
ہمیں جنگ کے بعد کے بین الاقوامی نظام کی مضبوطی سے حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے پہلے اور بعد میں عالمی برادری کی جانب سے کیا جانے والا سب سے اہم فیصلہ اقوام متحدہ کا قیام تھا۔ ہمیں اقوام متحدہ کے اختیار اور اس کی قیادت میں بین الاقوامی نظام کو مضبوطی سے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔اس سال فاشست قوتوں سے تائیوان کی آزادی کی 80 ویں سالگرہ بھی ہے۔ تائیوان کی چین میں واپسی دوسری جنگ عظیم میں فتح اور جنگ کے بعد کے بین الاقوامی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ “قاہرہ اعلامیہ”، “پوٹسڈیم اعلامیہ ” اور دیگر بین الاقوامی قانونی دستاویزات نے تائیوان پر چین کی خودمختاری کی تصدیق کی ہے۔
تائیوان کے جزیرے پر حالات چاہے کیسے ہی تبدیل کیوں نہ ہوں، بیرونی طاقتیں کتنی ہی مشکلات پیدا کر لیں، لیکن چین کی دوبارہ وحدت کا تاریخی رجحان ناقابل تسخیر ہے۔مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ ہمیں بین الاقوامی عدل و انصاف کا مضبوطی سے دفاع کرنے کی ضرورت ہے۔چین اور روس دونوں بڑی طاقتیں ہیں جو عالمی تزویراتی استحکام کو برقرار رکھنے اور عالمی گورننس کو بہتر بنانے میں اہم اثر و رسوخ اور تعمیری قوتوں کی حامل ہیں۔ چین اور روس کے تعلقات کسی تیسرے فریق کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کسی تیسرے فریق کے تابع ہیں۔ 80 سال پہلے ہم نے فاشسٹ مخالف جنگ میں ایک عظیم فتح حاصل کی تھی۔ آج، 80 سال بعد ہمیں اپنی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کے تحفظ کے لئے تمام ضروری اقدامات کرنے ہوں گے، اور بنی نوع انسان کے روشن مستقبل اور تقدیر کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا.
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین میں “یوم مئی” کی مضبوط کھپت میں دنیا کو مواقع نظر آئے ہیں ، چینی میڈیا چین میں “یوم مئی” کی مضبوط کھپت میں دنیا کو مواقع نظر آئے ہیں ، چینی میڈیا چین کا امریکہ کے ساتھ بات چیت کرنے کا فیصلہ روس کے تمام سماجی حلقے چینی صدر کے دورہ روس کے منتظر ہیں، چینی میڈیا چینی صدر کی فریڈرک مرز کو جرمنی کے چانسلر کے طور پر منتخب ہونے پر مبارکباد پاک بھارت کشیدگی: پاکستان اور بھارت کی اسٹاک ایکسچینچز میں شدید مندی سونے کی قیمت میں ایک مرتبہ پھر بڑا اضافہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کی 80 ویں سالگرہ بین الاقوامی چینی صدر اور روس کے خلاف چین اور روس کے
پڑھیں:
بھارت نے روسی تیل پر ٹرمپ کی ٹیرفس کی دھمکی مسترد کر دی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 اگست 2025ء) بھارت نے پیر کے روز روس سے تیل کی مسلسل خریداری پر امریکہ اور یورپی یونین کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو غیر منصفانہ قرار دیا۔
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھاری محصولات عائد کرنے کی دھمکیوں کے درمیان ملک اپنے اقتصادی مفادات کا تحفظ کرے گا۔
حالیہ ہفتوں میں امریکی انتظامیہ کئی بار روس سے سستا تیل خریدنے کے حوالے سے بھارت پر تنقید کر چکی ہے، تاہم نئی دہلی نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ پیر کے روز اس نے اس پر اپنا پہلا رد عمل ظاہر کیا۔
نئی دہلی نے روس کے ساتھ تجارت کے بارے میں کیا کہا؟رندھیر جیسوال نے ملکی ضروریات کے مطابق توانائی کی فراہمی کو محفوظ بنانے کے قومی خود مختاری کے حق پر زور دیتے ہوئے کہا، "بھارت کو نشانہ بنانا بلاجواز اور غیر معقول ہے۔
(جاری ہے)
"انہوں نے مزید کہا کہ "کسی بھی بڑی معیشت کی طرح، بھارت اپنے قومی مفادات اور اقتصادی سلامتی کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔"
جیسوال نے یہ بھی استدلال کیا کہ بھارت نے روسی تیل کی درآمدات صرف اس وقت شروع کیں، جب مغربی ممالک نے یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد روایتی سپلائی کو یورپ کی جانب موڑ دیا۔ انہوں نے یورپی یونین اور امریکہ دونوں پر اس معاملے میں منافقت کا الزام بھی لگایا۔
جیسوال نے کہا، "یہ دیکھنے کی بات ہے کہ بھارت پر تنقید کرنے والی قومیں خود روس کے ساتھ تجارت میں ملوث ہیں۔ ہمارے معاملے کے برعکس، اس طرح کی تجارت ان کی ایسی کوئی اہم قومی مجبوری بھی نہیں ہے۔"
جیسوال کھاد کیمیکل، لوہا، اسٹیل، مشینری اور ٹرانسپورٹ کے آلات پر مشتمل یورپ اور روس کے درمیان جاری تجارت کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اپنی جوہری صنعت کے لیے روسی یورینیم ہیکسا فلورائیڈ، الیکٹرک گاڑیوں کے لیے پیلیڈیم اور دیگر صنعتی سامان کی درآمد جاری رکھے ہوئے ہے۔
ٹرمپ نے بھارتی ٹیرفس کے بارے میں کیا کہا؟امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی دہلی پر الزام عائد کیا کہ وہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کی کوششوں کی حمایت کرنے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ رعایتی روسی تیل سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
انہوں نے اس کے لیے بھارتی اشیا پر محصولات میں تیزی سے اضافہ کرنے کی بات کہی۔اگرچہ ٹرمپ نے بھارت کے خلاف ٹیرفس کی درست شرح کی وضاحت نہیں کی،، تاہم فی الوقت بھارتی مصنوعات پر جو موجودہ 10 فیصد ٹیرفس عائد ہیں، ان کے جمعرات سے 25 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام بھارت کی طرف سے "بڑی مقدار میں روسی تیل خریدنے" اور پھر اسے منافع کے لیے دوبارہ فروخت کرنے کے جواب میں کیے گئے ہیں۔
ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ بھارت کا اس طرح سے روسی تیل خریدنا دو اصل یوکرین کے خلاف ماسکو کی جنگ کو ایندھن فراہم کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر لکھا: "انہیں اس بات کی پرواہ ہی نہیں ہے کہ یوکرین میں کتنے لوگ روسی جنگی مشین کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔"
امریکہ کا یہ اقدام اہم تجارتی تعلقات میں تناؤ کا سبب بن رہا ہے۔ امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، جس میں 2024 میں امریکہ کے لیے بھارت کی مجموعی برآمدات 87.4 بلین ڈالر تھیں۔ بھارت رواں برس اب تک امریکہ کے ساتھ تقریباً 46 بلین ڈالر کا ریکارڈ سرپلس تجارت کر چکا ہے۔
ادارت: جاوید اختر