Express News:
2025-11-13@22:29:45 GMT

دہشت گردی کے خلاف عالمی پیغام امید

اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT

بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس کے متفقہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی دنیا کے لیے سنگین خطرہ ہے اور اس کے خاتمے کے لیے سیکیورٹی اقدامات بلکہ پارلیمانی تعاون، مالی نگرانی اور اجتماعی عزم کی ضرورت ہے۔ دو روزہ بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی جب کہ اسلام آباد اعلامیہ متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ دنیا بھر کی پارلیمانوں کے اسپیکرز نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت امن، سلامتی اور ترقی کا اعادہ کیا۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں نمایاں ہیں۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

 دنیا ایک بار پھر اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوئی ہے کہ دہشت گردی محض ایک ملک یا خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر کی پارلیمانوں کے سربراہان نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے محض عسکری یا سیکیورٹی اقدامات کافی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر پارلیمانی تعاون، مالیاتی نگرانی، سیاسی عزم اور عوامی شمولیت ناگزیر ہے۔ یہ نقطہ نظر اس لیے بھی اہم ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ نے جہاں لاکھوں انسانی جانیں نگلیں، وہیں اقوام عالم کے سماجی و معاشی ڈھانچوں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ ایسے میں اگر عالمی پارلیمانیں مل کر کوئی لائحہ عمل طے کرتی ہیں تو یہ یقیناً ایک مثبت سمت میں قدم ہوگا۔

اسلام آباد اعلامیے کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں یعنی امن، سلامتی، ترقی اور باہمی احترام کے عزم کو دہرایا۔ اس عزم کی تجدید محض علامتی نہیں بلکہ عملی معنوں میں اس وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ موجودہ عالمی منظر نامے میں طاقت کے توازن، علاقائی تنازعات اور مفاداتی جنگوں نے دہشت گردی کے بیجوں کو مزید زرخیز زمین فراہم کر دی ہے، اگر عالمی پارلیمانیں اجتماعی طور پر یہ طے کر لیں کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں انتہا پسندی کے بیانیے کو روکنے کے لیے قانون سازی کریں گی، نفرت انگیز تقاریر اور شدت پسندی کے خلاف متحدہ موقف اپنائیں گی، تو دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک نئی سمت اختیار کر سکتی ہے۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے درست کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ بات محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک فکری حقیقت ہے۔ دہشت گردی ہمیشہ اس خلا میں جنم لیتی ہے جہاں انصاف کمزور، معیشت غیر متوازن اور معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف جو قربانیاں دی ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہزاروں شہری، سیکیورٹی اہلکار، طلبا، علما اور سیاست دان دہشت گردی کا نشانہ بنے، مگر قوم نے اپنے حوصلے پست نہیں کیے۔ آج اگر پاکستان خطے میں نسبتاً امن کی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے تو اس کے پیچھے انھی قربانیوں کی داستان پوشیدہ ہے۔

یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ اسلام آباد اعلامیے میں دہشت گردی کے مالی پہلوؤں پر خاص زور دیا گیا۔ ماضی میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو مالی معاونت روکنے کے حوالے سے عالمی سطح پر کئی قراردادیں منظور کی گئیں، لیکن ان پر عملدرآمد ہمیشہ ناکافی رہا۔ بعض بڑی طاقتوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر مخصوص گروہوں کو نظر انداز کیا یا ان کے مالی ذرائع بند کرنے سے گریز کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گردی کی مالیات کا نظام عالمی منڈیوں میں کہیں نہ کہیں سے سانس لیتا رہا، اگر اب واقعی پارلیمانی سطح پر مالی نگرانی کے نئے ضابطے طے کیے جائیں اور بین الاقوامی بینکنگ سسٹم میں شفافیت بڑھائی جائے تو دہشت گردی کی جڑیں کمزور کی جا سکتی ہیں۔

بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس میں شریک ممالک کے بیانات اور تجاویز نے اس حقیقت کو بھی واضح کیا کہ محض عسکری حل پر انحصار سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ جب تک معاشرتی انصاف، اقتصادی برابری، تعلیم، اور سماجی شمولیت کو فروغ نہیں دیا جاتا، دہشت گردی کا بیانیہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کانفرنس کا ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ اس میں عالمی پارلیمانی تعاون کے فروغ پر زور دیا گیا۔

یہ تصور نیا نہیں، لیکن آج کے دور میں اس کی افادیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پارلیمانیں عوامی نمایندہ ادارے ہیں، اور ان کے ذریعے عوامی رائے کو عالمی پالیسیوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا بھر کے اسپیکرز اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی قانون ساز اسمبلیوں کے ذریعے دہشت گردی کے بیانیے کو کمزور کریں گے، تو اس سے عالمی رائے عامہ کو ایک نیا رخ مل سکتا ہے۔دہشت گردی کا مسئلہ اس وقت اور زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے جب عالمی طاقتیں اسے اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرنے لگی ہیں۔ کسی جگہ اسے آزادی کی جدوجہد کہا جاتا ہے، تو کہیں دہشت گردی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ اس دوہرے معیار نے عالمی امن کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر، جیسا کہ اسلام آباد اعلامیہ میں تجویز کیا گیا، ایک جامع اور غیر جانبدار تعریف طے کر لی جائے کہ دہشت گردی ہے کیا، تو بہت سے ابہامات خود بخود ختم ہو جائیں گے۔

پاکستان کا کردار اس سلسلے میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک ایسے ملک کے طور پر جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان برداشت کیا، پاکستان کی رائے اور تجربہ عالمی سطح پر قیمتی اثاثہ ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنے خطاب میں اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف عسکری محاذ پر کامیابیاں حاصل کیں بلکہ اس نے علاقائی استحکام کے لیے بھی سنجیدہ سفارت کاری کی۔

افغانستان سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک پاکستان نے ہمیشہ یہ مؤقف اپنایا کہ امن مذاکرات کے بغیر پائیدار حل ممکن نہیں۔ یہی پیغام اب بین الپارلیمانی پلیٹ فارم سے دنیا کے سامنے آیا ہے کہ مذاکرات، تعاون اور مشترکہ عزم کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ خواب ہی رہے گا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مفادات کی سیاست ہے۔اسلام آباد اعلامیہ میں جو الفاظ ’’ اجتماعی عزم‘‘ کے لیے استعمال کیے گئے ہیں، وہ بظاہر سادہ معلوم ہوتے ہیں مگر ان کے اندر ایک بڑی سیاسی بصیرت چھپی ہوئی ہے۔ یہ عزم صرف حکومتوں کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہونا چاہیے۔

پارلیمانوں کے ذریعے عوامی شعور کو بیدار کرنا، نوجوان نسل کو شدت پسندی کے بیانیے سے محفوظ رکھنا اور معاشرتی انصاف کے اصولوں کو فروغ دینا ہی وہ اقدامات ہیں جن سے حقیقی تبدیلی ممکن ہے۔پاکستان کے لیے یہ کانفرنس اس لحاظ سے بھی اہم تھی کہ اس نے اسلام آباد کو ایک بار پھر عالمی سفارت کاری کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ ایسے وقت میں جب دنیا مختلف تنازعات میں الجھی ہوئی ہے، پاکستان کا امن کا پیغام اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا مؤقف عالمی برادری کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔ پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی اس کانفرنس نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ ملک نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ چکا ہے بلکہ وہ اب امن کے فروغ کے عالمی ایجنڈے میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک اور پہلو جو اسلام آباد اعلامیہ میں زیرِ بحث آیا، وہ سائبر دہشت گردی ہے۔ جدید دنیا میں دہشت گردی اب محض ہتھیاروں سے نہیں بلکہ معلومات اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی پھیلائی جا رہی ہے۔

جھوٹی خبریں، نفرت انگیز مہمات اور آن لائن بھرتی کے نیٹ ورکس نئے خطرات ہیں جن کا مقابلہ صرف ٹیکنالوجیکل تعاون سے ممکن ہے، اگر پارلیمانیں اس پہلو پر قانون سازی کریں اور عالمی سطح پر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ضابطے متعین کیے جائیں تو دہشت گردی کے نئے روپوں کا بروقت سدباب کیا جا سکتا ہے۔آخر میں یہ کہنا بجا ہے کہ اسلام آباد اعلامیہ محض ایک کاغذی معاہدہ نہیں بلکہ یہ ایک فکری سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اب اصل امتحان اس کے عملی نفاذ کا ہے۔ ہر ملک کو اپنی پارلیمان میں یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ اس عالمی عزم کو اپنی داخلی پالیسیوں میں کس طرح سموئے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ محض گولی سے نہیں جیتی جا سکتی، اسے تعلیم، انصاف، معاشی مساوات اور سیاسی شفافیت سے جیتا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا کی پارلیمانیں اس حقیقت کو سمجھ لیں اور اس کے مطابق اقدامات کریں تو وہ دن دور نہیں جب دہشت گردی کے سائے سے آزاد دنیا کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔

اسلام آباد کی فضا میں گونجنے والا یہ عالمی پیغام دراصل ایک امید ہے، امید اس بات کی کہ دنیا کے رہنما اب ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر مستقبل کے لیے ایک پُرامن راستہ اختیار کرنے پر تیار ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں اس عالمی جدوجہد کی بنیاد ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ امن کی راہ پاکستان سے گزر کر ہی جاتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلام ا باد اعلامیہ میں دہشت گردی کے بین الپارلیمانی دہشت گردی کا کہ دہشت گردی عالمی سطح پر پاکستان کی نہیں بلکہ کے ذریعے کہ اسلام سکتا ہے نے اپنے جا سکتا اس بات کے لیے

پڑھیں:

دہشت گردی کی نئی لہر

ملک میں دہشت گردی کے دو واقعات رونما ہوئے ہیں، پہلے میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کچہری کے باہر خود کش دھماکے کے نتیجے میں بارہ افراد جاں بحق جب کہ 36 افراد زخمی ہوگئے جب کہ دوسرے واقعے میں وانا کیڈٹ کالج پر حملہ آور تمام خوارج جہنم واصل ہوگئے، تمام 650 طلبہ اساتذہ کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا۔ اس وقت کالج کی بلڈنگ کو بارودی سرنگوں کے خطرے کی وجہ سے کلیئر کیا جا رہا ہے۔

 اسلام آباد کی کچہری کے باہر ہونے والا خودکش دھماکا بظاہر ایک دہشت گردی کا واقعہ لگتا ہے مگر اس کے اثرات محض بارہ قیمتی جانوں کے ضیاع اور درجنوں کے زخمی ہونے تک محدود نہیں۔ یہ واقعہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کے عین وسط میں، عدلیہ کے دروازے پر ہوا جہاں انصاف اور قانون کی علامتیں موجود ہیں۔

اس جگہ پر حملہ دراصل ریاست کے ستونوں پر حملہ تھا۔ دہشت گردوں نے یہ پیغام دیا کہ ان کی دسترس اب مرکز تک ہے، وہ عدالت، حکومت، قانون اور عوامی تحفظ کے بیچ میں گھس سکتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف جسمانی نقصان نہیں بلکہ خوف کا ایسا سایہ ڈالنا ہے جو شہریوں کے ذہنوں میں دیرپا بیٹھ جائے۔ یہی دہشت گردی کا اصل ہتھیار ہے خوف، عدم یقین اور بداعتمادی۔

 دوسری طرف، وانا کیڈٹ کالج پر حملے کا واقعہ، جہاں تمام طلبہ و اساتذہ کو بحفاظت نکالا گیا مگر عمارت کو بارودی سرنگوں کے خطرے کی بنا پرکلیئر کیا جا رہا ہے، ایک مختلف مگر اتنا ہی خطرناک پیغام رکھتا ہے۔ دہشت گردی کا یہ انداز بتاتا ہے کہ دشمن اب تعلیمی اور عسکری تربیت کے مراکز کو نشانہ بنا رہا ہے۔

کیڈٹ کالج پاکستان کے مستقبل کے محافظوں کی نرسری ہے۔ ان اداروں پر حملہ دراصل پاکستان کے کل پر حملہ ہے۔ دہشت گرد چاہتے ہیں کہ یہ ملک اپنی نئی نسل کو خوف میں مبتلا کرے۔ دہشت گردی کے اس دور میں یہ پہلو سب سے تشویشناک ہے کہ دشمن نے اپنی حکمت عملی کو نفسیاتی جنگ میں بدل دیا ہے، جہاں مقصد صرف قتل نہیں بلکہ امید کا قتل ہے۔

پاکستانی ریاست اور عوام دونوں اس حقیقت سے واقف ہیں کہ دہشت گردی کی یہ لہر اچانک نہیں اٹھی۔ اس کے پیچھے وہی پرانے زخم، ناتمام جنگیں اور غیر متوازن تعلقات ہیں جن کا محور افغانستان رہا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال نے پاکستان کے لیے نئے خطرات پیدا کیے ہیں۔

افغانستان نے اپنی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننے دی ہے اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ وہ بھارت کی پراکسی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بھارت، جو افغانستان میں برسوں سے سرمایہ کاری اور سیاسی اثر و رسوخ پیدا کرتا آیا ہے، اب وہاں سے پاکستان کے خلاف ایک خاموش مگر خطرناک محاذ چلا رہا ہے۔

بھارت کی اس پراکسی پالیسی کا مقصد پاکستان کو عسکری میدان میں الجھائے رکھنا، اس کی معیشت کو کمزور کرنا اور اس کے اندرونی استحکام کو کھوکھلا کرنا ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ براہ راست جنگ ممکن نہیں، اس لیے وہ غیر ریاستی عناصر، میڈیا نیٹ ورکس اور سفارتی دباؤ کے ذریعے پاکستان کے اندر اضطراب پیدا کرتا ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت، چاہے دانستہ ہو یا مجبوری کے تحت، اس کھیل میں حصہ بن چکی ہے۔

پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جا سکتا اور اگر وہاں سے حملے جاری رہے تو پاکستان کے پاس اپنے دفاع کے لیے کارروائی کا حق محفوظ ہے۔ بھارت اور افغانستان کی موجودہ قربت، وسط ایشیائی خطے میں طاقت کی نئی تقسیم اور چین کے ساتھ پاکستان کے معاشی منصوبے، یہ سب وہ عوامل ہیں جن سے دشمن خائف ہے۔

بھارت چاہتا ہے کہ سی پیک جیسے منصوبے ناکام ہوں، پاکستان کی اقتصادی رفتار رک جائے اور خطے میں اس کا اثر کم ہو۔ اس مقصد کے لیے وہ افغانستان کو ایک جغرافیائی اڈہ بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اب صرف عسکری خطرے نہیں بلکہ معاشی و سفارتی سازشوں کا بھی سامنا ہے۔

افغانستان کے حکمرانوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ بھارت کے ساتھ دوستی کے خواب پاکستان کی دشمنی میں تبدیل نہیں ہونے چاہییں، ورنہ وہی خواب اْن کے لیے ڈراؤنا انجام بن جائیں گے۔ پاکستان نے ہر مشکل گھڑی میں اپنے افغان بھائیوں کا ساتھ دیا، مگر اگر اب بھی کابل کی فضاؤں میں دہلی کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ ہم افغان عوام کے خیر خواہ ہیں، مگر کسی دشمن ملک کے آلہ کاروں سے رعایت نہیں برت سکتے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغان عوام ہمارے بھائی ہیں، اْن کے دکھ ہمارے دکھ ہیں، اور ہم امن و خوشحالی چاہتے ہیں مگر امن کی قیمت ہمارے شہداء اور ہمارے دفاع کی قربانیوں کے تحفظ کے بغیر ممکن نہیں، لہٰذا کابل حکومت کو فوری طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ یا تو اپنے اندر موجود دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی چھوڑ دے اور پڑوسی کے ساتھ باہمی اعتماد و احترام کی نئی شروعات کرے، یا پھر پاکستان اپنی سرحدوں، اپنے شہریوں اور اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے تمام قانونی، سفارتی اور اگر ضرورت پڑی تو عسکری آپشنز استعمال کرنے کا حق اپنے ہاتھ میں رکھے گا۔

بھارت چاہتا ہے کہ سی پیک جیسے منصوبے ناکام ہوں، پاکستان کی اقتصادی رفتار رک جائے، اور خطے میں اس کا اثر کم ہو۔ اس مقصد کے لیے وہ افغانستان کو ایک جغرافیائی اڈہ بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اب صرف عسکری خطرے نہیں بلکہ معاشی و سفارتی سازشوں کا بھی سامنا ہے۔پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات برابری، باہمی احترام اور اسلامی اخوت کے اصولوں پر استوار ہوں، مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب کابل اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کرے، بھارت کے فریب سے باہر نکلے اور پاکستان کے احسانات کو یاد رکھے۔

اگر ایسا ہو جائے تو خطہ امن و خوشحالی کا گہوارہ بن سکتا ہے، ورنہ دشمنوں کے کھیل میں الجھ کر افغانستان خود اپنا نقصان کرے گا۔ بھارت مسلسل افغان حکمرانوں کو پاکستان کے خلاف اکساتا رہا ہے اور وہ استعمال ہوتے رہے ہیں ۔ افغان حکمران بھی دل سے اسے مستقل سرحد مانتے ہیں مگر کبھی کبھی شرارتاً یا بھارت کے اُکسانے پر ایسا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ کہ ہماری سرحد تو اٹک تک جاتی ہے۔

ہندوستان یا برٹش انڈیا کی بھی کبھی کابل تک حکمرانی تھی مگر ہم نے تو کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ کابل تک کا علاقہ ہمارا ہے۔ اگر ریکارڈ دیکھیں تو افغانستان کے حکمرانوں کے کھاتے میں زیادتیوں اور جرائم کا ایک لامتناہی سلسلہ نکلے گا جب کہ پاکستان کے دامن میں محبت، ایثار، قربانیوں اور انھی کے ہاتھوں کھائے ہوئے زخموں کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔

افغان طالبان اگر انھیں واقعی اسلام سے محبت ہوتی تو وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہندوتوا کے علمبردار اور بھارت میں مسلمانوں کی زندگی، عذاب بنا دینے والے بھارتی حکمرانوں کی گود میں جاکر نہ بیٹھتے۔ کیا انھوں نے کبھی بے گناہ کشمیری مسلمانوں پر ظلم کرنے والی بھارتی فوج کے خلاف خودکش حملے کیے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ان کے حملوں کا نشانہ لاکھوں افغانوں کو قتل کرنے والے روسی یا ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے امریکی تو کبھی نہیں بنے، آخر ان کے حملوں کا نشانہ اسلام کے پیروکار، نماز روزے کے پابند اور ہر روز قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے مسلمان ہی کیوں بن رہے ہیں؟

 افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ افغان طالبان پر اعتبار کرنا مشکل ہے کیونکہ ماضی میں انھوں نے کسی وعدے کا پاس نہیں کیا۔ مگر اس ضمن میں سب سے اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ترکی جیسا خیر خواہ اور مخلص دوست اور برادر اسلامی مسلم اور قطر جیسا خیر خواہ معاہدے کرانے والوں اور گارنٹرز میں شامل ہے، افغانستان کو سوچنا چاہیے کہ طالبان حکمرانوں کو اب تک دہشت گرد قرار دینے والی مودی حکومت کی اپنے ملک میں کھلی مسلم دشمن پالیسیوں، کشمیر میں جاری اس کی مسلم کشی، صہیونی اسرائیلی حکمرانوں سے اس کے گہرے تزویراتی تعلقات، فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم میں ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے سے اس کا عملی تعاون، گزشتہ مئی میں پاکستان کے خلاف اس کی جارحیت جس میں اسرائیل کے سوا دنیا کے کسی ملک نے اس کی حمایت نہیں کی اور جس میں پاکستان کے ہاتھوں بدترین شکست کھا کر وہ دنیا بھر میں رسوا ہوا۔

اس مودی حکومت سے پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ کرنا جسے پوری مسلم دنیا آج اپنی سلامتی کا محافظ تصور کرتی ہے، اس کے لیے نفع کا سودا ہوگا یا سراسر گھاٹے کا؟ بہرکیف افغانستان کسی بھول میں نہ رہے کہ پاکستان اب کسی کی بدمعاشی برداشت نہیں کرے گا، اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ ابھی وقت ہے افغانستان اپنی اوقات میں آجائے، کیونکہ اس وقت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پوری قوم اپنی ریاست کے ساتھ کھڑی ہے اور یہ پیغام دشمن کے لیے واضح ہے کہ وطن کے خلاف کسی بھی بیرونی یا اندرونی سازش کو جڑ پکڑنے نہیں دیا جائے گا۔ اب پاکستان کے لیے اس ضمن میں سخت فیصلے کر نے کا وقت آن پہنچا ہے اور اسے اپنی آستین کے ان سانپوں کے سر کو کچلنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی دنیا کےلئے بڑا خطرہ،جس کے خلاف افواج پاکستان اور قوم متحد ہے: وزیراعظم
  • علیمہ خان کے خلاف 10ویں بار ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
  • سپیکرز کانفرنس: ترقی امن کے بغیر ممکن نہیں، اعلامیہ، دہشت گردی چیلنج، نمٹیں گے: اسحاق ڈار، یوسف رضا
  • دہشت گردی کی نئی لہر
  • کاروباری برادری دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہے،میاں زاہد حسین
  • دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ ہیں، حمایت جاری رہے گی: چین کا اعلان
  • حکومت دہشت گردوں کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال کرے ‘قاری محمدکریم
  • دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں پاکستان کے ساتھ ہیں، نیٹلی بیکر
  • اسلام آباد میں دہشت گردی ریاست کو پیغام سمجھنا چاہیے، خواجہ آصف